ددہوچھہ ڈیم کے متاثرین: 'ہم اپنے گھروں کی حفاظت کے لیئے ہر حد تک جائیں گے'

ددہوچھہ ڈیم کے متاثرین: 'ہم اپنے گھروں کی حفاظت کے لیئے ہر حد تک جائیں گے'
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مضافات میں ضلع راولپنڈی کی حدود میں  ددوہوچھہ ڈیم کے متاثرین اس وقت مشکل صورتحال میں ہیں۔ ایک جانب انکے گھر، انکے بچوں اور خاندانوں کے سائباں ڈیم کی حدود میں آنے کی وجہ سے  خطرے میں ہیں تو دوسری جانب مشکل یہ بھی ہے کہ  پاکستان کا طاقتور ترین ہاوسنگ برینڈ ڈی ایچ اے ان کے مقابلے پر ہے۔ تفصیلات کے مطابق  ددوہوچھہ ڈیم کے منصوبے پر باقاعدہ کام 2006 میں شروع کیا تھا۔ یہ ڈیم راولپنڈی کے مضافات میں موضع ددہوچھہ راجگان کی زمینوں پر بنایا جا رہا ہے اور اس وقت کی انتظامیہ نے اراضی ایکوائر کی تھی۔ آئین کے مطابق ایکوائر کی گئی زمین پر ایک سال کے اندر اندر منصوبہ شروع کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔ وزیراعلی کی صوابدید پر صرف 2 ماہ کی توسیع مل سکتی ہے اور آخری توسیع صرف ایک ہفتہ تک کی دی جا سکتی ہے۔ اس سے زیادہ کی آئین اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ آئین اور قانون کے مطابق منصوبے کا نوٹیفکیشن ختم کر دیا جاناچاہیے تھا۔

دوہوچھہ ڈیم کے منصوبہ اور ڈی ایچ اے کے ہاؤسنگ پراجیکٹ سے 22 موضعات براہ راست متاثر ہوتے ہیں اور 3200 کنال اراضی ایکوائر کی گئی ہے۔ انظامیہ نے اگست 2020 میں متاثرین کو نوٹس ارسال کیے کہ زمین ایکوائر کیے جانے پر اعتراضات داخل کرائیں اور اس کے بعد پرائس ایوارڈ کا اعلان کیا جائے۔ مگرانتظامیہ نے بدنیتی سے کام لیتے ہوئے اعتراضات سنے بغیر پچھلی تاریخوں میں پرائس ایوارڈ کا اعلان دیا او ر قابل کاشت زمینوں کو بنجر ظاہر کرتے ہوئے اپنی مرضی کے ریٹ مقرر کردیے۔ جس پر متاثرین نے عدالت سے رجوع کیا۔

متاثرین نے نیا دور کے نمائندہ کو بتایا کہ 3200 کنال اراضی کی ہمیں کوئی قیمت نہیں دی گئی۔ 600 کنال سے زائد کنال کی اراضی کی قیمت دینے ککے لیے جو رضا مندی اختیار کی گئی تو وہ زمین کی اصل قیمت سے کئی گنا کم تھی۔ انہیں ایک لاکھ روپے فی کنال کے حساب سے انکی رہائشی و زرعی اراضی کی قیمت ادا کی گئی جو کہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

متاثرین نے بتایا کہ اب پنڈی کی ضلعی انتظامیہ، ڈی ایچ اے کے نمائندے اور دیگر لوگ آتے ہیں اور روز ہمیں جگہ خالی کرنے کا کہتے ہیں۔  ہم نے انہیں بتا دیا ہے کہ پہلے ہماری متبادل رہائش کا انتظام ہو ایک بہتر معاوضہ دیا جائے جس کے بعد ہی یہ جگہ خالی ہو۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم انتظامیہ کو مزاحمت کا پیغام دیتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ  اس سب کے پیچھے بوٹ ہیں( فوج ہے) یہ کیوں فوج کو بدنام کرتے ہیں؟ ہم میں سے کئی فوج میں رہے ہیں۔ اس پر وضاحت ہونی چاہیے کہ ہم غریبوں کی زمینوں کی ان کو کیوں ضرورت ہے جو وہ پیچھے ہیں؟ یا یہ نام استعمال کررہے ہیں؟ ہمیں اپنا آپ بھارت کے ہاتھوں کشمیری لگ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام تر کیس ہمارے حق میں ہیں اب یہ ہمیں جلد از جلد اٹھانا چاہتے ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد کی قبریں یہاں ہیں وہ سب پانی کے نیچے آجایں گی۔ ہمارا قبیلہ سینکڑوں سالوں سے یہاں آباد ہے۔ ہم یہاں سے کیوں جائیں؟ اور جائیں بھی کس متبادل کے؟ اگر ہمارے ساتھ زبردستی کی گئی تو ہم مکمل مذاحمت کریں گے۔

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔