’’جبر کیسا بھی ہو، نامنظور ہے‘‘

’’جبر کیسا بھی ہو، نامنظور ہے‘‘
اِس ہفتے ایک ہی دِن میں دو ایسی خبریں سننے کو ملیں جنہوں نے کافی لمبے عرصے بعد لکھنے پر مجبور کر دیا۔ پہلی خبر کا تعلق فرانس سے ہے۔ فرانس میں اسلامی حجاب پر پابندی ہے اور جب فرانس میں رہنے والی مسلمان خواتین نے گرمی کی شدید لہر سے تنگ آ کر سوئمنگ پولز کا رخ کیا تو فرانس کی حکومت نے اُن سوئمنگ پولز پر ہی پبندی لگا دی کیونکہ مسلمان خواتین نے برقینی پہن کر تیراکی کرنے کی ہمت کر لی۔ برقینی تیراکی کا ایسا لباس ہوتا ہے جِس میں سَر سے پیر تک جسم کا کوئی حصہ عریاں نہیں ہوتا۔ فرانسیسی حکومت کہنا یہ چاہ رہی ہے کہ ہمارے یہاں صرف نیم برہنہ خواتین کو ہی تیراکی کا حق ہے۔ برقع پہننا ہے تو گھر میں بیٹھو۔



دوسری خبر ایران کی تھی کہ وہاں بھی گرمی سے تنگ آ کر کُچھ ٹین ایج لڑکیوں نے واٹر گن سے پانی ایک دوسرے پر پھینکنے کا کھیل کھیلا جس سے اُن کا لباس گیلا ہو کر بدن سے چپک گیا اور اُن کو دیکھ کر کسی شریف انسان کا لہو اس حد تک گرم ہو گیا کہ پولیس کو ہی بلوا ڈالا۔ اب جو میں نے خود اپنی انکھوں سے فوٹیج دیکھی اُس میں ایک پولیس والا ایک نوجوان لڑکی کو زد و کوب کر رہا تھا اور گھسیٹتا ہوا اپنی پولیس گاڑی میں بیٹھا رہا تھا۔ لڑکی بری طرح چلا رہی تھی اور صاف نظر آ رہا تھا کہ کس بری طرح اُس کو مارا پیٹا جا رہا ہے۔

ان دونوں خبروں کو پیشِ نظر رکھا جائے تو فرانس اور ایران کے حالات میں کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔ ایک ملک عورت کو زبردستی برہنہ کرنا چاہتا ہے اور ایک زبردستی برقع اوڑھانا چاہتا ہے۔ یہ دونوں ہی جبر کی شدید اقسام ہیں۔

مُجھے 2011 میں زیارت کے سلسلے میں ایران جانے کا موقع ملا اور مشہد، قم اور تہران کے سفر کا تجربہ نصیب ہوا۔ جو حالات ان آنکھوں نے آٹھ سال پہلے دیکھے تھے آج کے حالات اُس سے کہیں آگے نظر آتے ہیں۔ اُس وقت بھی نوجوان ایرانی لڑکے اور لڑکیاں اپنے بنیادی انسانی حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے نظر آئے۔ پولیس سے بچنے کے لئے خواتین نے بس واجبی سا حجاب کیا ہوا تھا یعنی مرتے کیا نہ کرتے۔



ہمیں حرمِ امام رضا ع جانا تھا اس لئے ہم نے سر تا پا چادر اوڑھی ہوئی تھی کیونکہ حرم میں چھوٹی بچی بھی بغیر حجاب کے داخل نہیں ہو سکتی اور یہ امام کے حرم کے تقدس کے لئے ضروری بھی ہے۔ جب ملینیا ٹرمپ کو ویٹیکن سِٹی میں سکارف پہننا پڑا تو یہ تو حرمِ امامِ عالی مقام کی بات ہے۔

اب ہم تو تھے سادہ سے پاکستانی تو جیسے حال میں حرم گئے اسی حالت میں واپس بھی آ گئے لیکن ایرانی خواتین نے حرم سے نکلتے ہی چادریں اتار دیں اور وہی واجبی سا حجاب جو پولیس سے بچنے کے لئے کیا جاتا ہے اسی حالت میں واپس آ گئیں۔ اب یہ سارا نظارہ میری لئے کافی حیرت انگیز تھا۔

مجھے ایرانی خواتین دوہری زندگی جیتی ہوئی نظر آئیں۔ ایک حرم کے اندر کی زندگی ہے جہاں وہ بس ایک عابدہ زاہدہ ہیں اور ایک زندگی حرم سے باہر کی ہے جہاں وہ اپنی مرضی سی جینا چاہتی ہیں لیکن اُنہیں جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور زبردستی چادر کا پابند کیا جاتا ہے حلانکہ یہ مکمل طور پر انسان اور معبود کے آپس کا معاملہ ہے، بالکل ایسے ہی جیسے عاشق اور معشوق کے بیچ کوئی تیسرا ہو تو رقیب ہی کہلاتا ہے۔ بس اُسی طرح ایرانی پولیس خدا اور بندے کے بیچ میں رقیب بنی رہتی ہے۔



فرانس کا حال بھی کم و بیش ایسا ہی ہے لیکن وہاں شدت کی دوسری قسم پائی جاتی ہے۔ فرانس کے حالات کا اثر اتنا شدید ہے کہ یہاں کینیڈا کے صوبے کیوبیک تک میں جہاں فرانسیسی بولنے والوں کی اکثریت ہے، مسلمان خواتین کے نقاب کرنے پر پابندی ہی۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہر طرح کا جبر قابلِ مذمت ہے چاہے وہ مذہب کے نام پر کیا جائے یا لا دینیت کے نام پر۔ اس لحاظ سے پاکستان قدرے بہتر ہے جہاں ابھی تک خواتین کا جینا اتنا محال نہیں ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں؛ وہ جو نقاب کو پسند کرتے ہیں اور وہ بھی جو نقاب کو پسند نہیں کرتے لیکن سب اپنے اپنے انداز سے زندگی گزارتے ہیں۔ ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم ایک آزاد ملک میں جیتے ہیں جہاں اب بھی قوانین کسی حد تک انسانی بنیادوں پر بنائے جاتے ہیں اور مذہبی شدت پسندی کو کوشش کے باوجود بھی کسی حد تک پاکستانی معاشرے نے ریجیکٹ کیا ہوا ہے۔ خدا اس رواداری کو اور ترقی دے اور پاکستان کو سعودی عرب، ایران اور فرانس بننے سے بچائے۔