سپریم کورٹ نے بالاخر پنجاب میں جاری سیاسی بحران کو ختم کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کا انتخاب 22 جولائی کو کرنے کا حکم دیدیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ دونوں کے درمیان اتفاق رائے پر خوشی ہوئی۔ اللہ تعالی کا مشکور ہوں کہ اس نے مخالفین کو ایک نقطے پر متفق کیا۔
ڈاکٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے حمزہ شہباز کو دوبارہ انتخاب تک وزیراعلی تسلیم کر لیا ہے۔ شفاف ضمنی انتخابات اور مخصوص نشستوں کے نوٹیفکیشن تک حمزہ بطور وزیراعلٰی قبول ہیں۔ آئی جی، چیف سیکرٹری اور الیکشن کمیشن کو قانون کے مطابق کام کرنے کا حکم دیا جائے۔
خیال رہے کہ تحریک انصاف نے آج صبح وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں منحرف اراکین کے ووٹ شمار کئے بغیر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرانے کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپیل پر سماعت کے لئے بنچ تشکیل دیا تھا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ کیس کی سماعت کی۔ 3 رکنی بنچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس جمال خان مندو خیل شامل تھے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج نے اختلافی نوٹ دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس اعجازالاحسن نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ سادہ سی بات ہے کہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنہوں نے 197 ووٹ لئے ہیں ان میں سے 25 ووٹ نکال دیے ہیں۔ وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہماری اپیل ہے کہ زیادہ سے زیادہ اراکین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی درخواست میں یہ بات نہیں، ہم آپ کی درخواست کو پڑھ کر آئے ہیں، بنیادی طور پر آپ یہ مانتے نہیں کہ فیصلہ آپ کے حق میں ہوا ہے، جس پر بابر اعوان نے کہا کہ اصولی طور پر اس فیصلے کو مانتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کیس کی مزید سماعت 2 بج کر 45 منٹ تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ آدھے گھنٹے میں دوبارہ سماعت ہوگی۔ دوبارہ سماعت کے آغاز پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آج وزیر اعلیٰ کا انتخاب نہیں ہوگا اس پر سب متفق ہیں، مسئلے کے تین حل ہیں۔
اس کے ساتھ ہی عدالت نے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی کو ویڈیو لنک پر لاہور رجسٹری میں طلب کر لیا۔ طلب کرنے پر وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری پہنچے۔ سماعت کے دوران سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی نے حمزہ شہباز کو وزیراعلی پنجاب برقرار رکھنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ اس کے بعد کیس کی سماعت چار بجے تک ملتوی کردی گئی۔
عدالت نے ویڈیو لنک پر پرویز الہٰی سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ پرویز الٰہی نے یہ کہا ہے کہ حمزہ شہباز وزیر اعلی رہیں، انہیں کوئی اعتراض نہیں ، کیا یہ بات درست ہے؟ چودھری پرویز الہٰی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ دراصل ایسا نہیں ہے، آج بھی اسمبلی میں پولیس تعینات کی گئی ہے، مجھے ان پر بالکل اعتبار نہیں ہے۔
چودھری پرویز الہٰی سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت سب کی نظریں اس معاملے پر ہیں، اس کو آئین اور جمہوری روایات کے مطابق حل ہونا چاہیے، وکلا نے کہا کہ پولنگ کا وقت 17تاریخ تک کا دیں، اسی بنیاد پر آپ کو بلایا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کی درخواست میں 26 گھنٹوں کو بڑھانے کی استدعا کی گئی ہے، جب کہ آپ کے وکیل نے 10 اور 7 دن کی استدعا کی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے پرویز الہیٰ سے کہا کہ آپ کے وکیل نے کہا کہ ضمنی الیکشن اور ہاؤس مکمل ہونے تک حمزہ کے وزیراعلیٰ رہنے پر اعتراض نہیں، ہاؤس مکمل ہونے کے بعد جس کی اکثریت ہوگی وہ وزیر اعلیٰ بن جائےگا، دوسری صورت الیکشن کیلئے وقت کی کمی کی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ پاکستان میں موجود اراکین کے آنے تک دوسری صورت میں وقت دیا جاسکتا ہے، ملک کو مستقل طور پر اس طرح نہیں چھوڑا جاسکتا، پرویز الہیٰ کی تجویز عدالت کو مناسب لگی تھی، ہاؤس پورا ہونے پر جس کی اکثریت ہوگی وہ جیت جائےگا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے پرویز الہیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہی حالات چلتے رہے تو کسی کا بھی فائدہ نہیں ہونا، کیا آپ کو ضمنی الیکشن تک حمزہ شہباز وزیراعلی پنجاب قبول ہیں۔ پرویزالہیٰ نے عدالت کو جواب دیا کہ حمزہ شہباز کسی صورت وزیراعلیٰ قبول نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے پرویز الہیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ قانونی حل میں ہو سکتا ہے، قانونی حل میں حمزہ بھی ہٹ جائیں گے لیکن آپ کو بھی نقصان ہو سکتا ہے۔
سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہیٰ نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت دونوں کو آپس میں حل طے کرنے کا وقت دے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کچھ لمحے کے لئے آپ میں اختلافات آئے ہیں، اللہ کرے وہ جلد ختم ہو جائیں۔
حمزہ شہباز نے پرویز الہیٰ کی تجاویز مسترد کرتے ہوئے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ عدالت کا بہت احترام ہے، کوئی شخص نہیں سسٹم ضروری ہوتا ہے، کوئی شخص سسٹم کیلئے ناگزیر نہیں ہوتا۔ حمزہ شہباز نے عدالت سے استدعا کی کہ آج الیکشن ہونے دیا جائے، ضمنی الیکشن جیتنے پرعدم اعتماد لائی جاسکتی ہے، ہم نے اپنے لوگوں کو حج پر جانے سے روکا، پرویزالہیٰ کا کام تھا اپنے لوگوں کو روک کر رکھتے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مناسب وقت دے دیتے ہیں اگر آپس میں معاملہ طے کرناچاہیں تو بتا دیں۔ حمزہ شہباز نے جواب دیا کہ یقین نہیں دلا سکتا کہ ہمارا اتفاق رائے ہوجائے گا، عدالت17 تاریخ کو وزیراعلیٰ کا الیکشن رکھ لے تو ہاؤس مکمل ہو جائے گا۔ جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیئے کہ اب صرف مسئلہ آپ کے وزیراعلیٰ ہونے کا رہ گیا ہے۔
حمزہ شہباز نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ قانونی جواز ہو تو سائڈ پر ہونے کو تیار ہوں، میرے پاس آج بھی اکثریت موجود ہے، سربراہ کے بغیر صوبہ کیسے چل سکتا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ دونوں کے اتفاق سے گورنر کو نگران مقرر کرنے کی ہدایت کر سکتےہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے قانون کو دیکھنا ہےکہ وزیراعلی کا الیکشن کب ہونا چاہیے، آئین کہتا ہے ایوان میں موجود اکثریت سے ہی دوبارہ انتخاب میں فیصلہ ہوگا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حمزہ شہباز مل بیٹھ کرمسئلہ حل کرنے پر آمادہ نہیں، چوہدری صاحب آپ کی دونوں باتیں نہیں مانی جاسکتیں، یا حمزہ کو وزیراعلیٰ تسلیم کرنا ہو گا یا پھرمناسب وقت میں دوبارہ الیکشن ہوگا۔
پرویز الہیٰ نے عدالت میں مؤقف دیا کہ حمزہ کو نگران وزیراعلیٰ رہنا ہے تو اپنا اختیار طے کریں، یہ تو بادشاہ بن جاتے ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پکڑ دھکڑ نہیں ہوگی یہ احکامات ہم جاری کریں گے، قانون کی خلاف ورزی ہوئی تو عدالتیں موجود ہیں۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ بدقسمتی سے سب اپنی مرضی چلا رہے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ الیکشن کا اعلان ہونے پر کوئی تقرر و تبادلے نہیں ہوسکتے۔ عدالت نے پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز کو بیٹھنے کا کہہ دیا۔ اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب قانونی حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پرویز الہیٰ نے عدالت سے کہا کہ حمزہ شہباز کو نگران کے طور پر وزیر اعلی تسلیم کرتا ہوں، صوبے کے مفاد میں کچھ چیزیں حمزہ کے ساتھ بیٹھ کر طے کرنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پرویزالہیٰ امیدوار ہیں انہیں اعتراض نہیں توپی ٹی آئی کو کیا مسئلہ ہے۔
وقفے کے بعد پرویز الہٰی اورحمزہ شہبازدوبارہ کورٹ روم واپس پہنچے تو پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی نے عدالت کے روبرو مؤقف پیش کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے بات ہوئی ہے، پنجاب حکومت تیارہے،انتخابات ضمنی الیکشن کےتین چارروزبعدہوگا، حمزہ شہبازدوبارہ انتخاب تک وزیراعلیٰ رہیں گے، یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ کسی کو ہراساں نہیں کیا جائےگا۔
جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ کیا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ اجلاس اسمبلی میں ہوگا۔ پرویزالہیٰ نے عدالت سے کہا کہ حمزہ شہباز کے ہمیشہ پروڈکشن آرڈر جاری کرتا رہا ہوں، یقین دہانی کراتا ہوں سب کچھ برادرانہ طور پر ہوگا۔