ایران کے معاملے پر او آئی سی کی جانبداری، سعودی عرب، پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟

ایران کے معاملے پر او آئی سی کی جانبداری، سعودی عرب، پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟

او آئی سی کے منتظمین کے مطابق اس اجلاس کا مقصد اسلامی ممالک کے مسائل پر بحث کرنا ہے۔ تاہم اس کی کارروائی نے واضح کردیا ہے کہ یہ نشست اسلامی ممالک کے مسائل حل کرنے کے بجائے ایران کے خلاف محاذ بنانے کے لیے استعمال ہوئی۔


سعودی فرما نروا شاہ سلمان نے ہفتے کو او آئی سی کے رکن ممالک کو خبردار کیا کہ خلیجی علاقے میں دہشت گرد حملوں سے عالمی سطح پر توانائی کی فراہمی کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سعودی فرمانروا کی جانب سے یہ انتباہ چار بحری جہازوں پر حملے کے بعد آیا ہے۔ حملے کا نشانہ بننے والوں میں دو سعودی آئل ٹینکرز بھی شامل تھے۔ یمن کے حوثی باغیوں کے ڈرون حملے میں سعودی عرب میں تیل کی اہم پائپ لائن بند ہو گئی تھی۔ ایران نے کسی بھی ایسے واقعے میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی ہے۔

او آئی سی سربراہ اجلاس سے پہلے شاہ سلمان نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں جارحانہ دھمکیوں اوردہشت گردی کی کارروائیوں کے مقابلے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

او آئی سی کے سیکریٹری جنرل یوسف بن احمد العثیمین نے سعودی عرب کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کی سلامتی کو نقصان پہنچانا، عرب اور اسلامی دنیا کی سلامتی کو نقصان پہنچانا ہے۔ تنظیم کے رکن ممالک نے بھی انہی خیالات کا اظہار کیا ہے

ان اس صورتِ حال نے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں، جو ایک طرف ایران کا پڑوسی ہے اور دوسری طرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مالی مدد کا محتا ج ہے۔ واضح رہے کہ ریاض نے حال ہی میں پاکستان کو موخر ادائیگی پر تیل فراہم کرنے کا کہا ہے جب کہ سعودی حکومت نے پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو بہتر کرنے کے لیے بھی تین بلین ڈالرز دیے ہیں۔ریاض کا قریبی اتحادی ایران دشمن متحدہ عرب امارات بھی پاکستان کی مالی مدد کرنے کے لیے تیار ہے لیکن مبصرین کے خیال میں اسلام آباد کو اس کے لیے سعودی ایران تنازعے میں جانبداری دکھانی ہو گی۔

پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکڑ سرفراز خان کے خیال میں اس اجلاس کا مقصد ایران پر اس امریکی، اسرائیلی اور سعودی دباؤکو بڑھانا ہے، جو یہ ممالک پہلے سے تہران پر ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے جرمن خبر رساں ادارے سے بات چیت میں بتایا،’’خطے میں امریکی بیٹرے اور فوجی موجود ہیں۔ سعودی عرب اور ایران میں سخت کشیدگی ہے۔ ایسے موقع پر کوئی منطق نہیں تھی کہ اس اجلاس میں اسلامی ممالک کے مسائل پر بات چیت کی جائے اور وہ ہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ ‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب ایران کے خلاف ٹھوس اقدامات چاہتا ہے اور اس سلسلے میں وہ مسلم ممالک کی حمایت چاہتا ہے۔ پاکستان سے وہ چاہتا ہے کہ ہم ایران کے ساتھ تصادم کی صورت میں امریکا کو فوجی اڈے یا لوجسٹک سپورٹ دیں۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ملک ایک نئے بحران سے دوچار ہو جائے گا۔ لہذا ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے اور کسی بھی صورت سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ نہیں جانا چاہیے۔‘‘

سینیٹر مشاہد اللہ نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئےکہا ، ’’پی ٹی آئی والے نا تجربہ کار ہیں۔ اس لیے انہیں پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش پر انحصار کرنا چاہیے، جس نے ماضی میں یمن کے مسئلے پر غیر جانبدار رہنا کا کہا تھا اور اب وہ ایران اور سعودی عرب کے مسئلے پر بھی یہ ہی کہے گی۔ اگر یہ پارلیمنٹ میں اس مسئلے کو نہیں لائے تو خدشہ ہے کہ ان کی ڈوریاں کھینچنے والے کہیں کوئی ایسا فیصلہ نہ کر دیں، جو ملک اور قوم کے لیے تباہ کن ہو۔‘‘