نیا دور کے پاس موجود سمری کی کاپی کے مطابق سیکرٹری محکمہ صحت کیپٹن ریٹائرڈ عثمان کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت کی جانب سے 15 مئی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کو لاہور میں کرونا وائرس کے کیسز کی صورتحال کے حوالے سے سمری ارسال کی گئی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھیجی گئی سمری میں بتایا گیا کہ کرونا ہاٹ سپاٹ، رہائشی اور کام کی جگہوں سے سیمپل لیے گئے، عمومی طور پر لیے گئے سیمپلز میں 5.18 اور سمارٹ سیمپلنگ میں 6.01 فیصد ٹیسٹ مثبت آئے۔
سمری میں انکشاف کیا گیا کہ تمام سیمپلز میں 6 فیصد کا ٹیسٹ پازیٹیو رہا، بعض ٹاؤنز میں یہ شرح 14.7 فیصد تک بھی چلی گئی۔
محکمہ صحت کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کو بھیجی گئی سمری میں لاہور میں کرونا کے اصل نئے مریضوں کا اندازہ 6 لاکھ 70 ہزار لگایا گیا ہے۔ سمری میں انکشاف کیا گیا کہ یہ تناسب لاہور میں خطرناک حد تک دکھائی دیتا ہے، کوئی بھی رہائشی علاقہ یا قصبہ نہیں، جہاں یہ بیماری نہ ہو۔
محکمہ صحت کے ٹیکنیکل ورکنگ گروپ نے لاہور میں 4 ہفتوں کے مکمل لاک ڈاؤن کی سفارش کی ہے، سفارش کی گئی ہے کہ 50 سال سے اوپر کے لوگوں کو قرنطینہ میں یا علیحدہ رکھا جائے اور لوگوں کا گھروں میں رہنا لازمی قرار دیا جائے۔
کیپٹن ریٹائرڈ عثمان کا کہنا ہے کہ ماہرین پر مشتمل افراد کی جانب سے سفارشات بھیجی گئی تھیں۔
سمری میں کہا گیا ہے کہ ٹیکنیکل ورکنگ گروپ کی سفارشات پر دوسرے محکموں سے بھی رائے لی جائے۔ سیکرٹری صحت نے کہا کہ سفارشات سے پہلے باقاعدہ ٹیسٹ کرنے کی پوری مشق کی گئی، پچھلے دنوں میں مرض کی شدت بڑھنے کے بعد نئے مریضوں کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔
سمری پر سیکرٹری ہیلتھ کے دستخط 15 مئی کے موجود ہیں۔ یعنی لاہور میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی صورتحال قابو سے باہر ہونے کی تمام تر معلومات پنجاب حکومت کے پاس 15 دن سے موجود تھیں، تاہم ان معلومات کو غالباً جان بوجھ کر چھپایا گیا اور عوام کو خطرناک کرونا وائرس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ صوبے میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں سنگین اضافے کی اطلاع کے باوجود پنجاب حکومت نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا اور لاک ڈاؤن ختم کرنے کے لئے رپورٹ میں موجود اعداد و شمار کو چھپایا۔
پنجاب حکومت کی جانب سے اعداد و شمار کو خفیہ رکھنے اور عوام سے جھوٹ بولنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ گذشتہ 5 روز میں کرونا وائرس کے مریضوں اور وائرس کے شکار افراد کی اموات میں سنگین حد تک اضافہ ہوا ہے، جس سے اسپتالوں میں جگہ کم پڑ گئی ہے۔ اگر صورتحال یہی رہی تو جس رفتار سے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے آنے والے دنوں میں صوبہ پنجاب میں حالات تشویشناک حد تک خراب ہو سکتے ہیں۔
پنجاب حکومت کے حالیہ اقدامات سے یہی تاثر ملتا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرح پنجاب حکومت بھی اجتماعی قوت مدافعت کے فارمولے پر عمل پیرا ہے لیکن وفاقی حکومت ہی کی طرح یہ حقیقت تسلیم کرنے سے بھی انکاری ہے۔ اس حکمت عملی سے ہزاروں قیمتی جانوں کا نقصان ہو گا۔ یاد رہے کہ ابتدائی طور پر برطانیہ نے بھی اس فارمولے کو اپنایا تھا اور آخر میں اس کا نتیجہ ہزاروں افراد کی موت کی صورت میں نکلا۔
لاہور میں وائرس کے تشویشناک حد تک پھیلاؤ اور آنے والے دنوں کی سنگینی کا اندازہ لگاتے ہوئے، وزیراعلیٰ پنجاب کو 4 ہفتے کے مکمل لاک ڈاؤن کی تجویز دی گئی ہے، تاہم حکومتی وزرا اور ترجمانوں کے بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان کا صوبے میں مسقبل قریب میں لاک ڈاؤن کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
دوسری جانب نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر سے جاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مئی کے مہینے میں 54 ہزار سے زائد افراد کرونا وائرس کا شکار بنے جب کہ 11 سو سے زائد زندگی کی بازی ہار گئے، اس کے علاوہ مثبت نتیجے والے ٹیسٹس کی شرح میں بھی خاصہ اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے 30 اپریل کو ملک میں 16 ہزار 817 مریضوں کی تصدیق کی تھی جو مئی کے اختتام تک 71 ہزار 68 تک پہنچ گئے جبکہ اس دوران ایک دن میں سب سے زیادہ 3039 کیس بھی رپورٹ ہوئے۔ 30 اپریل تک ملک میں وائرس کے سبب 385 اموات رپورٹ ہوئی تھیں، تاہم صرف ایک ماہ کے عرصے کے دوران صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ 31 مئی کے اختتام تک ملک میں کرونا وائرس کے 71 ہزار 68 مصدقہ کیسز رپورٹ ہوئے اور 15 سو سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
واضح رہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں میں طبی ماہرین بھی شامل ہیں۔ وزارت صحت کے 28 مئی کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں کم از کم 17 طبی ماہرین انتقال کر چکے ہیں جب کہ 1904 کے ٹیسٹ مثبت آ چکے ہیں جن میں 299 نرسز، 570 دیگر عملہ اور 1035 ڈاکٹر شامل ہیں۔ ان میں سے 1037 آئسولیشن میں ہیں اور 171 اسپتال میں ہیں، 167 کی حالت اب سنبھل چکی ہے جب کہ چار وینٹی لیٹر پر ہیں، مزید یہ کہ 679 وائرس سے صحتیاب ہو چکے ہیں یا اسپتال سے ڈسچارج ہو چکے ہیں۔