ملک کے معروف صحافی و اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کہ انہوں نے یہ جانتے ہوئے کہ انکی تقریر سے انکی نوکری چھن جائے گی انہوں نے تقریر کی۔ آن لائن نیوز پورٹل دی کرنٹ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ دو سے تین ہفتوں سے چل رہا تھا۔ ہماری خواتین ساتھیوں کو بھی شکایات تھیں یہ ان کے گھر تک آئے تھے تاہم وہ سماجی دباؤ کی وجہ سے پولیس کو شکایت درج نہ کراسکیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے جو بات جیو کے پلیٹ فارم سے نہیں کی، جو کسی اخبار میں شائع نہیں ہوئی اس پر مجھ سے وضاحت کیوں طلب کی جا رہی ہے؟ رپورٹ کے مطابق حامد میر نے یہ تسلیم کیا کہ جیو کی انتظامیہ پر بہت دباؤ ہے۔ اور یہ دباؤ تباہ کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی انتظامیہ کو کہہ چکے تھے کہ یہ تم سے میرے پروگرام سے علیحدہ کرنے کو کہیں گے اور دو روز کے بعد یہی ہوا۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ جانتا تھا کہ میری نوکری اس سب کے نتیجے میں جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب کچھ واضح ہے کہ کیا اور کیسے ہو رہا ہے۔
حامد میر نے کہا کہ وہ جب تقریر کر رہے تھے تو ایک سینئر صحافی وہیل چئیر پر بیٹھے تھے جنہوں نے میری تقریر کے دوران کہا کہ وہ لڑکی کے بھائی ہو سکتے ہیں جس پر جذبات میں آکر میں نے جنرل رانی کا حوالہ دیا۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ شاید اب کچھ بدلے گا۔ حامد میر نے کہا کہ انہیں جس قسم کے رد عمل آرہے ہیں لوگ ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل میڈیا کے لوگ ان سے رابطے میں ہیں اور ان کی خبر کو کوور کرنا چاہتے ہیں۔ حامد میر نے بتایا کہ اس وقت حکومتی وزرا بھی ان سے رابطے کر رہے ہیں اور ان سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔
معاملے کا پس منظر
سینیئر صحافی حامد میر پر جیو نیوز کے لئے کیپیٹل ٹاک پروگرام کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے. اطلاعات کے مطابق یہ پابندی جیو نیوز کی جانب سے عائد کی گئی ہے۔گذشتہ ہفتے حامد میر نے اسلام آباد میں صحافی اسد علی طور پر ہوئے حملے کے خلاف احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ان کے اغواکاروں پر شدید تنقید کی تھی؛ اس تقریر میں انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری کے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں اس بیان کا جواب دیتے ہوئے کہ صحافی اسائلم حاصل کرنے کے لئے خود پر حملے کرواتے ہیں، کہا تھا کہ صحافی تو پاکستان میں رہتے ہیں، البتہ جنرل مشرف ضرور ‘چوہے کی طرح’ بھاگا تھا اور کہا تھا کہ وہ کسی بھی فورم پر بحث کرنے کے لئے تیار ہیں اور یہ ثابت کریں گے کہ پاکستان سے غداری صحافیوں نے نہیں کی، بلکہ ایوب خان اور جنرل مشرف نے پاکستان کے اڈے امریکہ کو بیچ۔ اسی احتجاج کے دوران تقریر کرتے ہوئے حامد میر نے کہا تھا کہ آئندہ اگر تم ہمارے کسی صحافی کے گھر میں گھسے تو ہم تمہارے گھر میں تو نہیں گھس سکتے کیونکہ تمہارے پاس ٹینک ہیں لیکن ہم تمہارے گھر کے اندر کی باتیں ضرور بتائیں گے کہ کس کی بیوی نے کس کو کس ‘جنرل رانی’ کی وجہ سے گولی ماری. ان کے ٹینک کے ذکر نے یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ اسد طور پر حملہ کرنے والوں کو کس ادارے کے اہلکار سمجھتے ہیں
پاکستان کی وزارت اطلاعات کی جانب سے جاری کی گئی ایک پریس ریلیز کے مطابق آئی ایس آئی کی جانب سے اس واقعے کی انکوائری کا مطالبہ کیا گیا تھا اور واضح کیا گیا تھا کہ اس میں ایجنسی کو نہ گھسیٹا جائے. پریس ریلیز کے مطابق اس پر الزامات کسی سازش کے تحت لگائے جا رہے تھے اور ففتھ جنریشن وار کا حصہ تھے۔ حامد میر پر آخری مرتبہ پابندی جنرل مشرف کے دور میں 2007 میں عائد کی گئی تھی اور اب عمران خان کے دور میں پھر عائد کی گئی ہے۔
معروف صحافی حامد میرکا پابندی لگائے جانے کے بعد پہلا بیان سامنے آیا ۔ سینئر صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ میرے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں دو بار مجھ پر پابندی عائد کی گئی ۔ مجھے دو دفعہ نوکری سے نکالا گیا، مجھ پہ قاتلانہ حملے ہوئے مگر کوئی مجھے آئین میں دیئے گئے حقوق کے لئے آواز اٹھانے سے نہیں روک سکتا۔ حامد میر نے کہا کہ اس وقت میں کسی بھی نتائج کے لئے تیار ہوں اور کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوں کیونکہ وہ میرے اہل خانہ کو دھمکیاں دی جارہی ہیں
.