ہر قسم کے جابرانہ محصولات کے نفاذ کے باوجود پاکستان کا کلیدی وفاقی محصولاتی ادارہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ٹیکس کا حقیقی ہدف تو دور کی بات، بجٹ میں طے شدہ ٹارگٹ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ موجودہ مالی سال کے پہلے گیارہ ماہ میں وصولی کے ہدف میں تقریباً 430 ارب کا خسارہ ہوا ہے۔ جون کے ماہ میں اب ایف بی آر کو 1430 ارب اکٹھے کرنا ہوں گے جو کہ ناممکن ہے۔ ایف بی آر نے فروری کے بعد سے محصولات کی وصولی کے بارے میں کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کی کیونکہ اس کے بعد سے کسی بھی ماہ میں ہدف پورا نہیں ہوا۔ اس کے باوجود کہ فروری کے ماہ میں منی بجٹ کے نفاذ سے 180 ارب کے نیے ٹیکسز لگائے گئے تهے۔
یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستانی ٹیکس ادا کرنے کے روادار نہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ طاقتور اور متمول افراد اتنا ٹیکس ادا نہیں کرتے جتنی مراعات اور فوائد حاصل کر لیتے ہیں۔ کاروباری طبقے کا کہنا ہے کہ وہ بزنس لین دین پر فکسڈ سیلز ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اونچی شرح کا ویلیو ایڈڈ ٹیکس (VAT) پاکستان کے مخصوص کاروباری ماحول میں قابل قبول نہیں۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ اس کی وجہ سے صرف طاقتور اور بددیانت تاجروں، ٹیکس افسران اور مشیروں کا مافیا وجود میں آیا۔ اس مافیا کی 'مہربانی' کی وجہ سے اس ٹیکس (VAT) کے حصول کی شرح صرف 7 فیصد ہے جبکہ اسے 18 فیصد ہونا چاہئیے۔حقیقت یہ ہے کہ نا صرف ویلیو ایڈڈ ٹیکس پاکستان میں درست طریقے سے رائج نہیں ہو سکا بلکہ اس کی اونچی شرح اور غیر لچک دار ضابطوں کی وجہ سے ان افراد کو خاصی دقت کا سامنا ہے جو پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان پر دباؤ میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔
انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت بھی بہت سے بالواسطہ ٹیکسز کا بوجھ حتمی صارف پر منتقل ہو گیا اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امیر افراد اور زیادہ دولت مند ہو گئے۔
2023 کے بجٹ میں حکومت کو چاہئیے کہ وہ سیلز ٹیکس کو 10 فیصد کی شرح سے سب پر نافذ کر دے۔ اس سے حکومتی خزانے میں موجودہ نظام سے حاصل کردہ رقم سے دوگنا زیادہ محصولات جمع ہو جائیں گے کیونکہ موجودہ نظام میں ٹیکسوں کی رقوم کا ایک بڑا حصہ بدعنوانی کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس دوران ہر قسم کی چھوٹ کا خاتمہ کرتے ہوئے ہر کسی سے واجب الادا انکم ٹیکس وصول کیا جائے اور اس سلسلے میں کسی نرمی یا سمجھوتے سے کام نہ لیا جائے۔
ضروری ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 111 (4) کے تحت دی جانے والی چھوٹ کا خاتمہ کر دیا جائے اور حکومت غیر ٹیکس شدہ اثاثوں کو ضبط کرنے کے لیے قانون سازی کرے۔ اگر وفاقی حکومت ٹیکس کی وصولی کو بڑھانا چاہتی ہے تو اسے سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔
ٹیکس کا نظام جتنا مرضی اچھا بنا لیں، اگر اسے نافذ کرنے کے سخت قوانین پر عمل درامد نہ ہو تو سب کاوش اکارت ہو جاتی ہے۔ کوئی بھی اپنی مرضی سے ٹیکس ادا کرنا پسند نہیں کرتا۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کی وصولی کو یقینی بنائے اور اس مقصد کے لیے غیر لچک دار نظام وضع کرے۔ وہ تمام اثاثے جن پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا اور وہ چاہے اندورن ملک ہیں یا بیروِن ملک، ان کو ضبط کرنے کے لیے قانون کے مطابق چارہ جوئی کی جائے۔ اس جمہوری عمل کے ذریعے گذشتہ سات عشروں سے جاری لوٹ مار اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی بلا روک ٹوک سرگرمی کا خاتمہ ہو سکے گا۔
ٹیکس پالیسی کا بنیادی مقصد عوامی فلاحی منصوبوں اور دیگر اخراجات کے لیے محصولات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس مشینری کی اصلاح کی جائے اور دولت کی تقسیم میں موجودہ خوفناک عدم مساوات کو جہاں تک ممکن ہو کم کیا جا سکے۔ معاشی ناہمواری کم کرنے کے لیے انکم ٹیکس کی اونچی شرح، سرمائے کی منتقلی پر بھاری ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس کو سختی سے وصول کیا جائے۔ مغربی ممالک میں تمام حکومتیں اس ضمن میں غیر لچکدار رویہ اپناتی ہیں تا کہ معاشرے میں بے چینی کا خاتمہ کر سکیں، لیکن پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔
پاکستان میں وہ لوگ زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں جن کی آمدنی کم ہے جبکہ زیادہ اثاثے رکھنے والے ٹیکس بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے یہاں معاشی ناہمواری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومتیں، چاہے وہ سول ہوں یا فوجی، عوام کو جان و مال کا تحفظ دینے اور تعلیم، صحت، ہاؤسنگ اور روزگار جیسے فلاحی منصوبوں سے عوام میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ جب حکومت ٹیکس وصول نہیں کر پاتی تو اخراجات پورے کرنے کے لیے قرض لیتی ہے اور وصول ہونے والا تھوڑا بہت ٹیکس اس قرضے کی ادائیگی میں صرف ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد مزید قرض اور مزید ادائیگی۔ یہ چکر گذشتہ کئی عشروں سے جاری ہے۔ موجودہ مالی سال کے دوران اندرونی اور بیرونی قرضوں پر سود کی شرح ٹیکس کی وصولی کا 66 فیصد ہے۔
یہ بات تقریباً طے ہے کہ پاکستان میں موجودہ غربت اور ٹیکس کے ناقص نظام میں براہ راست تعلق ہے۔ 1991 کے بعد سے یہ صورت حال زیادہ سنگینی کی طرف گامزن ہے کیونکہ اس دور میں انکم ٹیکس کی آڑ میں بالواسطہ ٹیکس کا نظام متعارف کرایا گیا۔ اس کے بعد سے آج تک ٹیکس کا تمام تر بوجھ غریب آدمی نے اٹھایا ہوا ہے جبکہ دولت مند اور وڈیرے ٹیکس ادا کرنے سے انکاری ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق غریب عوام 48 فیصد تک ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ دولت مند افراد صرف 18 فیصد۔ اس کی وجہ سے دولت کی تفریق میں اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشرے میں موجودہ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کی ذمہ داری بھی زیادہ تر اسی ناہمواری پر عائد ہوتی ہے۔
ایف بی آر نے اپنی سالانہ بک 2021-22 میں دعویٰ کیا کہ براہ راست ٹیکسز کی شرح میں پچھلے برس 38 فیصد اور امسال فروری تک 48 فیصد اضافہ ہوا ہے، لیکن حقائق اس کی نفی کرتے ہیں۔ دراصل دعویٰ کرتے ہوئے متوقع براہ راست ٹیکس کو بھی شامل کر لیا گیا۔ اگر اس متوقع ٹیکس کو منہا کر دیا جائے تو براہ راست ٹیکسز بمشکل 25 فیصد تک رہ جاتے ہیں۔
ہمارے ٹیکس کے نظام میں پائے جانے والے ان نقائص کی وجہ سے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے ان میں تبدیلی کا تقاضا کرتے رہتے ہیں لیکن وہ اس کے لیے زیادہ دباؤ نہیں ڈالتے۔ حالانکہ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی وجہ سے دولت مند اپنا دامن بچا جاتے ہیں جبکہ غریب آدمی پس رہا ہے۔ ان اداروں کی دلچسپی عوام کی فلاح نہیں بلکہ اپنی رقوم اور سود کی وصولی میں ہوتی ہے۔ سول اداروں کے نقائص اور کمزور جمہوریت کی وجہ سے گزرنے والے سالوں میں ہمارا ٹیکس کا نظام زیادہ سے زیادہ خرابیوں سے دوچار ہو رہا ہے۔
چنانچہ اب جبکہ ملک میں جمہوریت کا دعویٰ کیا جاتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام بھی جمہوری فوائد سے لطف اندوز ہوں۔ اس کے لیے سب سے اہم قدم محصولات کا منطقی اور شفاف نظام رائج کرنا ہے۔ دراصل یہ جمہوری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ محصولات کی منصفانہ وصولی ممکن بنائے اور غریب عوام کو سہولیات فراہم کرے۔ بالواسطہ ٹیکسز VAT یا سیلز ٹیکس پر بہت زیادہ دارومدار مزید معاشی خرابیوں کا باعث بنے گا کیونکہ کمزور طبقات پر اس کا زیادہ اثر پڑتا ہے۔
حکومت کو چاہئیے کہ تاجروں اور صنعت کاروں کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے 10 فیصد سیلز ٹیکس کی تجویز دو شرائط پر مان لے۔ پہلی شرط یہ کہ وہ اپنی درست آمدنی پر انکم ٹیکس ادا کریں گے اور دوسری یہ کہ ٹیکس کی رقم کو ری فنڈ نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح کا ٹیکس نظام امریکہ سمیت بہت سے ممالک میں رائج ہے۔ ہم بھی مغربی ممالک کے تجربے سے فائدہ اٹھا کر اپنی حالت بہتر کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے سیاسی قوتِ ارادی درکار ہے۔ جس طرح حکومت سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، ٹیکس چوروں کے خلاف بھی اسی طرح کی کارروائی ہونی چاہئیے۔
مضمون نگار وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ایڈجنکٹ فیکلٹی، ممبر ایڈوائزری بورڈ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے سینیئر وزٹنگ فیلو ہیں۔