پاک بھارت کشیدگی، میڈیا ’سوالات‘ کرنے سے گریزاں رہا

پاک بھارت کشیدگی، میڈیا ’سوالات‘ کرنے سے گریزاں رہا
بھارتی ویب سائٹ Scroll پر چھپنے والے کلپنا شرما کے اس مضمون میں بھارتی میڈیا کے سوال نہ اٹھانے پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس تحریر کو نیا دور اودر میں ترجمہ کر کے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہے۔

کیا ایک صحافی کا بحرانی صورتِ حال یا جنگ کے دوران سوال پوچھنے کی جسارت کرنا اسے ملک دشمن بنانے کے لیے کافی ہے؟ یا اگر وہ سوال نہیں پوچھتا تو کیا اس طرزِعمل کو پیشہ ورانہ بددیانتی تصور کیا جائے گا؟ میں نے جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتوں کے درمیان دو ہفتوں تک جاری رہنے والی کشیدگی کے اختتام کے بعد کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔

14 فروری کو کشمیر کے قصبے پلوامہ میں ہونے والے خودکش بم دھماکے میں سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے 40 اہلکار ہلاک ہو گئے جس کے بعد مرکزی دھارے کے انڈین میڈیا نے غیرمعمولی جنگی جنون کا مظاہرہ کیا۔

یہ صورتِ حال دلچسپ معلوم ہوتی ہے کیوں کہ اس نے انتخابات کے دنوں میں قوم پرستی کے سیاسی بیانیے کو فروغ دیا ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد سے کشمیری طالب علم، محنت کش اور تاجر وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا سمیت ہندتوا نظریے کی حامل دیگر جماعتوں کے کارکنوں کے نشانے پر ہیں۔



طویل المدتی تناظر میں بات کی جائے تو یہ صورتِ حال انتخابات میں ممکنہ طور پر اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ امیت شاہ اور دیگر رہنماؤں کے بیانات سے پہلے ہی یہ واضح ہوچکا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران پلوامہ حملہ بھرپور انداز سے ایک حربے کے طور پر استعمال ہونے جا رہا ہے۔

پلوامہ، میڈیا سوال کرنے سے گریزاں رہا۔۔۔

26 فروری کوپاکستان کے صو بے خیبر پختونخوا کے شہر بالاکوٹ میں جیشِ محمد کے ممکنہ تربیتی کیمپ پر انڈین ایئر فورس کے حملے کے بعد میڈیا پر ایک پریشان کن بیانیہ پیش کیا گیا اور ٹی وی میزبانوں پر خبریں پڑھتے ہوئے فوجی رنگ غالب رہا، ایسے کم از کم دو پہلو ضرور تھے جن پر توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ ایک سوال تو میڈیا کے کردارکے حوالے سے ہی ہے جب کہ دوسرا سوال یہ ہے کہ حکومت اہم اور حساس نوعیت کی معلومات سے کس طرح پیش آتی ہے؟

سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ میڈیا پلوامہ اور 26 فروری کو پاکستان میں انڈین فضائیہ کے حملے پر خاموش کیوں رہا اور ’’ذرائع‘‘ سے معلومات پیش کرنے کے علاوہ اور کچھ  کیوں نہیں کیا؟



مثال کے طور پر پلوامہ حملے کے روز میڈیا کو جائے وقوعہ تک رسائی نہیں دی گئی۔ بم دھماکے کی کچھ دھندلی تصاویر ہی دستیاب ہو پائیں اور میڈیا کو صرف سکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے فراہم کی جانے والی معلومات پر انحصار کرنا پڑا۔

یہ اَمر دلچسپی کا باعث ہے کہ سرکاری بریفنگ سے قبل ہی میڈیا کے کچھ اداروں میں بم دھماکے میں استعمال ہونے والے دھماکہ خیز مواد کے وزن کے بارے میں مختلف خبریں منظرعام پر آتی رہیں۔ ان خبروں کے مطابق یہ دھماکہ خیز مواد 350 کلوگرام سے لے کر 80 کلوگرام، 35 کلوگرام یا اس سے بھی کم وزنی تھا۔ حتیٰ کہ خودکش بم دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی اور اس کے رنگ کے بارے میں بھی خبریں نشر کی جاتی رہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ معلومات کس طرح حاصل کی گئیں جب اس حوالے سے اس وقت تک کوئی فارنزک تفتیش ہی نہیں ہوئی تھی؟ کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا؟ یقینا، اس نوعیت کی معلومات کو مصدقہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ شواہد کو جمع کرنے اور ان کے جائزے سے قبل ایسی کوئی خبر پیش نہیں کی جانی چاہئے۔ ماضی میں بھی اس نوعیت کے دیگر واقعات میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے، انڈین میڈیا غیرمصدقہ اور افواہوں پر مبنی ان معلومات کے فروغ میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا جو عموماً اس وقت برسرِاقتدار حکومت کے لیے عموماً موزوں ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں میڈیا کے مصدقہ ادارے اس نوعیت کی تفصیل شائع یا نشر کرنے میں اس قدر جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔



25 فروری کو کچھ ایسا ہی ہوا جب فارنزک جائزے کے بعد سرکاری طورپر بالآخر یہ تصدیق کر دی گئی کہ بم دھماکے میں کوئی سپورٹس کار استعمال نہیں ہوئی تھا جیسا کہ میڈیا نے دعویٰ کیا تھا (میڈیا کے ایک ادارے کی جانب سے کار ساز ادارے کا نام بھی ظاہر کر دیا گیا تھا) بلکہ یہ ایک چھوٹی گاڑی ماروتی ایکو وین تھی جس میں 30 کلوگرام سے زیادہ دھماکہ خیز مواد موجود نہیں تھا۔

اس کے ساتھ ہی انٹیلی جنس کی سطح پربھی ناکامی کی افواہیں گردش کرتی رہی ہیں لیکن صحافیوں نے اس بارے میں کچھ بھی پوچھنے یا معلومات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی کہ دراصل یہ سارا معاملہ کیا تھا؟ حتیٰ کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے بھی ہاتھ کھڑے کردیے، ظاہر ہے کہ وہ خود پر ملک دشمن ہونے کا لیبل چسپاں نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ ڈرامائی تصویروں کے ساتھ پلوامہ کا سانحہ گزر چکا ہے جس کے بعد آخری رسومات کی ادائیگی کا سلسلہ شروع ہوا۔ میڈیا نے یہ سوال کرنے کی زحمت بھی نہیں کی کہ کیا خاندانوں کو ان کے پیاروں کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے اس قدرطویل انتظارکروانا ضروری تھا؟ جب کہ حکمران جماعت اور حکومت اس صورتِ حال کو اپنے حق میں استعمال کرتی ہوئی نظر آئی۔

انڈین فضائیہ کا حملہ:میڈیا ایک بار پھر خاموش رہا

اور پھر 26 فروری کا دن آن پہنچا جب انڈین فضائیہ کے جنگی طیاروں نے صبح کے دھندلکوں میں جیشِ محمد کے تربیتی کیمپ پر مبینہ طور پر ایک ہزار کلوگرام  وزنی بم گرائے۔

انڈیا نے اسی روز صبح سویرے ایک بریفنگ کا اہتمام کیا جس میں سیکرٹری خارجہ وجے گوکھالے کی جانب سے انتہائی اختیاط کے ساتھ تحریر کیا گیا بیان پڑھا گیا۔ انہوں نے جب تک اپنا بیان مکمل نہیں کرلیا، کسی صحافی کو سوال پوچھنے کی اجازت نہیں تھی۔ حتیٰ کہ اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا کہ انہوں نے اپنے بیان میں جس بالاکوٹ کا ذکر کیا ہے، وہ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کا شہر ہے یا یہ جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ میں لائن آف کنٹرول کے نزدیک واقع قصبہ بالاکوٹ ہے، جس کے باعث دن کے آغار پر ہی افواہوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔



سرکاری بیان میں ایسا کوئی ذکر موجود نہیں تھا کہ اس حملے میں کتنے لوگ ہلاک ہوئے۔ تاہم چند ہی گھنٹوں میں میڈیا نے یہ خبر بھی نشر کردی کہ ان حملوں میں تین سو، ساڑھے تین سو یا چھ سو لوگ ہلاک ہوئے۔ کسی نے یہ استفسار کرنے کی زحمت نہیں کی کہ اگر اس قدر بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں تو پاکستان کی جانب سے کوئی ردِعمل ظاہرکیوں نہیں کیا گیا؟ انڈیا فضائی بمباری کے چند گھنٹوں بعد ہی ہلاکتوں کی اس قدر درست تعداد کے بارے میں کس طرح پریقین تھا؟ اور اگر یہ دہشت گردی کا تربیتی مرکز تھا تو کیا وہاں پر کام کرنے والے عملے کے ارکان بھی دہشت گرد تھے؟ کیا مقامی لوگ وہاں پر ملازمت نہیں کر رہے تھے؟ اگر وہ بھی نشانہ بنے ہیں تو بالاکوٹ اور اس کے گردو نواح کے دیہاتوں میں اس حوالے سے کوئی ہلچل کیوں نظر نہیں آئی؟

بہرحال، 27 فروری کو ہونے والی پیشرفت کے باعث یہ خبریں بھی دھندلا  گئیں جب پاکستانی اور انڈین فضائیہ کے جنگی طیاروں کے درمیانی ہونے والی جھڑپ میں ایک انڈین جنگی طیارہ مار گرایا گیا اور اس کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن ورتھامان کو پاکستان میں گرفتار کرلیا گیا۔ کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی، انڈیا کے جنگی جنون کا شکار میڈیا میزبانوں پر سکتہ طاری ہو گیا۔



دلچسپ طورپر انڈین پائلٹ کی گرفتاری کی خبر پاکستان کی جانب سے جاری کی گئی تھی۔ انڈین حکام نے پہلے تو اس خبر کی تردید کی لیکن بعدازاں وزارتِ خارجہ کے ترجمان راویش کمار نے ایک مختصر بریفنگ میں اس خبر کی تصدیق کر دی۔ اگرچہ بریفنگ میں ایئر وائس مارشل آر جے کے کپور بھی موجود تھے لیکن انہیں اس بارے میں بات کرنے کی دعوت نہیں دی گئی۔

گزشتہ روز کی بریفنگ کی طرح اس روز بھی کسی سوال کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ مزیدبرأں، انڈین فضائیہ کے حملے اور پاکستان کی مزاحمت کے 48 گھنٹوں کے بعد بھی حکومت کے کسی سینئر اہلکار بشمول وزیراعظم نریندر مودی نے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا۔ دوسری جانب پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے عوام سے ٹیلی ویژن خطاب کیا اور امن اور مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا۔

میڈیا کی جانب سے جان بوجھ کر سرکاری کے بجائے غیر سرکاری مؤقف کی ترویج کے باعث ایسے بہت سارے سوالات پیدا ہوگئے جن کے جواب نہیں دیے گئے۔ ایک ایسے وقت پر جب جھوٹی خبریں گردش کررہی تھیں ، حکومت کا یہ طرزِعمل قابلِ قبول نہیں تھا کہ وہ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برأ ہو جاتی اور ‘‘ذرائع‘‘ کی جانب سے یوں ہی غیرمصدقہ معلومات جاری کی جاتی رہتیں۔

انڈین میڈیا مکمل طور پر بے لگام ہو چکا

ہم دوبارہ ان سوالات کی جانب بڑھتے ہیں جو اس تحریر کے شروع میں پوچھے گئے تھے: کیا کشیدگی کے دنوں میں صحافیوں کی جانب سے سوال پوچھنا ان کو ملک دشمن ثابت کرنے کے لیے کافی ہے؟ کیا صحافیوں کو اپنے ’’قومی‘‘ تشخص کے تحفظ کے لیے پریشان ہونا چاہئے؟ ایک صحافی، سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر آزادانہ طور پر رپورٹنگ کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس طرزِ عمل کا تعلق ’قوم‘ یا مسلح افواج کی حمایت سے نہیں ہے۔

میڈیا پر طاری ہونے والی قوم پرستی کے اس جنون کے باعث ٹیلی ویژن کے بعض نمایاں میزبان سماجی میڈیا پر انڈین فضائیہ کی حمایت کرتے نظر آئے، گویا وہ وطن سے اپنی محبت ثابت کرنا چاہتے ہوں۔ آزاد میڈیا کے حامل کسی بھی جمہوری ملک میں صحافیوں سے یہ امید نہیں کی جاتی کہ وہ مسلح افواج کی شان میں قصیدے پڑھنا اپنی صحافتی ذمہ داری تصور کریں یا ’دشمن‘ کے خون کے پیاسے ہو جائیں۔ متذکرہ بالاحالات سے یہ محسوس ہوتا ہے، گویا انڈین میڈیا مکمل طور پر بے لگام  ہو چکا ہے۔