دنیا کے تمام مسلمان ایک ہی دن عید کیوں نہیں منا سکتے؟

دنیا کے تمام مسلمان ایک ہی دن عید کیوں نہیں منا سکتے؟
سعودی عرب میں عید پیر 2 مئی کو منائی جائے گی۔ سعودی پریس ایجنسی نے رائل کورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اتوار کو رمضان المبارک کا آخری دن ہے اور پیر کو عید الفطر کا پہلا دن ہوگا۔ ادھر افغانستان میں عید اتوار کو ہی منائی جا رہی ہے۔

پاکستان کی بات کریں تو یہاں منگل کو عید منائی جائے گی۔ ایسے میں یہ سوال ذہن میں ضرور آتا ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان ایک ہی دن عید کیوں نہیں مناتے؟

بنگلا دیش میں اسلامک فاؤنڈیشن کی چاند دیکھنے والی کمیٹی فیصلہ کرتی ہے کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا تہوار عیدالفطر کس دن منایا جائے۔ عام طور پر یہ کمیٹی 29 رمضان المبارک کو دوپہر کو میٹنگ کرتی ہے اور عید الفطر کے دن کا فیصلہ کرتی ہے۔

اگر ملک میں 29ویں رمضان کا چاند نظر آجائے تو فاؤنڈیشن اگلے روز عید کا اعلان کرتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو رمضان کے تیس دن مکمل ہونے پر عید منائی جاتی ہے۔

عموماً بنگلا دیش میں عید سعودی عرب میں عید کے ایک دن بعد منائی جاتی ہے۔ بعض مقامات پر سعودی عرب کے ساتھ ساتھ عید بھی منائی جاتی ہے اور ہر سال چاند نظر آنے پر بحث ہوتی رہتی ہے۔

بنگلا دیش کے معروف طبیعیات دان ڈاکٹر شمشیر علی کہتے ہیں کہ مسلم دنیا اسلام کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ایک ہی دن عید منا سکتی ہے۔ شمشیر کے مطابق اپنے ملک میں چاند دیکھنے کی کوئی مجبوری نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ "ایسا نہیں ہے کہ چاند کسی کے اپنے ملک میں نظر آئے۔ امام ابوحنیفہ اور پیغمبر حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایک ہی دن روزہ رکھا جائے اور افطار کیا جائے۔ جب چاند طلوع ہوتا ہے تو قمری مہینہ شروع ہوتا ہے۔"

شمشیر علی کا کہنا ہے کہ مکہ مسلمانوں کا مقدس مقام ہے۔ اگر وہاں چاند نظر آ جائے تو مسلم ممالک میں اسی بنیاد پر عید منائی جائے۔ دو ملکوں کے درمیان وقت کا فرق اس میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے ایک ہی دن روزہ اور عید کی سفارش کی ہے۔

اس کے باوجود بنگلا دیش میں عید سعودی عرب کے ایک دن بعد منائی جاتی ہے، جیسا کہ قومی چاند دیکھنے والی کمیٹی کا استدلال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ روزہ چاند دیکھ کر ہی شروع اور ختم ہونا چاہیے۔

جغرافیائی وجوہات کی بنا پر بنگلا دیش میں چاند عرب ممالک کے ایک دن بعد نظر آتا ہے۔ عرب ممالک میں چاند بنگلا دیش سے پہلے نظر آتا ہے۔ تاہم بنگلا دیش سے وقت پر آگے آنے والے ملائیشیا اور انڈونیشیا عرب دنیا کی طرح عید مناتے ہیں۔ افریقہ کے کچھ مسلم ممالک بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔

ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر زبیر محمد احسن الحق کا کہنا ہے کہ مسلم قوانین کے مطابق اگر کسی مسلمان ملک میں چاند نظر آتا ہے تو اس کا اطلاق تمام مسلمانوں پر ہوگا۔ ہر کوئی اس بات پر متفق ہے کہ چاند کی آنکھ کھلتے ہی ہجری سال کا قمری مہینہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ اسلام کا قانون ہے۔

اسی وجہ سے بہت سے اسلامی مذہبی رہنما اب بھی اپنے اپنے ممالک میں ننگی آنکھوں سے چاند دیکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔

اسلامک یونیورسٹی کوشتیہ میں القرآن اور اسلامک اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر اے ایف ایم اکبر حسین کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اگر شریعہ بورڈ کی سفارش پر عید مقرر کی گئی تو اس میں کوئی ابہام پیدا ہو گا۔

مئی 2016ء میں ترکی کی پہل پر استنبول میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔ ترکی، قطر، اردن، سعودی عرب، ملائیشیا، متحدہ عرب امارات، مراکش سمیت 50 ممالک کے اسلامی اسکالرز یہاں جمع ہوئے۔

اس کانفرنس کو بین الاقوامی ہجری کیلنڈر یونین کانگریس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں ہجری کیلنڈر کے حوالے سے دنیا بھر کے مختلف مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا۔

اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک کیلنڈر میں شامل کیا جائے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پوری مسلم دنیا میں ایک ہی دن عید اور روزہ شروع کیا جا سکتا ہے۔