قبائلی اضلاع، سابقہ مراعات برقرار رکھنے، کسی کو ملازمت سے نہ نکالنے کا فیصلہ
مختلف تعلیمی اداروں میں طلبہ کیلئے مختص نشستوں کو آئندہ دس سال کیلئے یقینی بنایا جائیگا، قابل تقسیم محاصل سے تین فیصد رقم دی جائیگی
بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے وعدے کے مطابق قبائلی اضلاع کیلئے ایک ارب 65 کروڑ 30 لاکھ روپے فنڈز جاری کیے جائیں گے۔ لوکل گورنمنٹ سسٹم ان اضلاع میں معتارف کروایا جائے گا اور تیس فیصد ترقیاتی فنڈز ان اضلاع کی لوکل باڈیز کے ذریعے خرچ کیے جائیں گے، مختلف تعلیمی اداروں میں قبائلی طلبہ کیلئے مختص نشستوں کو آئندہ دس سال کیلئے یقینی بنایا جائیگا جبکہ آئندہ پانچ سالوں کیلئے قبائلی اضلاع کو دی گئی ٹیکس کا استثنیٰ جاری رہے گا۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت ان اضلاع کیلئے قابل تقسیم محاصل پول سے تین فیصد حصے کی رقم این ایف سی کے ذریعے یقینی بنائے گی۔ وفاقی حکومت ان اضلاع کیلئے بجٹ کے زریعے فنڈز مہیا کرتی رہے گی جب تک کہ نئے این ایف سی اوارڈ کے ذریعے صوبے کو اضافی حصہ نہیں دیا جاتا جبکہ صحت سہولت کارڈ کو بھی ان اضلاع تک توسیع دی جائے گی۔
فنڈز ختم ہو گئے، نواز شریف کڈنی ہسپتال سوات بندش کا خدشہ
واپڈا اور محکمہ سوئی گیس نے عدم ادائیگی پر کنکشن منقطع کرنے کا نوٹس بھیج دیا، پٹرول پمپ مالک کا مزید ادھار دینے سے انکار
سوات کے ہزاروں گردوں کے مریضوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ 2015 میں پنجاب حکومت کی جانب سے سوات کے عوام کیلئے تحفے میں دیا جانے والا صوبے کا واحد گردوں کے علاج کا نواز شریف کڈنی ہسپتال بند ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ہسپتال میں یومیہ تقریباً 80 کے قریب ڈائیلاسز کے مریض آتے ہیں جبکہ روزانہ تین سو کے قریب مریضوں کا معائنہ ہوتا ہے لیکن ہسپتال کو فنڈز کی عدم ادائیکی پر یہ کڈنی ہسپتال مستقبل قریب میں بند ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا چکا ہے جس کے بارے میں نواز شریف کڈنی سنٹر کے ایم ایس ڈاکٹر محمد ایوب خان کا کہنا ہے کہ صرف ایک ماہ کا فنڈ باقی رہ گیا ہے اور اس کے بعد ہسپتال کے بجلی اور گیس کی کنکشن بھی منقطع ہو جائینگے کیونکہ ایک مہینے پہلے واپڈا اورمحکمہ گیس کی جانب سے نوٹس بھی موصول ہو چکا ہے۔
اپوزیشن کا حصہ ہیں، حکومت مخالف تحریک کا ساتھ دینگے: اسفندیار ولی
ڈیورنڈ لائن دلوں پر تیر ہے، کالا باغ ڈیم قبول نہیں، 1947 سے ہمیں غدار کہا جا رہا ہے، وزیر اعظم کا جواب سفارتی آداب کے خلاف ہے
ضمنی انتخابات میں فوج پولنگ سٹیشنوں کے اندر تعینات نہ کی جائے، افغانوں کو شہریت ملنا ان کا حق ہے
عوامی نشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسنفدیار ولی خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف مشترکہ طور پر تحریک چلانے کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کرے گی ہم اس کا ساتھ دینگے کیونکہ ہم اپوزیشن کا حصہ ہیں۔ بھارت نے اگر پاکستان پر حملہ کرنے کی غلطی کی تو اے این پی سب سے پہلے اس کا مقابلہ کرے گی۔ 25 جولائی کو جو کچھ ہو چکا، وہ بہت ہے۔ اسفندیار ولی خان نے کہا کہ سلیکٹڈ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے افغانیوں اور بنگالیوں کو شہریت دینے کے اعلان پر ہنگامہ برپا ہو گیا، حالانکہ جب مشرقی سرحد سے آنے والوں کو شہریت دی گئی تو پھر مغربی سرحد والوں کا کیا قصور ہے؟ جنہیں پوری دنیا نے اپنے مقصد کیلئے استعمال کیا اور یہ عالمی قانون ہے کہ جو بچہ جہاں پیدا ہوتا ہے اسے وہاں کی شہریت ملتی ہے۔ انہوں نے کہا اس وقت ہماری پارٹی صوبے میں ایک مظبوط جماعت ہے اور حکومت کے خلاف جو بھی تحریک چلائی گئی اس کا ساتھ دینگے۔
وسائل کی تقسیم کیلئے نیا صوبائی مالیاتی ایوارڈ تشکیل دینے کا فیصلہ
ایوارڈ صوبے اور بلدیاتی اداروں کے مابین معاملات طے کرے گا، تشکیل صوبائی بجٹ کے بعد کی جائیگی
2016 میں پی ایف سی کے تحت 50 فیصد وسائل آبادی کی بنیاد پر تقسیم کیے گئے
تحریک انصاف کی موجودہ صوبائی حکومت جاری سال کے آٹھ ماہ کا بجٹ پیش کرنے کے فوراً بعد اضلاع سمیت بلدیاتی اداروں کے مابین وسائل کیلئے فوری طور پر صوبائی مالیاتی کمیشن کی تشکیل کرے گی جس کے چیئرمین صوبائی وزیر خزانہ ہونگے جبکہ ممبران میں دو ضلعی اور دو تحصیل ناظمین شامل ہونگے، خیبر پختونخوا میں آخری صوبائی مالیاتی کمیشن 2016-17 میں تشکیل دیا گیا جس کے تحت ہی مالی سال 2017-18 میں بلدیاتی اداروں کو مالی وسائل کی فراہمی کی گئی جو 50 فیصد آبادی، 25 فیصد غربت، 20 فیصد انفراسٹرکچر میں کمی اور پانچ فیصد ریونیو جنریشن کی بنیاد پر تھی تاہم اب موجودہ حکومت کی جانب سے انتظام سنبھالنے کے بعد نیا مالیاتی ایوارڈ جلد تشکیل دیا جائے گا۔
نیا بلدیاتی نظام، ضلع ناظم کا عہدہ ختم، تحصیل میئرز کو انتظامی اختیارات حاصل نہیں ہونگے
تحصیل و ٹاون میئرز کا انتخاب براہ راست عوامی ووٹ سے ہوگا، ویلج و نیبرہوڈ کونسلز کے چیئرمین تحصیل کونسلز کے ممبرز ہونگے
کونسلز ارکان کی تعداد کم ہوگی، وزیراعظم نے بلدیاتی نظام فائنل کرنے کا گرین سگنل دے دیا، جلد بل اسمبلی میں لائیں گے، شہرام ترکئی
حکومت کی جانب سے بلدیاتی نظام میں اصلاحات کے ذریعے ضلع ناظمین اور ضلع کونسلیں ختم کرتے ہوئے صوبائی حکومت کیساتھ بلدیات سے متعلق امور میں روابط اور نچلی سطح پر ترقیاتی کاموں کی تمام ذمہ داری تحصیل و ٹاؤن انتظامیہ اور ولیج اور نیبرہوڈ کونسلوں کے چیئرمین تحصیل کونسلوں کے ممبر ہونگے، ولیج اور نیبرہوڈ کونسلوں کے ارکان کی تعداد جو اس وقت 10 سے 15 ہے اسے کم کرتے ہوئے5 سے 6 تک محدود کر دیا جائےگا۔ صوبائی وزیر برائے بلدیات شہرام ترکئی نے اس بارے میں رابطہ کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بلدیاتی نظام تین حصوں پر مشتمل ہے جس میں ضلع، تحصیل اور نچلی سطح پر ولیج اور نیبرہوڈ کونسلوں کا سیٹ اپ ہے تاہم نئے نظام میں اضلاع کی سطح پر عوام کے مسائل کو حل کرسکیں گی، انہوں نے کہا کہ تحصیلوں اور ولیج و نیبرہوڈ کونسلوں کو انتظامی اختیارات تفویض نہیں کیے جا رہے تاہم انہیں مالی اختیارات دیے جائیں گے جبکہ اختیارات پر مشاورت جاری ہے اور جلد ہی مکمل کر لی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اسی نظام کو رائج کیا جائیگا جبکہ مرکز کی جانب سے بلوچستان اور سندھ کی صوبائی حکومتوں سے بھی سفارش کی جائی گی کہ وہ بھی یہی نظام اپنائیں۔