پشاور: خیبرپختونخوا میں شامل ہونے کے بعد قبائلی علاقہ جات کی تاریخ میں پہلی بار آج صوبائی اسمبلی کی 16 نشستوں پر انتخابات کے لئے پولنگ کا آغاز ہو گیا ہے۔
سخت سیکبورٹی انتظامات میں پولنگ کا عمل صبح 8 بجے شروع ہوا جو شام 5 بجے تک بغیر کسی وقفے سے جاری رہے گا، پولنگ اسٹیشنز کے اندر اور باہر فوج تعینات ہے۔
صوبائی الیکشن کمشنر کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں نیٹ ورک کا مسئلہ ہے، نتائج واٹس ایپ پر فراہم کیے جائیں گے۔
قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن
گزشتہ سال 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں سابق فاٹا کے قومی اسمبلی کے 12 میں سے چھ حلقوں میں تحریک انصاف کامیاب ہوئی تھی۔ متحدہ مجلس عمل کے تین، پیپلز پارٹی ایک جبکہ یہاں سے دو آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔
پاکستان میں عام انتخابات اور ان کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات کی تاریخ دیکھی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حکمران جماعت کو ضمنی انتخابات میں دیگر جماعتوں پر برتری حاصل ہوتی ہے، حتٰی کہ عام انتخابات میں جن نشستوں پر حکمران جماعت کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ضمنی انتخابات میں ان حلقوں میں بھی نتائج حکمران جماعت کے حق میں آنے کی روایت رہی ہے۔
صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے نام
باجوڑ ایجنسی کا ضلع جو کہ قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 40 اور 41 میں تقسیم تھا۔ ان انتخابات میں ضلع باجوڑ کو صوبائی اسمبلی کی تین نشستوں پی کے 100 سے لے کر پی کے 102 میں تقسیم کیا گیا ہے۔ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی یہ دونوں نشستیں حکمران جماعت پی ٹی آئی نے جیتی تھیں۔
مہمند ایجنسی پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقے این اے 42 ٹرائبل ایریا 3 کو ان صوبائی انتخابات میں 2 نشستوں پی کے 103 اور 104 میں تقسیم کیا گیا ہے، جبکہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے اس حلقے میں ووٹر ٹرن آؤٹ 36.04 فیصد تھا اور یہ نشست بھی پی ٹی آئی کے ساجد خان نے جیتی تھی۔
خیبر ایجنسی پر مشتمل قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 43 اور 44 میں صوبائی اسمبلی کے تین حلقے پی کے 105 سے 107 تک آتے ہیں، جہاں سے عام انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کے نور الحق قادری اور محمد اقبال خان کامیاب قرار پائے تھے۔
کرم ایجنسی کو صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں پی کے 108 اور 109 میں تقسیم کیا گیا ہے، جو کہ قومی اسمبلی کے بھی دو حلقوں این اے 45 اور 46 میں آتے ہیں۔ عام انتخابات میں این اے 45 سے متحدہ مجلس عمل کے منیر خان اورکزئی اور این اے 46 سے پیپلز پارٹی کے ساجد حسین طوری کامیاب ہوئے تھے۔
پی ٹی آئی کے امیدوار جواد حسین اورکزئی عام انتخابات میں اورکزئی ایجنسی کے حلقہ این اے 47 سے کامیاب قرار پائے تھے اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں ضلع اورکزئی کو پی کے 110 بنایا گیا ہے۔
شمالی وزیرستان ایجنسی جو کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 48 میں شامل تھی۔ صوبائی انتخابات میں ضلع شمالی وزیرستان کے دو حلقوں پی کے 111 اور 112 میں تقسیم کیا گیا ہے۔
عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے اس حلقے سے آزاد امیدوار محسن داوڑ 16526 ووٹ حاصل کر کے کامیاب قرار پائے تھے، جنھیں ایم ایم اے کے امیدوار مصباح الدین سے صرف 1163 ووٹ زیادہ ملے تھے۔
پی کے 113 اور پی کے 114 جنوبی وزیرستان میں آتے ہیں، جو کہ قومی اسمبلی کے دو حلقے این اے 49 اور 50 بنتے ہیں۔ عام انتخابات میں ان حلقوں سے ایم ایم اے کے محمد جمال الدین اور آزاد امیدوار علی وزیر کامیاب ہوئے تھے، جبکہ عام انتخابات میں سب سے کم ووٹر ٹرن آؤٹ 20.71 این اے 49 میں ریکارڈ کیا گیا۔
یاد رہے کہ قومی اسمبلی کے حلقے این اے 50 میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنا امیدوار نامزد نہیں کیا تھا، جس کی وجہ سے آزاد امیدوار علی وزیر 23 ہزار سے زائد ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کا آخری حلقہ پی کے 115 ایف آر ٹرائبل ایریا پر مشتمل ہے، جو کہ قومی اسمبلی کا این اے 51 بنتا ہے۔ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے اس حلقے سے ایم ایم اے کے امیدوار عبدالشکور 21962 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ یہاں سابق فاٹا کے 12 قومی اسمبلی کے حلقوں میں سب سے زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ 64.26 فیصد رہا تھا۔