فاٹا انضمام کے بارے میں قبائلی عوام کے تحفظات وخدشات بڑھ رہے ہیں

فاٹا انضمام کے بارے میں قبائلی عوام کے تحفظات وخدشات بڑھ رہے ہیں
سابق فاٹا کے انضمام کو تین سال کا عرصہ بیت گیا، لمبے چوڑے دعوؤں اور قبائل کو پیرس اور لندن بنانے کے خواب چکنا چور ہونے کو ہیں بلکہ ہوچکے ہیں۔ قبائلی علاقوں کے عوام میں مایوسی اور بے یقینی بڑھ رہی ہے جس کا اظہار وقتاً فوقتاً قبائلی عوام کی طر ف سے ہوتا رہتا ہے جیسے کہ آجکل مختلف علاقوں کے مشران و عمائدین یکجا ہو ئے ہیں اور ااسلام اباد اور پشاور میں جلسے اور جرگے کر رہے ہیں جس میں وہ انضمام کی واپسی اور قبائلی علاقوں کو الگ صوبہ دینے کی ایک قسم کی تحریک چلارہے ہیں۔

گزشتہ روز ایک قبائلی ملک رقیب گل جس کا تعلق شمالی وزیرستان کے وزیر قبیلے سے ہے، نے ایسے ہی ایک جرگے میں اپنے جذباتی خطاب میں کہا کہ جب سے انضمام ہو ا ہے تب سے قبائلی علاقوں میں امن امان کا مسئلہ پیدا ہوچکا ہے جس کی کُلی ذمہ داری بقول رقیب گل پولیس پر عائد ہو تی ہے جو کہ امن امان کے قیام میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے عدالتوں کے بارے میں بھی اپنی تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ وکلاء بھی قبائلی عوام کے بین القبائلی اور قومی تنازعات میں برابر کے شریک ہیں جو کہ محض اپنی فیسوں کیلئے قوموں کو لڑواتے ہیں۔

ملک رقیب گل کے خیالات سے اختلاف یا اتفاق ہر ایک کا بنیادی انسانی حق ہے لیکن عرض یہ کرنی ہے کہ جس انداز سے قبائلی عوام کے درمیان آجکل تنازعات نے سراٹھایا ہے اس سے اس پسماندہ خطے کے عوام میں مایوسی کا پایا جا نا ایک فطری امر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انضمام کے دوران اور انضام سے پہلے قبائلی عوام کو جو سبز باغ دکھائے گئے تھے اور جس سے قبائلی عوام نے حد سے بھی زیادہ اونچی توقعات کی خواب و خیال کی دنیا میں جو عمارات کھڑی کردی تھیں وہ تین سال گزرنے کے بعد دھڑام سے گرچکی ہیں اور قبائلی عوام کی زندگیوں میں کوئی مثبت اشارے سامنے نہیں آرہے۔ اس سے ان تمام لوگوں کو شہہ ملی ہے جو انضمام کے مخالف ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک قبائلی عوام میں انضمام یا سابقہ نظام کسی ایک پر بھی اتفاق رائے قائم نہیں ہو سکا ہے البتہ نوجوان طبقہ جو تعلیم یافتہ ہے لیکن سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، ان میں ایف سی آر کے خلاف ایک قسم کی نفرت پائی جاتی ہے اور حال یہ ہے کہ ایف سی آر کو نہ تو کسی نے دیکھا ہے اور نہ ہی اس کے مطالعہ کی زحمت کی ہے جبکہ سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھا کر ایف سی آر کو کالا قانون، ظالمانہ اور غیر انسانی قرار دیکر ایک ایسے نظام کی حمایت میں رطب اللسان ہیں جس سے بندوبستی علاقوں کے لوگ بھی زیادہ خوش نہیں ہیں۔

توقع کی جارہی تھی کہ ایف سی آر کے خاتمے کے بعد صوبائی اسمبلی میں نمائندگی ملے گی تو علاقے میں ترقیاتی کاموں کا ایک انقلاب برپا ہو گا، کسی کے ساتھ کوئی غیر قانونی کاروائی نہیں ہوگی، ہر ایک کو سستا اور فوری انصاف ملے گا لیکن بسا اے آرزو کہ خاک شد، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور حالات پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہیں۔

گزشتہ روززایک رپورٹ دیکھنے کو ملا جس میں کہا گیا تھا کہ باجوڑ میں گزشتہ تین سالوں کے دوران ایک بھی سکول نیا نہیں بنایا گیا ہے اور یہی حال پورے قبائلی خطے کا ہے حالانکہ حکومتی دعوؤں کے مطابق قبائلی علاقوں کو ہر سال ایک سو ارب کا پیکج دیا جا رہا ہے جو کہ آئندہ دس سال تک جاری رہے گا تاکہ ان علاقوں کو ملک کے دیگر حصوں کے برابر لایا جا سکے، مگر زمینی حقائق کچھ اور بتا رہے ہیں۔

یہ تو اب شاید ممکن نہیں رہا کہ انضمام کو واپس لیا جا سکے تاہم قبائلی عوام کیلئے الگ صوبے کا آپشن بہر حال موجود ہے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ضرورت اس امر کی ہے کہ قبائلی علاقوں میں نظام پر توجہ دی جائے اور وہاں ترقیاتی کاموں کو سنجیدگی سے لیا جائے، صرف زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا۔خدشہ تو یہ بھی ہے کہ قبائلی علاقوں میں نظام تعلیم گوکہ ابتری کی طرف گامزن ہے اور اس کا جو بھی مشاہدہ کرنا چاہتا ہے وہ گراؤنڈ پر جا کر تعلیمی نظام کا غرق شدہ بیڑہ دیکھ سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ قبائلی عوام کو دئے گئے کوٹہ سسٹم کے خلاف جو اوازیں اٹھ رہی ہیں اس میں غالب امکان یہ ہے کہ کچھ سالوں بعد تعلیمی نظام کے مزید ابتر ہونے کے باوجود کوٹہ سسٹم ختم کیا جائے گا اور بھوت بنگلوں جیسے تعلیمی اداروں سے فارغ ہو نے والے قبائلی طلباء کو مقابلے کے امتحانات میں ملک کے معتبر تعلیمی اداروں کے طلباء کے ساتھ بٹھایا جائے گا اور ایسے میں جیت جانا یا مقابلے کے امتحان میں اپنے لئے سیٹ نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔

ایسے میں انضمام مخالف گروہ کے خیالات سے اتفاق پیدا ہونا شاید ہم جیسے کم علموں کی مجبوری ہو گی۔اور یہ کہیں گے کہ بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا یعنی اس سے تو سابقہ فاٹا ہی بہتر تھا اس لئے حکمرانوں کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا تاکہ قبائلی عوام میں پھیلی ہوئی مایوسی اور احساس محرومی کا خاتمہ ہو سکے ورنہ حالات شاید پہلے سے بھی ابتری کی طرف گامزن ہیں۔

مصنف کا تعلق شمالی وزیرستان سے ہے۔ وہ گزشتہ 26 سال سے صحافت کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ مصنف روزنامہ مشرق پشاور کے ساتھ بطور بیورو چیف منسلک ہیں۔