شمالی وزیرستان میں 4 خواتین کا قتل: کیا سابق فاٹا کا علاقہ پھر سے دہشتگردوں کی آماجگاہ بن چکا؟

شمالی وزیرستان میں 4 خواتین کا قتل: کیا سابق فاٹا کا علاقہ پھر سے دہشتگردوں کی آماجگاہ بن چکا؟

خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان  کے علاقے میرعلی میں گزشتہ روز نامعلوم شدت پسندوں کی جانب سے  ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم کے لئے کام کرنے والی چار خواتین کو دن دیہاڑے قتل کیا گیا جبکہ فوج کے ابلاغ عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں ملوث کمانڈر کو ایک  اپریشن میں ماردیا گیا ہے۔ تاہم تحریک طالبان پاکستان کے سینئر لیڈرشپ اس واقع سے لاعلمی کا اظہار کررہے ہیں اور تاحال کسی تنظیم نے اس واقع کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔


تفصیلات کے مطابق ہلاک ہونے والی چاروں خواتین کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے بنوں کے متوسط گھرانوں سے تھا اور وہ سولہ ہزار ماہوار پر کام کررہی تھیں۔


ہلاک ہونے والے خواتین میں ارشاد بی بی اور عائشہ سگی بہنیں تھیں اور دونوں کا تعلق بنوں سے تھا اور  دونوں بہنیں  شادی شدہ تھیں۔ حملے میں ہلاک ہونے والی  ناہید بی بی کا تعلق  بنوں سے تھا اور وہ بھی شادی شدہ تھیں۔  حملے میں ہلاک ہونے والی چوتھی خاتون  جویریہ  تھیں جنکا تعلق بھی بنوں سے تھا  تاہم وہ شادی شدہ نہیں تھیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ خواتین صباؤن نامی غیر سرکاری تنظیم کے لئے یومیہ اجرت پر کام کررہی تھی مگر تنظیم کے ترجمان نے اس بات کی تردید کی اور کہا کہ ان خواتین کا ہمارے تنظیم سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ہمارے لئے وہ کام کرتی تھی۔


شمالی وزیرستان میں مقیم صحافی نے نیا دور میڈیا کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ گزشتہ کئی مہینوں سے شمالی وزیرستان دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں اور اس واقعے کے بعد ایک خوف ہے اور  منگل اور بدھ کے روز خواتین کی سکولوں اور ہسپتالوں میں حاضریاں معمول سے کم رہیں کیونکہ پورے علاقے میں ایک غم اور دکھ کا ماحول ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز پیر کے روز سے علاقے میں کسی بھی ناخوشگوار واقع سے نمٹنے کے لئے مسلسل گشت کررہی ہے اور علاقے میں سیکیورٹی سخت کردی گئی ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ کمانڈر سجنا کی موجودگی کے حوالے سے کئی مہینوں سے خبریں گردش میں تھی اور علاقے میں امن و امان کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں تھی لیکن پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان رابطوں کی فقدان کی وجہ سے یہ واقع پیش آیا جن میں چار انسان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔


دوسری طرف پشاور میں مقیم صحافی رحیم اللہ یوسفزئی نے وزیرستان واقع پر مقامی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ شمالی وزیرستان میں مسلسل حملوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جنگجووں کی ایک بڑی تعداد اس وقت  شمالی وزیرستان میں موجود ہیں۔ انھوں نے اس بات کی تردید کی کہ شمالی وزیرستان میں کوئی علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے لیکن مسلسل  حملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں نہ صرف طالبان کی ایک بڑی تعداد موجود ہے  بلکہ ان کے سہولت کاروں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور وزیرستان میں اب تک امن بحال نہیں ہوسکا جس سے حکومت اور فوج دونوں پریشان ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں اس وقت حالات کشیدہ ہیں اور لوگوں میں عدم تحفظ کا ایک احساس ہے۔


نیا دور میڈیا نے شمالی وزیرستان کے ڈی پی او سے علاقے میں امن و امان کی صورتحال اور پولیس کی جانب سے ممکنہ لائحہ عمل پر موقف جاننے کی کوشش کی مگر انھوں نے فون نہیں اُٹھایا۔