’رواں سال وزیرستان میں 20 گھر غیر آئینی طور پر مسمار کیے جا چکے ہیں‘؛ فاٹا انضمام کے دو سال گزرنے کے باوجود انتظامیہ اور پولیس بے بس

’رواں سال وزیرستان میں 20 گھر غیر آئینی طور پر مسمار کیے جا چکے ہیں‘؛ فاٹا انضمام کے دو سال گزرنے کے باوجود انتظامیہ اور پولیس بے بس
مئی ۲۰۱۸ کو حکومتِ پاکستان نے سابقہ فاٹا کا خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام کر کے ایک تاریخی آئینی ترمیم کو منظور کیا اور یوں سابقہ فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کیا گیا، جس سے برطانوی حکومت کے لاگو کیے گئے قانون ''ایف سی آر'' کا خاتمہ ہوا۔ فاٹا انضمام کی تشہیر اس بنیاد پر کی گئی تھی کہ وہاں ملک کا قانون نافذ کیا جائے گا، ترقیاتی منصوبوں پر کام ہوگا، عدالیہ کا قیام، انصاف کی فراہمی، عسکریت پسندی اور دہشتگردی کا خاتمہ سمیت دیگر منصوبے شامل تھے۔

قبائلی اضلاع کو خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کے لئے مختلف طلبہ اور مقامی نوجوانوں کی تنظیمیں بھی بنائی گئی تھی جنہوں نے فاٹا انضمام کی تشہیر میں کلیدی کردار ادا کیا، لیکن فاٹا انضمام کے بعد تاحال وہ منظرعام سے غائب ہیں۔ سو مذکورہ بالا وعدے اور دعوے اب بھی قبائلی لوگوں کے لیے صرف خواب ثابت ہوئے ہیں۔

انضمام کے مقاصد میں ایک اہم مقصد یہ تھا کہ وہاں عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا تاکہ انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور اسی کے ساتھ پولیس کے ادارے کو وہاں فعال کرنا بھی مقصود تھا تاکہ ریاستی قانون کی عملداری ممکن ہو، جو کہ بدقسمتی سے دو سال بیت جانے کے باوجود حقیقت کا روپ نہیں دھار سکا۔

قبائلی علاقہ جات میں انضمام کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ جرگہ نظام اور جرگے کے فیصلے، قانون اور عدالتی فیصلوں سے بالاتر اور مقدس ہیں۔ گویا قبائلی علاقہ جات میں وہی صورتحال ہے جو انضمام سے پہلے تھی۔ آج بھی لوگوں کے مابین فیصلہ جرگہ اور مالکان کرتے ہیں نہ کہ عدالت یا کوئی اور ریاستی ادارہ۔ انضمام کے بعد بھی گھروں کو مسمار کرنے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ۱۸ اگست ۲۰۲۰ کو تحصیل وانا کے علاقے تنائی کے مقام پر زمینی تنازعے پر جرگے کے فیصلے کی روشنی میں چار گھر مسمار کیے گیے لیکن خاموش ضلعی انتظامیہ اور پولیس تماشا دیکھ رہی تھی اور کوئی بھی کارروائی کرنے سے قاصر تھی۔

یہ اس سال کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ سال ۲۰۲۰ میں اب تک صرف وزیرستان میں بائیس سے زائد گھر مسمار کیے جاچکے ہیں جن میں جنوبی وزیرستان میں چودہ چھوٹے گھر وچہ خواڑہ، دو انگور اڈہ، اور ایک ایک ذرہ غونڈی، اعظم ورسک، راغزائی، اور زم چینہ میں مسمار کیے گیے۔ اس طرح باجوڑ میں کچھ گھروں کا مسمار کرنے کے واقعات سامنے آئے۔ ان تمام واقعات میں وہاں موجود ریاستی اداروں کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے، نہ ہی انھوں نے تحقیقات کی اور نہ ہی کسی کے خلاف مکمل کارروائی کر سکے، صرف خاموش تماشی بنے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ جرگے کے اراکین اور مقامی مالکان بھی ہیں جو پولیس اور انتظامیہ کو کارروائی کرنے سے روکتے ہیں۔ جب پولیس کوئی کارروائی کرنا چاہتی ہے تو مقامی مالکان ان کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں اور پشتون رسم و رواج کی خلاف ورزی قرار دے کر انہیں کارروائی کرنے سے روکتے ہیں۔

حال ہی میں کری کوٹ میں جب پولیس نے ملزمان کے خلاف کارروائی کی اور ملزمان کو ان کے گھر سے اٹھایا تو جرگہ مالکان اور مقامی لوگوں نے ان کے خلاف احتجاج کیا اور یہ مطالبہ کیا کہ پولیس انسپکٹر اللہ نواز اور اصغر کو معطل کیا جائے اور اگر ایسا نہ ہوا تو پشتون والی کے تحت جرگہ مالکان ان کو سزائیں سنائیں گے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں ریاستی ادارے کس قدر بےبس ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جرگہ نظام ریاستی اداروں سے بالاتر ہے۔

ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہاں کے مقامی صحافی اور رہنما بھی اس موضوع پر کھل کر بات نہیں کرسکتے۔ جب بھی وہ جرگے کے فیصلے کے خلاف بات کرتے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کا خطرہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان پر کوئی کھل کر بات نہیں کرتا۔ حتٰی کہ وہاں کے مسائل اور حقوق پر بات کرنے والی تحریک پی ٹی ایم بھی اس پر کھل کر بات کرنے سے کتراتی ہے۔ پی ٹی ایم کے کارکنان تو انفرادی طور پر اس کے خلاف سوشل میڈیا پر آواز اٹھاتے رہتے ہیں لیکن تحریک کی سطح پر ابھی تک کوئی جامع موقف سامنے نہیں آیا۔ اس حوالے سے جب ہم نے وزیرستان سے منتخب ایم این اے اور پی ٹی ایم کے اہم مرکزی رہنما محسن داوڑ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقہ جات میں گھروں کا اس طرح مسمار ہونا سیکورٹی اداروں پر سوالیہ نشان ہے۔ وزیرستان میں ریاستی اداروں کی موجودگی کے باوجود اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کس کے ایما پر ایسا ہو رہا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کے خلاف کارروائی ہوجاتی۔ ہم اس طرح کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں ریاست کا ہاتھ ہے۔

محسن داوڑ کی جانب سے مذمت خوش آیند ہے لیکن انھوں نے واضح نہیں کیا کہ پی ٹی ایم اس حوالے سے کیا کردار ادا کرے گی کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ ایاز وزیر کی رہائش گاہ مسمار کی جا رہی تھی تو سوشل میڈیا پر مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے آواز اٹھائی حتٰی کہ وزیرستان سے باہر کی پولیس سے بھی مدد لی گئی اور یوں ان کے گھر کو مسمار ہونے سے بچا لیا گیا۔ لیکن ان کیسیز میں پی ٹی ایم کی جانب سے اس طرح کی حمایت اور مذمت نہیں دیکھی گئی۔

اس حوالے سے سینئر صحافی گوہر محسود کا کہنا تھا کہ میں حیران اس بات پر ہوں کہ فاٹا انضمام کے حوالے سے وعدے اور دعوے کیے گیے تھے، کیا وہ صرف اس لیے تھے کہ لوگوں کے گھروں کو اس طرح مسمار کیا جائے گا اور اس طرح لاقانونیت ہوا کرے گی؟ سمجھ نہیں آ رہا کہ انضمام ہوا تو کس لیے ہوا۔ ہر روز وہاں اس طرح کے واقعات سامنے آ رہے ہیں لیکن کوئی ایک بھی ایسا ریاستی ادارہ نہیں جو ذمہ داری لے اور تحقیقات کر سکے۔ یقنناً جرگہ ایک اچھا نظام ہے لیکن اس کے کچھ اصول ایسے ہیں جس کو مفاد پرست لوگ غلط استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے فیصلے سامنے آتے ہیں۔ کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ ہم انضمام سے پہلے اچھے تھے کیونکہ انضمام کے بعد ہم صرف اور صرف تذبذب کا شکار ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جرگہ مالکان سٹیٹس کوو کو ختم کرنے کے بالکل حق میں نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ سٹیس کو برقرار رکھیں اور جو فیصلہ وہ کریں، اس کو حتمی تصور کیا جانا چاہیے۔ پھر چاہے وہ گھر مسمار کرنے کا یا ناانصافی پر مبنی فیصلہ ہی کیوں نہ ہو۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا جرگہ سسٹم قانون سے بالاتر ہے؟ کیا ملکان کے فیصلے عدالتی فیصلوں سے زیادہ اہم ثابت ہوں گے؟ کیا سزا ملکی اداروں کے بجائے ملکان اور جرگہ سنایا کرے گی؟ گھروں کا مسمار ہونا اور جرگہ نظام کا اس طرح فعال ہونا تشویش باعثِ تشویش ہے۔ وہاں بدامنی کی لہر ایک بار پھر پیدا ہوسکتی ہے۔ لہٰذا انضمام کی جس طرح تشہیر کی گئی تھی اور جو وعدے اور دعوے کیے گیے تھے ان پر عملاََ کام کیا جائے نہ کہ قبائلی لوگوں کو ایک بار پھر تاریک اندھیروں میں گھسیٹا جائے جہاں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔