قبائلی اضلاع کی خواتین امیدوار بھی مسائل حل کرنے کی خواہاں

قبائلی اضلاع کی خواتین امیدوار بھی مسائل حل کرنے کی خواہاں
خيبر پختون خوا ميں نئے ضم شدہ اضلاع ميں صوبائی اسمبلی کی 16 نشستوں پر ہفتے کو ملک کی تاريخ ميں پہلی بار انتخابات ہو رہے ہيں۔

ان انتخابات میں 285 اميدوار ميدان ميں ہيں۔ جن ميں 2 خواتين بھی شامل ہيں۔ مجموعی طور پر 28 لاکھ ايک ہزار 837 ووٹرز حق رائے دہی استعمال کريں گے۔

اس سے پہلے بھی قبائلی علاقوں سے خواتين نے انتخابات ميں حصہ ليا ہے ليکن پہلی بار صوبائی اسمبلی ميں نمائندگی کے لیے انتخابات ہو رہے ہیں۔

خيبر ايجنسی کے حلقہ پی کے-106 سے ناہيد آفريدی عوامی نیشنل پارٹی (اے اين پی) کے ٹکٹ پر انتخابات ميں حصہ لے رہی ہيں۔ وہ پُراميد ہيں کہ 20 جولائی کا دن ان کے لیے بہترین ثابت ہو گا۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے ناہید آفریدی نے بتايا کہ ميں اليکشن مہم ميں گھر گھر گئی ہوں۔ ريليوں کا بھی انعقاد کیا ہے۔ اب ديکھنا ہے کہ لوگ نظریئے کو ووٹ ديتے ہيں يا پھر پيسے کی ريل پيل کامیاب ہو گی، کيونکہ خيبر ايجنسی ميں اليکشن ميں پيسے کا بہت زيادہ استعمال ہوتا ہے۔

اپنی انتخابی مہم کے حوالے سے انہوں نے بتايا کہ ہار جيت سے قطع نظر اس بات کی خوشی ہے کہ يہاں لوگوں نے پہلی بار کسی خاتون کو منظم انداز ميں انتخابی مہم چلاتے ہوئے ديکھا جو ايک بڑی تبديلی ہے۔

خواتين کے مسائل پر بات کرتے ہوئے اے این پی کی امیدوار کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے 70 سال سے کسی نے يہاں کے مسائل پر توجہ نہیں دی۔

کرم ايجنسی سے 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر آزاد حیثیت سے حصہ لینے والی علی بيگم بھی ناہيد آفريدی سے اتفاق کرتی ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس دفعہ خواتين اميدواروں کے لیے کاميابی کے مواقع بہت کم ہيں ليکن يہ پھر بھی ايک اچھی پیش رفت ہے۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے علی بیگم نے مزید کہا ہے کہ بد قسمتی سے قبائلی علاقوں ميں مذہب کی تشریح مختلف ہے۔ عورتوں کو بتايا جاتا ہے کہ ان کا کام گھروں کے اندر ہی رہنا ہے جبکہ باہر کی دنيا میں ان کا کوئی کام نہیں ہے۔

واضح رہے کہ علی بيگم گريڈ 22 ميں بطور مينجنگ ڈائريکٹر فرنٹئير ايجوکيشن ريٹائرڈ ہوئيں۔ انہوں نے عام انتخابات میں کرم ايجنسی سے آزاد حيثيت میں 1600 لیے تھے۔ وہ خود کو خوش قسمت سمجھتی ہيں کيونکہ سروس کے دوران انہوں نے ان علاقوں کے کافی دورے کئے تھے۔

2 یاد رہے کہ انتخابات میں خواتین کی 4 مخصوص نشستوں پر بھی 8 امیدوار سامنے ہیں۔ قبائلی اضلاع میں 16 نشستوں کے لیے 11 لاکھ تیس ہزار 529 خواتین حق رائے دہی استعمال کریں گی۔

قبائلی اضلاع کی خواتین امیدواروں میں سے نعیمہ کشور خان وہ واحد امیدوار ہیں جو پہلے بھی اسمبلی کا حصہ رہ چکی ہیں۔

جنوبی وزیرستان کے علاقے منتوئی میں جنم لینے والی نعیمہ نے تعلیم پشاور سے حاصل کی اور زمانۂ طالبعلمی میں ہی وہ سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سٹوڈنٹ لائف سے ہی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) سے وابستہ تھی پھر شادی کے بعد مردان چلی گئی۔‘

نعیمہ سنہ 2002 میں ایم پی اے اور 2013 میں ایم این اے رہ چکی ہیں۔

ان کے مطابق ’خاندان والوں کو پسند نہیں تھا میرا سیاست میں جانا لیکن میرے شوہر نے ساتھ دیا۔‘

دوسری جانب خیبر پختونخوا اسمبلی میں قبائلی اضلاع کے لیے اقلیت کی ایک نشست مختص کی گئی ہے اور جے یو آئی نے اس نشست پر خاتون امیدوار ثریا بی بی کو میدان میں اتارا ہے۔ ثریا بی بی کا تعلق خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل سے ہے، 45 سالہ ثریا نے گھر گرہستی میں زندگی گزاری ہے لیکن اپنے حلقے کی خواتین کے مسائل کو دیکھتے ہوئے انہوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا، خیبر پختونخوا اسمبلی کے لیے ہونے والے الیکشن کو بہتر موقع سمجھتے ہوئے انہوں نے جے یو آئی کو خواتین کی مخصوص نشست پر ٹکٹ کے لیے درخواست دی جو منظور کرلی گئی اور انہیں خواتین کی مخصوص نشست پر ٹکٹ جاری کردیا گیا۔

ثریا بی بی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں ان کو نمائندگی کا موقع ملا تو وہ لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیں گی۔ ڈگری کالج نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کو باہر تعلیم کے لیے جانا پڑتا ہے، اسی طرح ان کی کوشش ہوگی کہ لڑکیوں کو سلائی کڑھائی اور دیگر فنی تعلیم دی جاسکے۔ علاقے میں دستکاری سینٹر کا قیام ان کی اولین ترجیح ہوگی۔ ملازمتوں میں خواتین کے کوٹے پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا اس حوالے سے وہ اسمبلی میں آواز اٹھائیں گی۔