قبائلی اضلاع کے ترقیاتی سکیموں میں 38 کروڑ روپے کی بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کا نوٹس لیتے ہوئے قومی احتساب بیورو ( نیب) نے ریکارڈ تحویل میں لے لیا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران کا اجلاس کمیٹی چیئرمین ہلال الرحمان کی صدارت میں ہوا جس میں قبائلی ضلع مہمند اور باجوڑ میں ترقیاتی سکیموں میں 38 کروڑ روپے سے زائد کی بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے اور پاک پی ڈبلیو ڈی حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دی۔
پاک پی ڈبلیو ڈی حکام نے رقم واپس قومی خزانے میں جمع کرانے کے لیے سینیٹ میں تحریری ضمانت جمع کرا دی۔ اس موقع پر کمیٹی میں موجود سینیٹرز نے تحقیقات کراکے بے ضابطگیوں میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کی اپیل کردی۔
ڈائریکٹر جنرل پاک پی ڈبلیو ڈی نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیوں پر محکمے کے اندر انکوائری قائم کی گئی ہے۔ انکوائری پندرہ دن کے اندر اندر مکمل کرکے رپورٹ کمیٹی کو فراہم کی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں پائی گئیں تو کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا تاہم ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے جاری کئے گئے فنڈز کا طریقہ کار شفاف نہیں تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیب حکام نے متعلقہ سکیموں کا تمام ریکارڈ تحویل لیا ہے اور انھوں نے مختلف سائٹس کا دورہ بھی کیا ہے اور وہ ان سکیموں کے حوالے سے تحقیقات کررہی ہے۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر ہلال الرحمان نے کہا کہ ضلع مہمند کی ترقیاتی سکیموں میں 38 کروڑ روپے سے زائد کی بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ مہمند کی ترقیاتی سکیموں کے لئے ایک پی سی ون تیار کی گئی جس میں37 کروڑ روپے کی پائپ خریدی گئی ہے۔ ضلع کا رقبہ کچھ سو کلومیٹر ہے لیکن 26 لاکھ فٹ سے زائد کی پائپ خریدی گئی جو سمجھ سے بالاتر ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پی سی ون کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں میں بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں کی گئی ہے۔ چیئرمن کمیٹی نے مزید کہا کہ کاغذات میں منصوبے ہیں لیکن ابھی تک کوئی سکیم شروع نہیں کی گئی ہے۔ پاک پی ڈبلیو ڈی کے حکام نے کہا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر تمام رقم ریکور کرکے قومی خزانے میں جمع کی جائے گی۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر ہلال الرحمان نے کہا کہ سینیٹ کے قائمہ کمیٹی نے گھپلوں کی نشاندہی کی اور سرکاری اداروں نے ضمانت جمع کی کہ ایک ہفتے کے اندر اندر 38 کروڑ روپے قومی خزانے میں جمع کی جائے۔ انہوں نے کہا اب یہ تحقیقاتی اداروں کا کام ہے کہ جو لوگ اس فراڈ میں ملوث تھے ان کے خلاف کارروائی کرکے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے ۔