مہمند اور باجوڑ کے قبیلے خونریزی کے محاذ پر کیوں؟

مہمند اور باجوڑ کے قبیلے خونریزی کے محاذ پر کیوں؟
پاکستان کے علاقے سابقہ فاٹا کے دو قبیلے مہمند اور باجوڑ کے عمائدین اور مقامی لوگ گذشتہ کئی روز سے سرحد بندی کے تنازع پر ایک دوسرے کے خلاف دھرنا دیے ہوئے ہیں اور دونوں قبیلوں کے عمائدین ایک دوسرے کے خلاف اسلحہ اُٹھانے اور لوگوں کو خونریزی پر اُکسانے پر تلے ہوئے ہیں۔ حالات کسی بھی وقت کشیدہ ہوسکتے ہیں مگر خیبر پختونخوا کی حکومت اور ضلعی انتظامیہ تاحال کوئی جامع کردار ادا نہیں کر سکی جس سے کشیدگی میں کمی واقع ہو جائے۔

نیا دور میڈیا نے اس مسئلے کی بنیادی وجہ جاننے کے لئے مقامی لوگوں سے بات کی کہ اس تنازع کی وجہ کیا ہے؟ جس پر ضلع مہمند میں بین الاقوامی میڈیا سے وابستہ صحافی اور پختون تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے شاہ نواز ترکزئی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ یہ مسئلہ تقریباً سو سالہ پرانا ہے جس میں ایک بڑی خونریزی ہوئی اور درجنوں لوگ اپنی جان سے گئے مگر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حد بندی کے مسئلے پر دونوں قبیلے ایک بار پھر خونریزی کے دہانے پر ہیں، ان لوگوں کو روکنا بہت ضروری ہے۔

ترکزئی کے مطابق سال 1912 میں صافی قبیلے نے مہمند قبیلے کو درخواست کی کہ علاقہ ناؤگئی میں مقیم خان اور طاقتور لوگ ان پر مظالم ڈھا رہے ہیں جس کے بعد مہمند قبیلے نے لشکر کشی کی اور دونوں جانب سے جنگ ہو گئی، جس کے بعد درجنوں لوگ نہ صرف جان سے گئے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ گھر اور بازار بھی مسمار ہوئے۔

ان کا کہنا ہے کہ باجوڑ قبیلے کا یہ ماننا ہے کہ مہمند قبیلے نے زبردستی اس علاقے پر قبضہ کیا اور یہ ہمارہ علاقہ ہے۔

واضح رہے کہ کچھ روز پہلے مقامی لیویز فورس نے اس متنازعہ زمین پر چیک پوسٹ بنا دی، جس کے بعد حالات کشیدہ ہوئے اور دونوں قبیلوں نے ایک دوسرے کے خلاف اسلحہ اٹھانے اور لشکر کشی کا اعلان کیا، جس کے بعد علاقے میں حالات کشیدہ ہیں اور مقامی انتظامیہ اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کوئی کردر ادا نہیں کر رہی۔

باجوڑ میں صحافت سے وابستہ بلال یاسر کے مطابق یہ مسئلہ سو سالہ پرانا ہے اور بظاہر یہ حد بندی کا مسئلہ دیکھائی نہیں دے رہا بلکہ اصل مسئلہ مالی معاملات کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مامد گٹ کے مقام پر کیڈٹ کالج کے قیام کے بعد جو مالی معاوضہ تھا اس پر دونوں قبیلوں کا تنازعہ کھڑا ہوا جو اب حد بندی میں داخل ہوچکا ہے۔ اب یہ بات حکومت کو معلوم ہوگی ہے کہ مالی معاوضہ مہمند یا باجوڑ قبیلے کو دیا گیا یا پھر کسی تیسرے فریق نے وہ معاوضہ حاصل کیا۔

باجوڑ کے ایک سماجی ورکر نے نیا دور میڈیا کو نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ مسئلہ اتنا سنگین نہیں بلکہ کچھ سیاسی اور مفاد پرست لوگ دونوں قبیلوں کو جنگ پر اُکسا رہے ہیں تاکہ ان کو سیاسی فائدہ ہو اور کل وہ الیکشن میں یہ اعلان کریں کہ دیکھو ہم نے آپ کی زمین کی خاطر اسلحہ اُٹھایا اور قربانیاں دیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر حکومت نے کوئی مصلحت نہیں کی تو حالات خون خرابے کی طرف جارہے ہیں اور لوگ سوشل میڈیا پر نفرت آمیز تقریروں کو ہوا دیے رہے ہیں جن سے حالات کشیدگی کی طرف جا رہے ہیں۔

نیا دور میڈیا نے مہمند اور باجوڑ کی ضلعی انتظامیہ سے اس کشیدگی کے بارے میں جاننے کے لئے کئی بار رابطہ کیا مگر انھوں نے جواب نہیں دیا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔