حکومت ان خونیں کھیلوں کو روکنے کے حوالے سے سنجیدہ نہیں
پاکستان میں اگرچہ اونٹوں کی لڑائی پر پابندی عائد ہے لیکن ملک میں یہ خونیں کھیل اب بھی مقبول ہے۔ گزشتہ دنوں جنوبی پنجاب کے شہر لیہ میں ایک ایسا ہی فیسٹیول ہوا جس میں اونٹوں کی لڑائی بھی شامل تھی۔
ایک تماشائی عتیق الرحمان نے غیرملکی خبررساں ادارے’ اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا:’’یہ ایک ثقافتی میلہ ہے اور لوگ جوش و خروش کے ساتھ اس میں شریک ہوتے ہیں۔ ‘‘
ملک میں خونیں کھیلوں کی ایک طویل تاریخ ہے جن میں مرغیوں، ریچھ اور کتوں کے علاوہ دیگر جانوروں کی لڑائیاں بھی شامل ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=r4TPLB6Ijy0
اینیمل ویلفیئر آرگنائزیشن سے منسلک ماہرِ قانون عبداحد شاہ نے کہا:’’پاکستانی قانون کے تحت تمام جانوروں کی لڑائیاں غیر قانونی ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ان لڑائیوں میں زخمی ہونے والے اونٹوں کو مناسب طبی امداد نہیں دی جاتی اور دیہاتی مقامی ٹوٹکوں پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ ایک ظالمانہ طرزِعمل ہے۔
شائقین اس تنقید کو رَد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ لڑائیاں پنجاب کی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہیں۔
جانوروں کی ان لڑائیوں میں شرکت کے لیے عموماً ایک سال سے زیادہ عرصہ تک ان کی تربیت کی جاتی ہے ۔
مقامی شہری محمد علی جتوئی نے کہا:’’یہ لڑائیاں ہماری ثقافت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ لوگ ان میں شریک ہوتے ہیں، ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اور وقتی طور پر زندگی کی پریشانیوں کو بھول جاتے ہیں۔‘‘
پاکستان کی کسی حکومت نے بھی جانوروں کی لڑائیوں کے حوالے سے قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے ۔ گزشتہ برس اس حوالے سے ایک قانون منظور ہوا تھا جس کے تحت جانوروں کی لڑائی کروانے پر جرمانہ 50 روپے سے بڑھا کر تین لاکھ روپے کردیا گیا تھا۔ یہ قانون 1890ء میں برطانوی دورِ حکومت میں تشکیل دیا گیا تھا جس میں ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک کوئی ترمیم نہیں کی گئی۔
اونٹوں کی لڑائی افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ میں بھی مقبول ہے جس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔
ترکی کے شہر سیلچوک میں اونٹوں کی لڑائی کا عالمی فیسٹیول منعقد ہوتا ہے جو دنیا بھر میں مقبول ہے۔ مقامی سیاست دان اسے اقوامِ متحدہ کے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کروانے کے حوالے سے کوشش کرتے رہے ہیں۔