کیا فرشتہ مہمند نے نازیبا لباس پہن رکھا تھا؟

کیا فرشتہ مہمند نے نازیبا لباس پہن رکھا تھا؟
فرشتہ مہمند کا ریپ ہوا۔ ہم نے اپنی بیٹی کا جنازہ جنگل سے اٹھایا اور جنگل میں دفن کر آئے۔ 18 مئی 2019 کو رات کے دو بجے 22 سالہ لڑکی کا پنڈی کے رہائشی علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن میں تین پولیس کانسٹیبلز نے گینگ ریپ کیا۔ یہ خبر بھی شدید تکلیف کا باعث بنی۔

ریپ کے واقعات جتنے پہلے ہوتے تھے، آج بھی کم و بیش اتنے ہی ہو رہے ہیں۔ آج کل فرق یہ ہے کہ میڈیا کے باعث یہ واقعات رپورٹ ہو جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں چند دن یہ خبریں گرم رہتی ہیں۔ پھر ہم ان پر خاک ڈال کر اگلے کسی ایسے ہی واقعے پر بین کرنے لگتے ہیں۔

لوگ کیا سوچ رہے ہیں، لوگوں کے نظریات کیا ہیں اور لوگ کسی واقعے کے حوالے سے کیا رویہ رکھتے ہیں، سوشل میڈیا ہمیں یہ سب بتا سکتا ہے۔ ہمارے یہاں جب بھی ریپ اور جنسی ہراسیت کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو ایک خاص قسم کا طبقہ مردوں اور عورتوں میں ایک عجیب و غریب منطق لے کر ایک بہانہ تراشتا ہے کہ ریپ اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا سارا مسئلہ عورت کے لباس ان صاحبان کی منشا کے مطابق نہ پہننے کا ہے۔



فرشتہ مہمند والے واقعے کے بعد فیس بک کے ایک پیج پر ایک پوسٹ دیکھی جسے کئی مرد و زن نے متفق ہوتے ہوئے شئیر کیا ہوا تھا۔ اس پوسٹ کا متن آپ کے سامنے رکھے دیتا ہوں۔

1۔ بہت سی مائیں اپنی بچیوں کو چُست ٹراؤذر اور تنگ پاجامے خرید کر دے دیتی ہیں۔ ’’کیا ہوا بچی تو ہے‘‘۔


2۔ بچی آدھی آستینیں پہن کر باہر کھیل گھوم رہی ہے۔ ’’کیا ہوا بچی تو ہے‘‘۔


3۔ کیا؟ تمہاری بیٹی نے شادی میں ڈانس کیا؟ ’’کیا ہوا بچی تو ہے‘‘۔


4۔ جسم کو جتنا زیادہ چھپا کر رکھا جائے اتنا بری نظروں سے محفوظ رہیں گی۔


5۔ بچیوں کو سمجھائیں کہ باہر جاتے وقت دوپٹے کو پھیلا کر رکھیں۔


6۔ کاش آپ کو وہ آنکھیں کچھ دیر دیکھنے کو مل جائیں جو ہوس پرستوں کے چہروں پر لگی ہیں۔ تو کبھی پھر بچیوں کو نہ تو ایسا لباس پہنائیں۔ نہ یہ کہیں کہ ’’بچی ہے کچھ نہیں ہوتا‘‘۔


7۔ کچھ نہیں ہوتا، کچھ نہیں ہوتا کرتے کرتے بہت کچھ ہو جاتا ہے۔ جدید دور کی اے ماں! جاگ ذرا۔۔۔۔!


یہ وہ علم کے موتی ہیں جنہیں ہمارے یہاں ریپ اور جنسی ہراسیت کا جواز بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ رونا اس بات کا ہے کہ لوگ اس پر یقین بھی رکھتے ہیں۔ پردے اور ریپ کا تعلق ہے یا نہیں، اس نقطے پر بحث سے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ ہمارے یہاں عورتیں پردہ کیوں کرتی ہیں۔ اور ہم پردہ مذہب کی وجہ سے کرتے ہیں یا اپنی سماجی قدروں کی وجہ سے۔



ہمارے ملک میں 80 اور 90 کی دہائی میں متوسط گھرانوں کی لڑکیوں کے لئے جب رشتے آیا کرتے تھے تو اکثر سُسرالیوں کی ایک شرط ہوا کرتی تھی کہ لڑکی شادی کے بعد برقعہ لے گی۔ اس میں بہت سے رشتے والے ایسے بھی تھے جن کے بیٹے امریکہ، انگلینڈ، کینیڈا اور دبئی میں جاب کرتے تھے۔ سو ہماری کچھ عورتیں رشتوں کے باعث جبری طور پر برقعے لینے لگیں۔ اور وہ برقعے بھی زیادہ دیر نہیں رہ پائے۔ جیسے جیسے اکیسویں صدی کا سورج طلوع ہونے لگا ان خواتین نے وہ برقعے اتار پھینکے۔ ایسے واقعات کا کسی طور میں بھی شاہد ہوں۔

یہ لگ بھگ 2002 یا 2003 کا زمانہ تھا۔ میری ماں نے مجھ سے کہا کہ میرا دل کرتا ہے کہ میں جینز اور شرٹ پہنوں۔ میں نے کہا تو آپ پہن لیں۔ کہنے لگیں کہ اس کے لئے مجھے یورپ جانا پڑے گا۔ پاکستان میں نہیں پہن سکتی۔

ہم نے 9 برس پہلے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو ہماری کلاس کی 80 فیصد مستورات سر پر سکارف اور چادر لیا کرتی تھیں۔ اور اکثریت کا تعلق راولپنڈی، اسلام آباد اور لاہور سے تھا۔ آج جب ہم انہی کلاس فیلوز کو جو اب یا تو شادی شدہ ہیں یا جاب کر رہی ہیں دیکھتے ہیں تو پہچان نہیں پاتے۔ گھٹنوں والی قمیص کی جگہ شارٹ شرٹ اور سر پر نظر آنے والے سکارف کی جگہ اڑتی ہوئی زلفوں نے لے لی ہے۔ تو کیا ہم اس ظاہری تبدیلی سے یہ نتیجہ اخذ کر لیں کہ پچھلے پانچ برسوں میں ان خواتین کا ایمان کمزور ہو گیا ہے؟ ہرگز نہیں۔

ہمارے یہاں زیادہ تر پردہ دو وجوہات کے باعث کیا جاتا ہے:

پہلی، سماجی ماحول۔ جس معاشرے میں آپ رہتے ہیں، وہاں یہ رائج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ، پشاور اور فاٹا سے تعلق رکھنے والی ہماری بہت سی پڑھی لکھی خواتین جب شہر اقتدار میں قدم رکھتی ہیں تو اسی کے ماحول میں ڈھلتے ہوئے لباس کا انتخاب کرتی ہیں۔ جب واپس اپنے آبائی شہر کو پلٹتی ہیں تو اپنے شہر کے ماحول کے مطابق لباس زیب تن کر لیتی ہیں۔ دوسری، ہمارے یہاں پردہ خوف کے باعث کیا جاتا ہے۔ چاہے وہ گھر والوں کا خوف ہو یا مردوں کی نظروں کا سامنا کرنے کا خوف۔ جب عورت میں ان نظروں کا سامنا کرنے کی طاقت آ جاتی ہے اور خود اعتمادی حاصل ہوتی ہے تو روایتی قسم کا پردہ ترک کر دیتی ہے۔



اب کچھ روشنی پردے اور ریپ کے تعلق پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ راقم نے کالم کے آغاز میں ایک پوسٹ کا متن دکھایا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر خاتون کو شٹل کاک والے برقعے میں قید کر کے باہر بھیجا جائے تو وہ ریپ اور جنسی ہراسیت کا شکار نہیں ہوگی۔

میں مردوں میں سفر کرتا ہوں، ان میں اٹھتا بیٹھتا ہوں اور سب سے بڑھ کر میں خود ایک مرد ہوں۔ میں نے مردوں کی نگاہوں کا خوب جائزہ لیا ہے اور قریب سے انہیں دیکھا ہے۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے۔ لوگ مجھ سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی 70 سے 80 فیصد خواتین سر پر چادر دوپٹہ سکارف اور کچھ ابایا اوڑھتی ہیں۔ آپ لوکل ٹرانسپورٹ سے لے کر بازاروں تک ہماری خواتین کی اکثریت کو پردے میں ہی دیکھیں گے۔ راہ چلتی خاتون سے لے کر شاپنگ مالز و بازاروں میں مرد برقعے میں لپٹی ہوئی خاتون کو زیادہ دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہیں۔

میٹرو بس میں، رش والے بازاروں میں چند مردوں کی لباس کی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی خاتون کو چھو کر گزرا جائے۔ پاکستان میں عورتوں کی ایک بڑی تعداد ہائی ایس اور سوزوکی میں سفر کرتی ہے۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی خواتین کے ساتھ چند ڈرائیوروں کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح سے گیئر بدلنے کے بہانے عورت کے جسم کو چھو لیا جائے۔ سوزوکی میں بیٹھے ہوئے مردوں کی کوشش ہوتی ہے کہ سامنے بیٹھی ہوئی خاتون کے گھٹنے کے ساتھ اپنا گھٹنہ لگایا جائے۔ لباس اور پردے پر زور دراصل ریپ اور جنسی ہراسیت روکنے کے نام پر دھوکہ ہے۔ آپ چاہے عورت کو کمبل میں لپیٹ دیں، ہوس کا کوئی علاج نہیں۔



چند دن پہلے قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے پیج پر ایک ویڈیو دیکھی۔ ایک پڑھی لکھی تہذیب یافتہ خاتون self-love کے موضوع پر بات کر رہی تھی۔ غلطی یہ کر بیٹھی کہ سر پر دوپٹہ نہیں لیا۔ ویڈیو کے نیچے چند عورتیں اور مرد اس طرح کے کمنٹس کر رہے تھے۔ "ننگے سر بیٹھ کر یوں لیکچر دینا ٹھیک نہیں۔ پہلے اپنا عمل درست کرو پھر لیکچر دینا"۔ ایک بہن کا کمنٹ تھا کہ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں پردہ کرنا چاہیے، یوں دنیا کے آگے سرعام بے پردہ نہیں بیٹھنا چاہیے۔

پہلے یہ کام گھر میں باپ اور خاوند کیا کرتے تھے کہ ’’یہ چھوٹی قمیض کیوں پہنی ہے؟‘‘ ’’یہ قمیض کا چاک اتنا لمبا کیوں ہے؟‘‘ اب ہم نے لیکچر گھروں سے نکل کر سوشل میڈیا پر دوسری عورتوں کو دینا شروع کر دیا ہے۔ عورت نے کیسا لباس پہننا ہے یہ فیصلہ اسے خود کرنے دیں۔ بے پردگی اگر ریپ کی وجہ ہے تو فرشتہ مہمند کے والدین سے جا کر پوچھ لیں کہ کیا آپ نے اپنی بیٹی کو کوئی نازیبا لباس پہنا رکھا تھا؟