اسلامی اور مغربی طرز زندگی کا تقابلی جائزہ

اٹھارویں صدی کے اختتام پر یورپ میں انقلاب فرانس کے بعد بادشاہت اور کلیسا کے گٹھ جوڑ کا خاتمہ ہوا جس کے باعث سیکولر ریاستوں کا قیام عمل میں آیا جہاں ہر شہری کو بلاتفریق مذہب ریاستی امور میں برابری کا درجہ حاصل تھا۔ مذہب کو ہر شخص کا ذاتی معاملہ قرار دے کر پادری اور چرچ کو الگ الگ کر دیا گیا جس کے ساتھ ہی صنعتی ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے یورپ میں سائنسی انقلاب آ گیا۔

جدید سانئسی علوم کی بدولت مغربی معاشروں میں انسانی مفادات اور ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوے نئے ریاستی قوانین تشکیل دیے گئے۔ ان ریاستی قوانین کا منبع و محور ہمیشہ انسان کی فکری آزادی رہی ہے۔ مذہبی بنیادوں پر جنسی تقسیم کا خاتمہ ہوا اور یوں عورتوں کو وہ تمام حقوق حاصل ہوئے جو اس سے قبل صرف مردوں کو حاصل تھے۔



عورت اور مرد میں معاشرتی تفریق کے خاتمے اور اس فکری آزادی نے نئے خیالات کو جنم دیا جنہوں نے آگے چل کر سائنسی میدان میں مغربی اقوام کی بھرپور رہنمائی کی اور یوں یورپ نے تیزی سے زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں بھرپور ترقی کی کیوں کہ مادی اور معاشرتی ترقی کا انحصار ہمیشہ نئی جہتوں پر مبنی جستجو پر رہا ہے اور انسان کی فکری آزادی اسے ہمیشہ بصری مشاہدات پر مبنی ٹھوس ثبوت اور منطقی دلائل کی طرف راغب کرتی ہے۔ چنانچہ آزاد سوچ کی بدولت ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا اور زمانہ حال میں رہتے ہوے بھرپور محنت اور جستجو کے ذریعے مستقبل کی منصوبہ سازی کرنا دراصل وہ زریں اصول تھا جس پر اقوام مغرب نے فی زمانہ عمل پیرا ہو کر اقتصادی اور معاشرتی لحاظ سے بھرپور ترقی کی ہے۔ شاید یہی وہ وجہ ہے کہ آج کے جدید دور میں اس فکری آزادی کی بدولت تقریبا تمام سائنسی ایجادات یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور کینیڈا کے ماہرین کی مرہون منت ہیں۔

عہد حاضر کی مغربی دنیا میں بسنے والے لوگوں نے سائنسی ترقی کی بدولت زمین کے اس پار مختلف سیاروں پر اپنی بستیاں آباد کرنے کی منصوبہ بندی کرلی ہے۔ اس ترقی کا بنیادی محور وہ محنت اور لگن ہے جو انہوں نے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کر رکھی ہے۔

دوسری طرف اسلامی عقیدت مندوں کے نزدیک حال اور مستقبل قریب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ عقیدت مند صرف اپنے شاندار ماضی میں رہنا اور جینا پسند کرتے ہیں یا پھر مستقبل بعید ( حیات بعد از موت) میں رہنا ان کی زندگی کا اولین مقصد ہے۔ کامیابی کی تلاش میں وہ ہمیشہ ماضی کا رُخ کرتے ہیں اور سیدھا ساتویں صدی عیسوی یا اس سے بھی پہلے پہنچ جاتے ہیں اور وہاں اپنے عقیدے کے اکابرین کی کامیابیوں کی مثالیں دیتے ہیں اور اس ماضی بعید کے دور میں کیے گئے شاندار اقدامات پر پھولے نہیں سماتے جب کہ ان کامیابیوں کا کریڈٹ خود لیتے ہوئے ایک خیالی دنیا میں جینا شروع کر دیتے ہیں۔



ماضی کی ان شخصیات کی ان تاریخی کامیابیوں پر کتابیں لکھی جاتی ہیں، بحث و مباحثے ہوتے ہیں اور تو اور مختلف نظریات کی حامل شخصیات پر کفر کے فتوے لگانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا اور کچھ  جذباتی عقیدت مند تو ساتویں صدی عیسوی میں رائج مروجہ قوانین کو اکیسویں صدی میں نافذ کرنے پر اصرار کرتے ہیں لیکن ایسے عقیدت مند ماضی بعید کے حالات، وہاں کی بودوباش، لوگوں کے رہن سہن، وہاں کے کلچر اور ان علاقوں میں بسنے والے قبائل کی منقسم آبادی، موسمی حالات، لوگوں کی نفسیات اور دیگر بے شمار زمینی واقعات اور حقائق کو یکسر نظرانداز کردیتے ہیں۔

عہد حاضر کا مسلمان یہ تک نہیں سوچتا کہ آج کا جدید انسان ہر لحاظ سے تبدیل ہو چکا ہے اور اسی لحاظ سے اس کی ضروریات بھی یکسر تبدیل ہو چکی ہیں جن کی تکمیل کے لیے موجودہ حالات اور جدید سائنسی تقاضوں کے مطابق، جدید انسانی قوانین کی ضرورت ہے۔ ایسے قوانین، جن میں ایک طرف خوف پر مبنی سزا ہو لیکن ساتھ ہی مجرموں کے لیے سدھار کا پہلو بھی پایا جاتا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ چوری تو چند روپوں کی ہو لیکن چور اپنی قیمتی ترین متاع ہاتھ سے محروم ہو جائے اور ساری زندگی معاشرے میں بھکاری بن کر ریاستی معیشت پر بوجھ بنا رہے۔



عقیدت مند اس ماضی بعید سے نکل کر مستقبل بعید ( حیات بعد از موت) میں چھلانگ لگا دیتے ہیں اور وہاں خوشی خوشی جینا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے اور سمجھتے کہ پروردگار نے انسان کو بنا مانگے کتنی خوبصورت زندگی دی ہے جس کا حق دیگر انسانوں کی فلاح وبہبود جیسے عظیم مشن کو سرانجام دے کر ادا کیا جائے جس طرح عبدالستار ایدھی، مادام مدر ٹریسا اور جرمن خاتون رُتھ  پفائو نے ادا کیا ہے۔ وہ بشری تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوے ماہ صیام یا عید کا چاند دیکھنے کے لیے دور بین تو استعمال کرتے ہیں لیکن انہیں کیلنڈر استعمال کرنا گوارا نہیں کیوں کہ ان کے نزدیک ہر وہ کام کرنا جائز ہے جو ساتویں صدی عیسوی میں کیا گیا تھا۔ اس جمود کی وجہ سے اسلامی عقیدت مندوں کے لیے موجودہ صدی میں ترقی کا سفر کٹھن سے کٹھن تر ہوتا جا رہا ہے۔

 

مصنف کینیڈا کی یونیورسٹی آف البرٹا میں ریسرچ سکالر ہیں