مالکی یا موت کا نعرہ لگانے والا مہر عبدالستار 4 سال بعد بری

مالکی یا موت کا نعرہ لگانے والا مہر عبدالستار 4 سال بعد بری
ساڑھے چار سال سے مقید اوکاڑہ کا کسان راھنما مہر عبدالستار جن کی رھائی کا حکم گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے دیا، عاصمہ جہانگیر کے بہت فیورٹ تھے۔

جب ستمبر 2017 میں عاصمہ جہانگیر اور عابد ساقی ایڈووکیٹس مہر عبدالستار سے ساہیوال کی ہائی سیکورٹی جیل میں ملاقات کے بعد باھر آئے تو میں نے انتہائی تجسس سے پوچھا کہ مہر ستار نے اپنے ساتھ انتہائی بدترین سلوک کے بارے میں کیا بتایا۔ تو انہوں نے کہا کہ کیا جی دار لیڈر ہے۔ اس نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک بارے کوئی شکائیت نہیں کی مگر پاکستان میں سیاسی حالات بارے بات کرتا رھا۔ یہ وہ مہر ستار تھا جسے سزا کے طور پر سزا یافتہ دھشت گردوں کے ساتھ رکھا گیا تھا اور چھ ماہ سے بیڑیاں لگی ہوئی تھیں۔

مہر ستار سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں بارے رٹ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور عمر عطا بندیال کی عدالت میں لگی تھی۔ عاصمہ جہانگیر نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ غریب کسانوں کے راھنما مہر عبرالستار کے خلاف 36 مقدمات اس لئے درج کئے گئے کہ وہ انجمن مزارعین پنجاب کا راھنما ہے اور غریب کسانوں کے لئے 100 سال سے زائد عرصہ سے زیر کاشت زرعی زمین کی ملکیت کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کو اوکاڑہ جیل سے ساہیوال کی ہائی سیکورٹی جیل میں مارچ 2017 سے شفٹ کسی عدالتی حکم کے بغیر کیا گیا جو غیر قانونی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف سیکرٹری کوئ مجاز اٹھارتی نہیں ایک انڈر ٹرائیل قیدی کی جیل شفٹ کرنے کی۔ مہر عبدالستارکو کس قانون کے تحت بیڑیاں لگائی گئی ہیں۔ ان سے غیر انسانی سلوک کیا جا رھاہے۔ عدالت عالیہ اسے عدالت میں طلب کر کے دیکھے کہ کس طرح ایک انسان سے سلوک کیا جا رھا ہے ان کا وزن آدھا رھ گیا ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ وہ کسانوں کے راھنما ہیں۔ 2013 اور 2015 میں انہوں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ اس وقت وہ "صادق اور امین" تھے اب تو ان پر بھتہ خوری، قتل، اقدام قتل، ریاست مخالف سرگرمیاں ، اور دیگر سنجیدہ الزامات لگائے گئے ہیں۔ یہ انہیں سزا دی جا رھی ہے۔

‎مخالف وکلاء نے کہا مہر عبداستار کی سیکورٹی کے ایشوز ہیں۔ ان پر حملوں کی خفیہ اطلاعات ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ وہ کوئی اسامہ بن لادن تو نہیں ہیں کہ سیکورٹی کے ایشوز ہیں۔ اس کے بعد انکی بیڑیاں اتارنے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ ایک مقدمہ میں مہر ستار پر بھتہ خوری کا الزام لگایا گیا تھا، دوسرے میں فائرنگ اور تیسرے میں ان کے گھر سے انڈین کرنسی، ہینڈ گرنیڈ، کلاشنکوف اور بھاری تعداد میں اسلحہ برامد کرنے کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا۔ یہ مقدمات اس وقت کے ڈی پی او ریٹارڈ کیپٹن فیصل رانا کی ہدایات پر درج کئے گئے تھے۔

ستمبر 2017 میں ایک مقدمہ میں انکی درخواست ضمانت پر لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے انکے وکیل عابد ساقی موجودہ وائس چئیرمین پاکستان بار کونسل نے عدالت میں کہا تھا کہ اس سے زیادہ مضحکہ خیز ایف آئ آر انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی۔ الزام یہ ہے کہ میرا کلائینٹ مہر ستار جب ہائی سیکورٹی جیل میں بند تھا اس کے گھر رات دو بجے چھاپہ مارا گیا اور اس دوران انڈین کرنسی، ہینڈ گرنیڈ، خودکش جیکٹ، موبائیل فون اور مختلف قسم کی رائفلیں برامد کر لی گئیں۔ عابد ساقی نے کہا کہ مزارعین کو ملک دشمن عناصر ڈیکلئر کرنے کے لئے یہ کاروائی کی گئی۔ پولیس والوں نے مہر عبدالستار کی عدم موجودگی میں انڈین کرنسی بھی برآمد کر لی اور اسلحہ و خودکش جیکٹ بھی جو پولیس کے مطابق ایک بھاگتا شخص دیوار کے ساتھ چھوڑ گیا۔ یہ ساری ایک گھڑی ہوئی داستان ہے۔ عابد ساقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ اصل صورتحال یہ ہےکہ مہر ستار مزارعین کا جنرل سیکرٹری ہے۔ ایشو ملٹری فارمز کی زمینوں کا ہے اورمزارعین اس زمین کی ملکیت کا مطالبہ کر رھے ہیں۔ ہر طرح کی انتقامی کاروائیاں جاری ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی ان کی بیڑیاں اتارنے کا حکم دیا ہے۔ اسی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوۓ کہا کہ مہر ستار پر چار ہینڈ گرنیڈ بھی ڈالے گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ کوئی سوشلسٹ ہیں جن پر ایسے مقدمات ڈالے گئے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نےان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے میری طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا کہ اور یہ بھی سوشلسٹ ہے جو یہاں موجود ہیں۔

آج ایک دفعہ پھر جھوٹ کو شکست ہوئی، سچ کا بول بالا ہوا۔ مہر عبدالستار کوئی دھشت گرد نہیں وہ ایک کسان راھنما ہے اور ملٹری فارمز کی زمینوں پر کام کرنے والے مزارعین کے مالکانہ حقوق کی جدوجہد کر رھا ہے۔ مہر عبدالستار جنرل سیکرٹری انجمن مزارعین پنجاب کو لاھور ہائی کورٹ کے دو رکنی ڈویژن بنچ نے کل اخری مقدمہ میں بھی باعزت بری کر دیا۔ انکے وکیل زاہد بخاری مرحوم اس کیس میں دلائل دے چکے تھے اور وہ وفات سے قبل بحث کر گئے تھے۔ مہر عبدالستار کے ساتھ قیدی عبدالغفور کو بھی آج بری کر دیا گیا۔ مہر عبدالستار جنرل سیکرٹری انجمن مزارعین پنجاب کو 16 اپریل 2016 کو صبح دوبجے انکے گھر پر دھاوا بول کر گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اس سے ایک روز بعد کسانوں کے عالمی دن کے موقع پر اپنے گاؤں چک 4/4L اوکاڑہ ملٹری فارمز پر ایک بڑا جلسہ منظم کرنے کا اعلان کر چکے تھے۔

ساھیوال انسداد دھشت گردی عدالت نے انہیں 2018 مین دس سال کی سزا سنائی تھی۔ چار سالوں کے دوران ان کے وکلاء میں سینئر ایڈوکیٹس مرحومہ عاصمہ جہانگیر، مرحوم زاھد بخاری ، اعظم نزیر تارڑ، عابد ساقی، فاروق احمد باجوہ اور آزر لطیف خان شامل تھے۔ مزارعین نے مالکی یا موت کی تحریک کا آغاز 2001 میں کیا تو ملٹری فارمز انتظامیہ نے انکے دیہاتوں کا گھیراؤ کیا، یہ جنرل مشرف کا دور تھا۔ اس کے خلاف کوئی بڑی تحریک نہ تھی۔ شائد یہ جنرل مشرف کے خلاف پہلی بڑی عوامی تحریک تھی جس کا آغاز پنجاب سے ہوا تھا۔ مزارعوں نے اس تحریک کاآغاز کیا تو مزارع عورتیں پیش پیش تھیں۔ انہوں نے ایک “تھاپا” فورس بنائی ہوئی تھی جو ہاتھوں میں کپڑے دھونے والے تھاپے اٹھا کر پولیس کی دو تین دفعہ خوب دھلائی کر چکی تھیں۔ عاصمہ جہانگیر ان کسان عورتوں کی جدوجہد سے بہت متاثر تھیں۔

اس تحریک کا آغاز اس وقت ہوا جب جنرل مشرف کے دور میں 2001 کے دوران مزارعین کو ٹھیکیداری نظام پر لانے کی تجویز دی گئی تو مزارعین نے اس کے خلاف مالکی لینے کی تحریک شروع کر دی۔ تمام تر ریاستی تشدد اور جبر کے باوجود یہ تحریک آج بھی خاموشی سے جاری ہے۔ اس کا آغاز مزارعین کی جانب سے وہ حصہ جو وہ ہر سال بٹائی کے نام پر ملٹری فارمز انتظامیہ کو دیتے تھے کو دینے سے انکار سے ہوا۔ آج انیس سال بعد مزارعین نے اس سال بھی گندم اٹھائی اور حصہ نہ دینے کو احتجاج کا حصہ بنا دیا ہے۔ یہ مزارعین انیس دیہاتوں میں آباد ہیں۔ ۔

مہر عبالستار کے خلاف ایک مقدمہ میں الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے بھتہ خوری کی ہے۔ جس کی طرف سے الزام لگایا گیا اس مدعی نے عدالت میں بیان دے دیا کہ مجھ سے کبھی مہر ستار نے کوئی زبردستی نہیں کی۔ نہ ہی بھتہ خوری کی۔ کئی مقدمات میں ان کے خلاف ایک ہی مدعی ہے۔

جس مقدمہ میں وہ اب بری ہوئے اس میں ایک پولیس کانسٹیبل نے یہ گواھی دی کہ مہر ستار نے مظاہرہ کے دوران اس پر گولی چلائی اور وہ زخمی ہو گیا۔ یہ پولیس کانسٹیبل کسی پولیس مقابلہ میں معمولی ذخمی ہوا تھا۔ بس اسی کا میڈیکل سرٹیفکیٹ کئی اورمقدمات میں بھی پیش ہوا تھا۔ آج لاھور ہائی کورٹ کے جج نے پوچھا کہ مہر ستار نے جب سات فٹ کے فاصلہ سے گولی چلائی تو کیا گولی آر پار نہ ہوئی۔ اس پر سرکاری وکیل کی آئیں بائیں شائیں۔ اور پھر سزا کے خلاف اپیل منظور کر لی گئی۔ مہر عبدالستار پر درج مقدمات میں ان پر جو الزامات لگائے گئے ان میں قتل، اقدام قتل، بھتہ خوری، غیر قانونی اجتماعات اوردیگر شامل تھے۔ ان تمام مقدمات کو بنیادی طور پر اس لئے ان کے خلاف درج کیا گیا کہ وہ اوکاڑہ اور دیگر اضلاع میں سرکاری فارموں پر کام کرنے والے مزارعین کے مالکانہ حقوق کی جدوجہد کر رھے تھے۔ ان فارموں میں ملٹری فارمز اوکاڑہ بھی شامل ہیں۔ مالکانہ حقوق کی یہ غیر معمولی جدوجہد ان کا حقیقی جرم تھا۔

مہر عبدالستار بلا شک و شبہ اس وقت پنجاب کے وہ سیاسی قیدی تھے جن کی رھائی کا مطالبہ دنیا بھر کے علاوہ پاکستان کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھر پور انداز میں کیا۔ پاکستان کے آئنیی ادارہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے ان کی گرفتاری کے بعد اوکاڑہ وزٹ کیا اور اس کے بعد جو رپورٹ جاری کی وہ واضع طور پر ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کو رد کرتی ہے اور اس نے تجویز کیا تھا کہ تمام مزارعین راھنماؤں کورھا کر کے ان سےمزاکرات کے زریعے مسئلہ کو حل کیا جائے۔

مہر عبدالستار کی باعزت رھائی نے پولیس اور ریاستی اداروں کی ان کوششوں کو ناکام بنا دیا جو وہ اس تحریک کو دبانے کے لئے استعمال کر رھے تھے۔ ہمارا آج بھی مطالبہ ہے کہ تمام سرکاری زرعی فارموں کی زمینوں کو وھاں کاشت کرنے والے مزارعین کے نام کیا جائے۔

جھوٹے مقدمات سے مزارعین کو زمینوں کی ملکیت کے مطالبہ سے دستبردار نہیں کرایا جا سکتا ۔ مزارعوں کو بے دخل کرنا ممکن نہیں، زمینیں وہ خالی نہیں کریں گے یہ ان کا قانونی حق ہے۔ مزارعیت کے قوانین کے تحت مزارعوں سے زمین خالی نہیں کرائی جا سکتی۔ پنجاب حکومت اس مسئلہ کے حل کے لئے جھوٹے مقدمات واپس لے۔ مزارعوں کو باعزت بری کرے اور ان سے مزاکرات کرے۔ اور نوآبادیاتی دور کی اس نشانی سے جلد از جان چھڑائے اور زمینیں مزارعوں کے نام کرے۔