انجمن مزارعین خانیوال 111 سال سے زمین کے ملکیتی حقوق کی منتظر ہے

خانیوال کے مضافات میں واقع پیرووال کا علاقہ غیر آباد تھا جسے مقامی و غیر مقامی لوگوں نے آباد کرنا شروع کیا۔ آبادکاری کے وقت یہ زمینیں کسی کے نام نہیں تھیں لیکن برطانوی حکومت نے 1912 میں مقامی آباد کاروں سے کہا کہ اگر وہ اس زمین پر باقاعدہ کاشت کاری شروع کریں تو 15 سال بعد یہ زمینیں ان کے نام کر دی جائیں گی۔

انجمن مزارعین خانیوال 111 سال سے زمین کے ملکیتی حقوق کی منتظر ہے

1880 میں پیرووال کی غیر آباد زمینوں کو مزارعین نے آباد کیا جن سے یہ معاہدہ کیا گیا کہ 15 سال زمین کاشت کرنے کے بعد زمین انہی کی ملکیت ہو گی لیکن 111 سال گزر جانے اور تحریکی سرگرمیوں کے باجود یہ وعدہ وفا نہیں ہوا۔

اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کی یہ داستان مغل بادشاہ اکبر کے دور سے جاری ہے جب پنڈی بھٹیاں کے دُلا بھٹی نے مغل بادشاہ کی جانب سے ناجائز تاوان اور ریاستی مظالم کے خلاف عملی اقدام کئے جبکہ خواتین نے بھی ان کا باقاعدہ ساتھ دیا جس میں دُلا بھٹی کی والدہ مائی لاڈھی کا کردار قابل ذکر ہے۔ جس کے بعد یہ سلسلہ برطانوی دور حکومت میں بھی جاری رہا، جس میں 1939 میں نہری پانی کا بائیکاٹ قابل ذکر ہے۔

چک نمبر 83 دس آر خانیوال کے رہائشی راؤ تصور بتاتے ہیں ان کے زیر کاشت رقبہ ان کو قیام پاکستان سے قبل کاشت کے لئے الاٹ ہوا تھا۔ راؤ تصور کے مطابق ان کے والد بتاتے تھے کہ پنجاب سیڈ کارپوریشن کے زیر اثر ان کی محنت اور فصل کا خوب استحصال ہوتا تھا۔ اگر ہماری فصل پر اخراجات مارکیٹ ریٹ کے مطابق 80 ہزار کے لگ بھگ ہوتے تھے تو کاغذات میں وہ اخراجات ڈیڑھ لاکھ سے زائد دکھائے تھے۔ ان مالی بے ضابطگیوں کے باعث کاشت کار کو اخراجات اور پنجاب سیڈ کارپوریشن کا حصہ دینے کے بعد چھ ماہی فصل پر 20 سے 30 ہزار بچتا تھا۔

خانیوال کے مضافات میں واقع پیرووال کا علاقہ غیر آباد تھا جسے مقامی و غیر مقامی لوگوں نے آباد کرنا شروع کیا۔ آبادکاری کے وقت یہ زمینیں کسی کے نام نہیں تھیں لیکن برطانوی حکومت نے 1912 میں مقامی آباد کاروں سے کہا کہ اگر وہ اس زمین پر باقاعدہ کاشت کاری شروع کریں تو 15 سال بعد یہ زمینیں ان کے نام کر دی جائیں گی۔

امتیاز علی اسد ہفت روزہ شب و روز کے ایڈیٹر ہیں اور مقامی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ انجمن مزارعین کی تاریخ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ برطانوی حکومت نے 1900 کے اوائل میں برصغیر کی ایک لاکھ 60 ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین فوج اور مزارعین کو کاشت کاری کے لئے دی تھی جس میں سے 68 ہزار ایکڑ زمین موجودہ پنجاب میں سے تھی۔ جبکہ خانیوال کے مزارعین کے پاس 6269 ایکڑ زمین زیر کاشت ہے۔

1920 میں یہ زمینیں برٹش کاٹن گروور ایسوسی ایشن (بی سی جی اے) نے برطانوی حکومت سے 100 سال کے لئے حاصل کیں۔ ابتدائی طور پر 20 سال کے لئے لیز پر حاصل کر لیں پھر اس لیز کی 1941 اور 1961 میں توسیع بھی کی گئی۔ جبکہ مزارعین کو تاوان کے عوض کام کرنے کی اجازت دے دی۔

بی سی جی اے کے ساتھ مزارعین کا یہ معاہدہ ہوا کہ تمام اخراجات ادارہ برداشت کرے گا جبکہ اخراجات نکالنے کے بعد منافع دونوں فریقین کے مابین برابر تقسیم ہو گا۔ 

1947 میں پاکستان وجود میں آ گیا۔ ملک کے قیام کے ساتھ ہی انہی مزارعین نے اپنے حقوق کی آواز بلند کی لیکن 59-1958 اور 1962-63 میں زرعی اصلاحات ہو گئیں۔

1973 میں پاکستان کے نئے آئین کی منظوری کے بعد 1973 میں سب سے زیادہ جامع اور اہم زرعی اصلاحات کی گئیں۔ 1972 کے لینڈ ریفارمز آرڈیننس کا مقصد ملکیتی زمین کی حد مقرر کرنا، بے زمین کسانوں میں زمین کی دوبارہ تقسیم، اور مزارعین/ کسانوں کو مالکانہ حقوق فراہم کر کے جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنا تھا تا کہ دیہی علاقوں میں سماجی و اقتصادی عدم مساوات کو دور کیا جا سکے۔

بھٹو دور میں نجی ادارے قومیائے جانے کے بعد 1976 میں خانیوال میں پنجاب سیڈ کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا جس کا دائرہ کار 81 دس آر، 82 دس آر، 86 دس آر اور 87 دس آر تک محدود تھا۔ بعدازاں 1983 میں دیگر تین چکوک 83 دس آر، 85 دس آر اور 75 دس آر بھی اس کارپوریشن کے زیر اثر آ گئے۔

مقامی مزارعین کو اس شرط پر زمین کی کاشت کاری کی اجازت دی گئی کہ سیڈ کارپوریشن سے ہی بیج و ادویات لے کر فصل کاشت کی جائے گی اور انہیں ہی فروخت کر دی جائے گی جبکہ اخراجات سیڈ کارپوریشن برداشت کرے گی۔ فصل پکنے پر سیڈ کارپوریشن ہی اسے خریدے گی جبکہ منافع کا 60 فیصد مزارعین کو اور 40 فیصد سیڈ کارپوریشن کو ملے گا۔

1990 میں مقامی مزارعین نے فیڈرل لینڈ کمیشن اسلام آباد میں کاشت الاٹمںٹ کا کیس دائر کیا۔ کمیشن نے اسی سال مزارعین کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ زمین کی کاشت الاٹمںٹ انہی مزارعین کے نام بحال رکھی جائے جو اس کو پہلے سے کاشت کر رہے ہیں۔

انجمن مزارعین کی جانب سے فوری عمل درآمد کی درخواست کے باوجود خانیوال ضلعی انتظامیہ نے 19 دن اس لیٹر پر کوئی کارروائی نہیں کی اور بالآخر سیڈ کارپوریشن نے اس فیصلے پر سٹے لے لیا۔ 1992 میں کیس کا فیصلہ مزارعین کے خلاف آ گیا۔

1998 میں حالات اس وقت بگڑے جب مزارعین کو اپنے حقوق سے دستبردار ہونے اور پٹے دار کی حیثیت سے کام کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

انجمن مزارعین نے سیڈ کارپوریشن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ کارپوریشن سے بیج لیں گے اور نا ہی انہیں اپنی فصل دیں گے، وہ اپنے معاملات براہ راست صوبائی حکومت کے ساتھ نمٹائیں گے جس میں بالآخر انجمن مزارعین کامیاب بھی ٹھہری۔

زمینی حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے مزارعین نے خانیوال میں 2001 میں انجمن مزارعین تشکیل دی اور حکومت کے سامنے مطالبہ رکھا کہ فی مزارعہ ساڑھے 12 ایکڑ زمین جو وہ کئی دہائیوں سے کاشت کر رہے ہیں، حکومتی وعدوں اور عدالتی فیصلوں کے مطابق ان کے نام کی جائے۔

تحریک میں خواتین کی نمائندگی کے لئے سرداراں مائی کو شامل کیا گیا اور انہیں تحریکی کارکنان کی حفاظت کے لیے ڈنڈا بردار فورس کا سربراہ بنایا گیا۔

خواتین کی یہ تنظیم کسی بھی مظاہرے میں مرد شرکا کو پولیس کے تشدد اور گرفتاری سے بچاتی تھی بلکہ پولیس کے ناجائز تشدد کا جواب بھی دیتی تھی۔

سرداراں مائی نے اپنی عمر کے 71 سال اسی گاؤں میں گزار دیے ہیں جبکہ مزارعین کی 6 نسلیں انہی زمینوں کو آباد کرنے میں دنیا چھوڑ کر جا چکی ہیں اور 509 مزارعے خاندان انہی زمینوں کے بل بوتے پر اپنا خرچ چلا رہے ہیں۔ اسی تگ و دو میں ان پر 8 اور صدر انجمن مزارعین پر 56 پرچے کروائے گئے لیکن انہوں نے ابھی تک حوصلہ نہیں چھوڑا ہے۔

انجمن مزارعین کے مسلسل احتجاج کے باعث پنجاب حکومت نے 2007 میں وزیر زراعت میاں منظور وٹو کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں سابق ایم پی اے ظہور خان ڈاہا اور ہراج برادری کے سیاست دان بھی شامل تھے جس نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام خاندانوں کو 10، 10 ایکڑ زمین الاٹ کی جائے جسے انجمن نے ماننے سے انکار کر دیا اور مطالبہ رکھا کہ جس خاندان کے پاس جتنی زمین ہے اسے اتنی ہی زمین الاٹ کی جائے۔ یہ مذاکرات ناکام ہو گئے۔

23 مارچ 2008 کو انجمن مزارعین نے پیرووال کا ہائی وے اور ریلوے ٹریک دھرنا دے کر بند کر دیا تھا تب 83 اور 85 فارم کا علاقہ میدان جنگ بنا ہوا تھا۔ اس وقت پولیس نے خواتین کی بے حرمتی کی، پولیس اہلکاروں نے گریبانوں میں ہاتھ ڈال کر انہیں سڑکوں پر گھسیٹا، حتی کہ 82 دس آر کے رضا تھہیم کو براہ راست گولی مار کر قتل کر دیا گیا جبکہ 12 سال کے ایک بچے جہانزیب کی ٹانگ میں گولی ماری گئی۔ مظاہرین کے چکوک میں جا کر ان کی ذاتی املاک، گاڑیاں اور ٹریکٹر جلا دیے گئے تاکہ تحریک کو کچلا جائے لیکن ایسا ممکن نہیں ہوا۔ جبکہ انجمن مزارعین کی تحریک کو اوکاڑہ میں بھی کچلنے کی ریاستی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔

2010 میں انجمن مزارعین نے لانگ مارچ کا اعلان کیا جس پر بالآخر پنجاب حکومت نے محکمہ عشر و زکوٰۃ کے وزیر ملک ندیم کامران کی سربراہی میں مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی۔ مذاکرات میں ناکامی کے بعد 2014 میں پھر سے کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا سربراہ پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے منسٹر ملک ندیم کامران کو بنایا گیا جس میں تمام محکمہ جات کے سیکرٹریز اور انجمن مزارعین کے پانچ عہدیداران کو شامل کیا گیا لیکن 2018 تک یہ کمیٹی بھی کوئی حتمی فیصلہ نہ کر سکی۔

2018 میں نئی حکومت آئی اور وزیر برائے مینجمنٹ و پروفیشنل ڈویلپمنٹ حسین جہانیاں گردیزی کے ساتھ انجمن مزارعین کے عہدیداروں کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا لیکن وہ بھی ساڑھے تین سال کے دور حکومت میں کوئی بھی فیصلہ کرنے میں ناکام رہے۔

اس حوالے سے سابق صوبائی وزیر ملک ندیم کامران کا کہنا ہے کہ ان کی کمیٹی کوشش کے باوجود اس کیس کا فیصلہ نہیں کر سکی جس کی وجہ سبھی سٹیک ہولڈرز کا کسی ایک بات پر متفق نہ ہونا تھا جبکہ اس کیس میں قانونی پیچیدگیاں اتنی ہیں کہ ان کو سلجھانے کے لئے خاصا وقت درکار ہے۔

پنجاب سیڈ کارپوریشن خانیوال کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر فارمز محمد ذیشان بتاتے ہیں کہ کارپوریشن نے مزارعین کو بہت حوالوں سے سہولیات فراہم کی تھیں جن میں انتہائی معیاری و مفت بیج فراہمی، معیاری بیج کے حصول کے لئے مفت سپرے، ادھار پر کھاد کی فراہمی، بغیر فیول کے 30 ٹریکٹرز کی ہمہ وقت فراہمی اور بچوں کی شادی کے لئے بلا سود فنڈز کی فراہمی جیسی سہولیات شامل تھیں۔ ادارہ فصل پکنے پر فصل بھی خریدتا تھا جس کے باعث بیوپاری کے استحصال سے بھی بچت ہو جاتی تھی۔ جبکہ فصل کی مالیت لگانے کے بعد اخراجات نکالے جاتے تھے اور باقی رقم کا چیک مزارعین کو دے دیا جاتا تھا۔ انجمن مزارعین اب جن زمینوں کو کاشت کر رہی ہے، یہ زمینیں اور کاشتکار محکمہ زراعت سے پنجاب سیڈ کارپوریشن کو ٹرانسفر کئے گئے تھے جن سے ادارہ کام لے رہا تھا، جبکہ موجودہ صورت حال میں مزارعین کی حیثیت قابضین کی ہے کیونکہ وہ سرکار کو اس کاشت کی مد میں کسی قسم کا کوئی معاوضہ نہیں دے رہے ہیں۔

انجمن مزارعین کے ضلعی صدر مہر غلام عباس سیال کا کہنا ہے کہ پنجاب سیڈ کارپوریشن جو بھی سہولیات فراہم کرتی تھی وہ ہرگز مفت نہیں تھیں۔ ہر ایک سہولت کے پیسے ہماری فصل خرید کرتے وقت اس میں سے کاٹ لیے جاتے تھے، جس میں اکثر و بیش تر زیادہ کٹوتیاں کی جاتی تھیں۔ انجمن مزارعین پنجاب سیڈ کارپوریشن کے عملے کی کرپشن سے تنگ آ کر ہی اپنے حقوق کے لئے کھڑی ہوئی تھی۔ مہر غلام عباس بتاتے ہیں کہ 1998 میں ان کی سیڈ کارپوریشن عملے کے ساتھ ہونے والی لڑائی کی وجہ یہی واجبات بنے تھے جب انہیں گندم کی فصل کے اخراجات اور ادارے کا حصہ نکالنے کے بعد ساڑھے 12 ایکڑ کی فصل پر محض 13 ہزار روپے ملے تھے۔

پنجاب سیڈ کارپوریشن کے اکاؤئنٹس ڈیپارٹمنٹ کے عملے نے انجمن مزارعین کے تمام خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ مزارعین کو اپنے تئیں بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ جبکہ مزارعین کو 1990 کی دہائی میں اوسطاً 40 ہزار روہے فی فصل بچت ہوتی تھی، جبکہ مزارعین کو ضرورت کے مطابق گندم اور پیسے فی الفور فراہم کئے جاتے تھے جو فصل آنے پر کٹوتی میں شامل کر لئے جاتے تھے۔

ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نعمان یونس کی انجمن مزارعین کے کیس کے حوالے سے قانونی رائے یہ ہے کہ کوئی بھی سرکاری زمین کسی بھی شخص یا انجمن مزارعین کو تب تک الاٹ نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس حوالے سے پنجاب حکومت باقاعدہ کوئی نوٹیفکیشن جاری نہ کر دے اور چونکہ انجمن مزارعین کو جب یہ زمینین کاشت کے لئے الاٹ کی گئی تھیں تب بھی انہیں صرف زبانی کلامی زمین الاٹ کرنے کا کہا گیا تھا تو یہ ممکن نہیں ہے کہ انجمن مزارعین کو یہ زمین ان کے نام ٹرانسفر کر دی جائے۔

حقوق خلق پارٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے بتایا کہ برطانوی دور حکومت کی کئی داستانیں ہیں جن میں مقامی لوگوں سے دھوکہ دہی کی گئی جبکہ یہ زمین سماجی و اخلاقی اعتبار سے مزارعین کا حق ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ انجمن مزارعین تحریک اپنا حق لینے میں کافی حد تک کامیاب ہو چکی ہے کیونکہ 100 سالہ کاشت کے بعد اب مزارعین کسی قسم کا تاوان نہیں دے رہے ہیں اور گذشتہ دو دہائیوں میں کسی بھی حکومت نے تاوان وصولی کے لئے عدالت سے رجوع نہیں کیا بلکہ ان مزارعین کے ساتھ بھرپور زیادتی کی۔

ہمسایہ ملک ہندوستان میں مودی حکومت نے کارپوریٹ فارمنگ کے حق میں قوانین پاس کئے، جس کے خلاف کسانوں نے ٹریکٹر مارچ کیا اور وہ قوانین ختم کروانے میں کامیاب رہے۔ جبکہ ہمارے مقامی کسانوں کی مختلف تنظیموں کی جدوجہد کے باعث بھٹو دور میں زرعی اصلاحات ممکن ہوئیں۔

مقامی و ملکی سطح کے سبھی سیاست دان ملک بھر کے مزارعین کے اس مسئلے سے بخوبی واقف ہیں لیکن تقریباً ہر حکومت میں ہی انجمن مزارعین مختلف مسائل کا شکار رہی ہے لیکن کوئی بھی سیاسی جماعت اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔

انجمن مزارعین ایک نہ ختم ہونے والی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے جس کے لیے ان چکوک کے عوام نے لامحدود جنگ لڑی ہے اور وہ مقصد کے حصول تک جاری رہے گی۔ حکومت کے کسی بھی مؤقف سے بالاتر ہو کر مزارعین کو یہی زمین چاہئیے جہاں وہ موجود ہیں کیونکہ وہ اس زمین کو اپنا حق مانتے ہیں اور اسی وعدے کی تکمیل چاہتے ہیں جو ان سے کیا گیا تھا۔

فیصل سلیم میڈیا سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور مختلف نیوز ویب سائٹس کے لیے لکھتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں سماجی مسائل اور دلچسپ حقائق شامل ہیں۔