Get Alerts

گلگت بلتستان کو نئی لینڈ ریفارمز کی اشد ضرورت ہے

گلگت بلتستان میں زمین کی آباد کاری کا آغاز 1887 میں بلتستان میں ہوا۔ کاشت کاروں کو زمین کی ملکیت دی گئی جبکہ مقامی راجے اب بھی زیادہ تر زمین کو جاگیر کے طور پر رکھتے ہیں۔ باقی بنجر زمینیں، چراگاہیں اور پہاڑ ڈوگرہ حکومت کی ملکیت قرار دے کر انہیں خالصہ سرکار کی زمین کہا گیا۔

گلگت بلتستان کو نئی لینڈ ریفارمز کی اشد ضرورت ہے

18 ویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے لاہور میں سکھ سلطنت قائم کی جسے خالصہ سرکار (سکھ حکومت) کہا جاتا تھا۔ پھر جموں و کشمیر سے ہوتے ہوئے 19 ویں صدی میں گلاب سنگھ کی فتح کے ذریعے سلطنت لداخ اور گلگت بلتستان تک پھیل گئی۔ اس دوران تمام تر مقبوضہ زمین خالصہ سرکار کی زمین کہلاتی تھی۔ اینگلو سکھ جنگ کے بعد 1846 میں برطانوی حکومت نے امرتسر کے معاہدے کی شرائط کے تحت جموں و کشمیر کو 7.5 ملین نانک شاہی روپے میں گلاب سنگھ کو فروخت کر دیا۔ گلاب سنگھ جموں و کشمیر کے پہلے مہاراجہ بنے۔ ڈوگروں نے شروع میں کاشت کاروں کو زمین کی ملکیت نہیں دی۔ بعد میں زرعی ٹیکس مالیہ کی وصولی کے لیے تمام قابل کاشت اور بنجر زمینوں کو زمینی تصفیہ کے ذریعے ریکارڈ کیا گیا۔ ڈوگروں نے نسل در نسل لوگوں کی کاشت کردہ موروثی زمینوں کو ملکیت دی۔ لیکن پہاڑوں، صحراؤں اور بنجر زمینوں کی مشترکہ چراگاہوں کو خالصہ سرکار کی زمین سمجھا جاتا تھا۔

مناسب تعریف کے لیے آزاد جموں کے سیکشن 2 (v) اور کشمیر ریگولرائزیشن اینڈ گرانٹ آف خالصہ لینڈ ایکٹ، 1974 کے مطابق خالصہ زمین میں حد بندی شدہ جنگل شامل نہیں ہے اور ایسی دوسری زمینیں جن کی ضرورت ہے گاؤں کے مشترکہ مقاصد کے لیے وہ شامل نہیں۔

بات کی جائے گلگت بلتستان میں زمین کی آباد کاری کی تو اس کا آغاز 1887 میں بلتستان میں ہوا۔ کاشت کاروں کو زمین کی ملکیت دی گئی جبکہ مقامی راجے اب بھی زیادہ تر زمین کو جاگیر کے طور پر رکھتے ہیں۔ باقی بنجر زمینیں، چراگاہیں اور پہاڑ ڈوگرہ حکومت کی ملکیت قرار دے کر انہیں خالصہ سرکار کی زمین کہا گیا۔

گلگت ایجنسی میں زمین کی دوسری آبادکاری 1906 سے 1917 میں ہوئی۔ زمین کا تصفیہ پنیال، غذر، اشکومان اور یاسین میں نہیں ہوا۔ پنیال، غذر اور اشکومان کے اضلاع مقامی راجوں کی جاگیر تھے۔ ہنزہ اور نگر میروں کی جاگیریں تھیں۔ بلتستان اور گلگت ایجنسی کے برعکس، میروں اور راجاؤں نے ان علاقوں کی زمینوں کو بغیر کسی زمینی تصفیے کے اپنی جاگیر کے طور پر اپنے پاس رکھا۔

اب بات کی جائے Nautore کے قوانین کی۔ 1936 میں ڈوگرہ حکومت نے ناٹور راج متعارف کرایا۔ 1942 میں گلگت سب ڈویژن رول متعارف کرایا گیا۔ آزادی کے بعد بلتستان ایجنسی میں 1965-66 میں بلتستان ناٹور رولز متعارف کرائے گئے۔ 1978-80 میں ناردرن ایریاز ناٹور رولز متعارف کرائے گئے اور پورے گلگت بلتستان بشمول دیامر، گلگت، ہنزہ، نگر، غذر اور بلتستان تک توسیع دی گئی۔ اس قاعدے کے تحت خالصہ اراضی الاٹمنٹ رولز بنائے گئے تھے۔ حکومت پاکستان نے 1986 میں ناٹور رولز کے تحت زمینوں کی الاٹمنٹ بند کر دی تھی۔ فی الحال گلگت بلتستان میں ناٹور اصول کے تحت خالصہ اراضی کی الاٹمنٹ پر پابندی ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ جی بی میں آخری زمینی اصلاحات 1940 میں ہوئی تھیں۔ نئی لینڈ ریفارمز کی جی بی کو اشد ضرورت ہے جس کو جلد از جلد شروع کرنا چاہیے۔

اب بات کی جائے مقبوضہ جموں کشمیر میں خالصہ سرکار زمینوں کی تو حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ریاستی اراضی بشمول خالصہ سرکار، حکومت نے مختلف عوامی مقاصد جیسے سڑکوں، بشمول نیشنل ہائی ویز، ریلوے، سکولوں کے لیے 2359.45 ہیکٹر رقبہ حاصل کیا ہے۔ ان ہی زمینوں پر مقبوضہ کشمیر سرکار کالجز، کھیل کے میدان، پارکس، عمارتیں، مٹی کے فضلے کا انتظام، بارڈر پر باڑ لگانا/ بارڈر آؤٹ پوسٹس، انڈسٹریل اسٹیٹس وغیرہ بھی قائم کرے گی۔

روشنی ایکٹ 2001 کے تحت 8565.40 ہیکٹر کی کل مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اراضی افراد، اداروں اور کاروباری افراد کو منتقل کی گئی۔ اب گلگت بلتستان کے عوام کو ہوش کے ناخن لے کر اس طرح کے کسی بھی ایکٹ کے جی بی میں نفاذ کو ناکام بنانا ہے۔ ابھی تو گلگت بلتستان میں ناٹور اصول کے تحت خالصہ اراضی کی الاٹمنٹ پر پابندی ہے۔ اس پر سختی سے عمل پیرا ہونے اور نئی کسی بھی ریفارم میں عوام کی رائے کو مقدم رکھنے کے لیے عوامی نمائندوں کو سخت قوانین جو جی بی کے عوام کے حق میں بہتر ہوں، بنانے چاہئیں۔

قانون کا طالب علم ہونے کے ناطے جموں و کشمیر کے معزز ہائی کورٹ کے 09.10.2020 کے فیصلے کا حوالہ بھی دوں۔ اس فیصلے کی تعمیل میں ڈویژنل کمشنر کشمیر اور ڈویژنل کمشنر جموں نے فائدہ اٹھانے والوں/ تجاوزات کرنے والوں کی تفصیلات اپنی سرکاری ویب سائٹس پر اپ لوڈ کر دی ہیں۔ مذکورہ ایکٹ کے تحت مستفید ہونے والوں کے حق میں تصدیق شدہ تغیرات کو منسوخ کر دیا گیا ہے اور ریونیو ریکارڈ میں اندراجات کو خارج کر دیا گیا ہے۔ 1363.95 ہیکٹر زمین کو دوبارہ حاصل کیا گیا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی جانب سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں 70 سے زیادہ نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر نے مذکورہ حکم کے خلاف جموں و کشمیر کی معزز ہائی کورٹ میں نظرثانی کی درخواست بھی دائر کی ہے اور یہ معاملہ زیر سماعت 9 اکتوبر 2020 کو، جموں کے مطالبات کے بعد، مقبوضہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے روشنی قانون اور شروع سے اب تک کی گئی تمام الاٹمنٹس کو 'کالعدم' اور 'غیر آئینی' قرار دیا۔

ریاستی حکومت نے کہا ہے کہ وہ اس سکیم کے تحت تقسیم کی گئی زمین کو چھ ماہ میں واپس لے لے گی۔ اس سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی تمام شناختیں عام کی جائیں گی۔ 22 اکتوبر 2020 کو مقبوضہ جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری کی انتظامیہ نے اس قانون سے فائدہ اٹھانے والے وزرا، قانون سازوں، بیوروکریٹس، پولیس افسران، سرکاری ملازمین، تاجروں، دیگر بااثر افراد اور ان کے رشتہ داروں کی جامع تفصیلات جمع کرانے کا حکم بھی دیا۔

خلیق زیب فارمن کرسچیئن کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہیں اور اب قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔