Get Alerts

گلگت بلتستان؛ خالصہ سرکار کے قوانین کے تحت ملکیتی زمینوں پر حکومتی قبضہ جاری

گلگت بلتستان؛ خالصہ سرکار کے قوانین کے تحت ملکیتی زمینوں پر حکومتی قبضہ جاری
گوہری کھرمنگ کے مکین سید مبارک نے ہمیں بتایا کہ 23 اور 24 اکتوبر 2022 کی درمیانی شب کھرمنگ کے ہیڈ کوارٹر گوہری میں اپنی ملکیتی زمین کی حفاظت پر معمور نہتے لوگوں پر پولیس نے شیلنگ کی اور وہاں موجود نوجوانوں پر تشدد کیا۔ اس کے بعد 13 جوانوں اور بزرگوں کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ قائم کیا۔ ان کے مطابق ضلعی انتظامیہ خالصہ سرکار کے نام پر ہماری زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ گوہری میدان ہماری ملکیتی اور قدیمی چراگاہ ہے اور حکومت کو اس پر ہرگز قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔ پہلے ہی ہماری زمینوں ہر قبضہ کر کے اس پر ڈپٹی کمشنر آفس اور رہائش گاہ سمیت کئی سرکاری عمارات تعمیر کی جا چکی ہیں اور اب باقی ماندہ زمین بھی ہڑپنا چاہ رہی ہے۔

پولیس کے مطابق گوہری کے عوام نے سرکاری زمین پر باڑ لگا کر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی نزدیک موجود ڈپٹی کمشنر آفس پر پتھراؤ کیا جس سے گیٹ کے ساتھ ہی موجود سکیورٹی اہلکار کے کمرے کے شیشے ٹوٹ گئے اور پولیس کی گاڑی کو بھی پتھر لگا جس پر پولیس نے کارروائی کر کے 13 افراد کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ درج کیا۔ گرفتار افراد بعد میں مقامی عدالت سے ضمانت پر رہا ہو گئے۔ اسی طرح 2019 میں بھی گوہری کے عوام اور پولیس آمنے سامنے آ گئے تھے اور اس وقت بھی گرفتاریاں ہوئی تھیں۔

دوسری جانب 5 جنوری 2023 کو گلگت کے علاقہ مناور میں ضلعی انتظامیہ نے پولیس، ایف سی اور گلگت بلتستان سکاوٹس کی مدد سے زیر تعمیر مکانات گرا دیے اور وہاں موجود لوگوں کے ساتھ شدید جھڑپ بھی ہوئی۔ اس دوران سکیورٹی اہلکاروں نے ہوائی فائرنگ اور شیلنگ شروع کر دی۔ اسسٹنٹ کمشنر گلگت کیپٹن ریٹائرڈ اریب احمد مختار کے مطابق مناور میں حکومتی زمینوں پر تعمیرات کی اطلاع ملتے ہی ڈپٹی کمشنر گلگت کے حکم پر کارروائی شروع کی اور وہاں پر زیر تعمیر عمارتوں کو گرا دیا گیا۔ جبکہ مناور کے لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ زمینیں عوام کی ملکیتی ہیں۔ حکومت خالصہ سرکار کی آڑ میں زمینیں چھیننے کے درپے ہے جو ہم ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔ ادھر سکردو چھومک میں بھی ضلعی انتظامیہ اور مقامی لوگوں کے درمیان 3 سال تک تنازعہ جاری رہا۔ اسی طرح 2015 میں مقپون داس میں بھی راتوں رات سینکڑوں زیر تعمیر عمارتیں گرا دی گئی تھیں۔

اسی طرح گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں خالصہ سرکار کے نام پر عوام اور پولیس کے درمیان جھڑپ معمول بن چکا ہے۔ پولیس کے مطابق صرف جنوری میں پولیس اور عوام میں جھڑپ کی وجہ سے پانچ لوگوں پر مقدمات بنائے گئے۔ ان میں سے دو مقدمات انسداد دہشتگری ایکٹ کے تحت درج ہوئے۔

عوامی ایکشن کمیٹی کے صدر نجف علی نے ہمیں بتایا کہ گلگت بلتستان میں چار اقسام کی زمینیں پائی جاتی ہیں جن میں ملکیتی اراضی، شاملات، دیہ حریم اور چراگاہ شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام خالصہ سرکار کے خلاف ہیں کیونکہ گلگت بلتستان متنازعہ خطہ ہے اور متنازعہ خطے میں کوئی سرکاری زمین نہیں ہوتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ خالصہ سرکار کے نام پر حکومت گلگت بلتستان کے عوام سے ان ملکیتی زمینوں کو ہتھیانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ریاست یہاں کے عوام پر مظالم ڈھانا بند کرے۔

خالصہ سرکار کیا ہے؟

گلگت بلتستان اویئرنس فورم کے رہنما انجینیئر شبیر حسین کے مطابق خالصہ سرکار اٹھارھویں صدی میں لاہور میں قائم ہونے والی مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت کو کہا جاتا ہے۔ 19 ویں صدی میں ان کی حکومت گورنر گلاب سنگھ کی قیادت میں جموں کشمیر اور بعد ازاں لداخ اور گلگت بلتستان تک پھیل گئی۔ حکومت قائم ہوتے ہی تمام زیر کاشت اراضی کو بندوبستی کاغذات میں درج کر لیا گیا۔ لوگوں کی زمینوں کا تعین کیا گیا پھر ان کی طرف سے فرمان جاری ہوا کہ لاہور سے لے کر گلگت تک جہاں بھی قطعہ زمین، پہاڑ، ریگستان اور گاؤں والوں کی مشترکہ چراگاہیں ہیں جو بندوبستی کاغذات میں کسی خاص شخص کے نام پر نہیں ہیں وہ لاہور کی سکھ سرکار یعنی خالصہ سرکار کی ملکیت تصور کی جائیں گی۔ خالصہ سرکار کا بنایا ہوا قانون آج بھی کشمیر، کارگل، لداخ اور آزاد کشمیر میں نافذ ہے۔

سینیئر صحافی فہیم اختر کے مطابق گلگت بلتستان میں زمینی تنازعات اور ان کے نتیجے میں جنم لینے والے دیگر تنازعات کی ایک بڑی وجہ سٹیٹ سبجیکٹ رول کا خاتمہ ہے۔ یہ قانون جموں کشمیر کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927 میں لاگو کیا تھا۔ اس کے تحت ریاست جموں و کشمیر جس میں گلگت بلتستان کے تمام علاقے بھی شامل تھے، میں غیر ریاستی باشندوں کو زمیں خریدنے اور مستقل سکونت اختیار کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ قانون آزاد کشمیر میں اب بھی قائم ہے لیکن گلگت بلتستان میں 1974 میں معطل کر دیا گیا تھا۔ سٹیٹ سبجیکٹ رول کے خاتمے کے ساتھ گلگت بلتستان میں زمینوں کی بندر بانٹ شروع ہو گئی۔

عوامی ایکشن کمیٹی کے ایک عہدیدار کے مطابق خالصہ سرکار کی آڑ میں گلگت بلتستان کے باہر سے آنے والے سول، عسکری و انتظامی افسروں کو زمینیں الاٹ کی جا رہی ہیں جس پر یہ غیر مقامی افراد ہوٹل اور گیسٹ ہاؤسز بنا رہے ہیں۔

خالصہ سرکار کے خلاف احتجاج

ویسے تو آئے روز گلگت بلتستان میں خالصہ سرکار کے خلاف کہیں نا کہیں احتجاج ہوتا رہتا ہے لیکن پچھلے سال دسمبر کے اواخر میں عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان اور انجمن تاجران نے سکردو میں احتجاج کا سلسلہ شروع کیا۔ 9 روز تک جاری رہنے والے اس احتجاج میں شدید سردی کے باجود بھی روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوتے رہے۔ مظاہرین حکومت مخالف نعرے بازی اور خالصہ سرکار کے نام پہ عوامی ملکیتی زمینوں پر قبضہ بند کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

ملکیتی زمینوں پر سرکاری قبضے کے خلاف مقامی لوگ احتجاج کر رہے ہیں


احتجاج سے خطاب میں مقررین کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں ایک ایک انچ زمین کی حفاظت کریں گے اور حکومت کو غریب عوام کی ملکیتی زمینوں پر قابض ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔ گلگت بلتستان متنازعہ خطہ ہے اور متنازعہ خطے میں کوئی سرکاری زمین نہیں ہوتی۔ خالصہ سرکار کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان کے خلاف مقدمات بنائے جاتے ہیں۔

لینڈ ریفارمز کمیٹی کا قیام

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے اپنی چیئرمین شپ میں 12 دسمبر 2022 کو وزیر قانون سید سہیل عباس، ڈپٹی سپیکر نذیر احمد ایڈووکیٹ اور دیگر شخصیات پر مشتمل لینڈ ریفارمز کمیٹی تشکیل دی تھی اس کے بعد دسمبر کے اواخر میں احتجاج شروع ہوا۔ احتجاج کے 9 ویں روز 5 جنوری کو وزیر اعلیٰ اور دھرنا قائدین کے درمیان گلگت میں مذاکرات کامیاب ہو گئے۔

وزیر اعلیٰ نے خالصہ سرکار کا نام تبدیل کر کے گورنمنٹ لینڈ پکارنے کا اعلان بھی کیا۔ لینڈ ریفارمز کمیٹی 2018 میں سابق وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمٰن کے دور میں بھی بنی تھی لیکن ان کی حکومت کے ساتھ کمیٹی بھی کسی بڑے فیصلے کے بغیر ختم ہو گئی تھی۔ 26 جنوری 2023 کو وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید کی صدارت میں لینڈ ریفارمز کمیٹی کا اہم مشاورتی اجلاس ہوا۔ وزیر اعلیٰ آفس کی طرف سے جاری پریس ریلیز کے مطابق اجلاس میں گلگت بلتستان میں لینڈ ریفارمز کے حوالے سے پیش رفت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں لینڈ ریفارمز کے حوالے سے تجربہ رکھنے والی نجی لاء فرم سے مشاورت بھی کی گئی۔

اس موقع پر وزیر اعلیٰ خالد خورشید نے کہا کہ گلگت بلتستان میں زمینوں کے مسئلے کے پائیدار و مستقل حل کے لئے جامع لینڈ ریفارمز ناگزیر ہیں۔ حکومت اس حوالے سے بھرپور طریقے سے کام کررہی ہے۔ بہترین لینڈ ریفارمز کر کے گلگت بلتستان کے عوام کو زمینوں کی ملکیت کا تحفہ دیں گے۔

اس سے پہلے سابق وزیر اعظم عمران خان نے سکردو میں 16 دسمبر 2021 کو جلسہ عام سے خطاب میں کہا تھا کہ گلگت بلتستان کے عوام اپنی زمینوں کو غیر مقامی افراد کو فروخت نا کریں۔ عمران خان کی اس نصیحت کو عملی شکل دینے کے لئے گلگت بلتستان کابینہ نے فیصلہ کیا کہ گلگت بلتستان کے ڈومیسائل ہولڈر کے بغیر کسی کو یہاں زمین خریدنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اس فیصلے کے بعد گلگت بلتستان کے دو اضلاع؛ گلگت اور غذر کی ضلعی انتظامیہ نے غیر مقامی افراد پر زمین کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کرتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کر دی تھی۔

انجمن تاجران کے مرکزی صدر غلام حسین اطہر جو کہ حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں پیش پیش تھے، نے ہمیں بتایا کہ مذاکرات میں حکومتی وفد نے یقین دلایا ہے کہ جب تک خالصہ سرکار قانون ختم نہیں ہوگا اور بل اسمبلی میں پیش نہیں ہوگا، تب تک زمینوں کی بندر بانٹ روکنے کے لئے ان زمینوں کو خالصہ سرکار کے بجائے صوبائی حکومت کی زمین کہا جائے گا۔ حکومتی زمین نام دینے کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعلیٰ خالد خوشرشید نے دوٹوک کہا کہ وہ لینڈ ریفارمز کے لئے اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی امجد ایڈووکیٹ اور سابق وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمٰن کے پاس بھی جائیں گے۔ امید ہے کہ وزیر اعلیٰ اس معاملے پر جلد آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے جس میں مشاورت کی جائے گی کہ علاقے کی زمینوں کو عوام میں کیسے تقسیم کر کے زمینوں کو مافیا سے بچایا جائے گا۔

یہاں کے عوام بھی چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں برسوں سے حل طلب خالصہ سرکار نظام ختم ہونا چاہئیے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ گلگت بلتستان کو مکمل آئینی صوبہ بنانے تک یہاں سٹیٹ سبجیکٹ رول کو دوبارہ بحال کیا جائے اور عوام کو اپنی زمینوں کے مکمل ملکیتی حقوق دیے جائیں۔ غیر مقامی افراد میں زمینوں کی بندر بانٹ کو روکا جانا چاہئیے۔ لوگوں نے حکومت کی طرف سے لینڈ ریفارمز کمیٹی تشکیل دیے جانے کو خوش آئند امر قرار دیا ہے اور امید کی ہے کہ وزیر اعلیٰ اب اس مسئلے کو جڑ سے ہی ختم کریں گے۔ مگر عوامی ایکشن کمیٹی کے عہدیداروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ کمیٹی بھی پچھلی کمیٹیوں کی طرح زمین کا مسئلہ حل کئے بغیر ہی دم توڑ دے گی۔

سرور حسین سکندر کا تعلق سکردو کے علاقے مہدی آباد سے ہے۔ وہ بین الاقوامی تعلقات میں ایم ایس سی کر چکے ہیں اور گزشتہ آٹھ سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ سرور مختلف سماجی مسائل سے متعلق تحقیقاتی رپورٹس تحریر کرتے رہتے ہیں۔