اوکاڑہ مزارعین اور ملٹری فارمز کی انتظامیہ میں معاہدہ … وہ نکات جو نظرانداز ہوئے

انگریزی کے مؤقر ہفت روزہ ’’فرائیڈے ٹائمز‘‘ میں حارث احمد کے شائع ہونے والے  مضمون کا اُردو ترجمہ قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے: 

پاکستان میں تبدیل ہوتے ہوئے سیاسی منظرنامے اور ہر منٹ ٹیلی ویژن پر چلنے والی بریکنگ نیوز کے باعث کچھ خبریں ایسی بھی ہوتی ہیں جو مکمل طور پر نظرانداز ہو جاتی ہیں جس کی ایک مثال قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی کوششوں سے طویل عرصہ سے اوکاڑہ ملٹری فارمز کی انتظامیہ اور انجمن مزارعین پنجاب میں جاری تنازع کے حل ہونے کی خبر بھی شامل ہے۔

یہ خبر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے لیے بہ ظاہر اس قابل نہیں تھی کہ بریکنگ نیوز بن پاتی۔ دونوں فریقوں کے درمیان کیا شرائط طے پائی ہیں؟ غالباً وہ شرائط یہ ہیں: مزارعین فصل میں سے سالانہ حصہ کی ادائیگی اسی طرح ادا کریں گے جیسا کہ وہ 2000ء سے قبل ادا کر رہے تھے تاہم گزشتہ 18 برسوں کے دوران انہوں نے فصلوں میں سے جو حصہ ادا نہیں کیا، وہ معاف کر دیا جائے گا، مزارعین کو ہراساں کیا جائے گا اور نہ ہی اس زمین سے بے دخل کیا جائے گا جس پر وہ گزشتہ کئی صدیوں سے کاشت کاری کر رہے ہیں۔

یہ بھِی پڑھیں: اوکاڑہ میں مزارعین کی جدوجہد اور مہر ستار کی رہائی، کیا اوکاڑہ ملٹری فارمز کا قضیہ ختم ہوا؟

تاہم قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے کچھ اہم معاملات پر توجہ نہیں دی جس کے باعث وہ اب بھی تصفیہ طلب ہیں جن میں زمین کی ملکیت کا معاملہ سرفہرست ہے جس کا وعدہ مزارعین سے نوآبادیاتی عہد سے کیا جا رہا ہے اور یہ وعدہ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران بارہا دہرایا بھی گیا ہے جس کے باعث مزارعین اس وقت تک پنجاب بورڈ آف ریونیو کے باہر احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جب تک انہیں زمین کی ملکیت نہیں دے دی جاتی کیوں کہ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو انہیں بہرصورت فارم کی نگرانی کرنے والے فوجی حکام کو فصل میں سے حصہ دینا ہے۔ یہ وہ اہم نکتہ ہے جس سے ان کے مستقل کا تعین ہونا ہے کہ وہ اس زمین کے حقیقی مالک ہیں یا نہیں لیکن یہ اب بھی غیر واضح ہے۔



برطانوی راج کے عہد میں پہلے پہل مزارعین کو زمین کی ملکیت دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جنہیں 19 ویں صدی کے اوآخر اور 20 ویں صدی کے شروع میں ٹھیکے داری سکیموں کے تحت ان زمینوں کو کاشت کرنے کی اجازت دی گئی تھی تاہم یہ وعدے کبھی وفا نہیں ہو سکے اور مزارعین فصلوں میں سے حصہ دینے پر مجبور رہے۔ ساتھ کی دہائی کے اوآخر میں ملک بھر میں چلنے والی کسانوں کی تحریکوں اور 1970ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد سرکاری زمینوں پر کاشت کاری کرنے والے مزارعین بھی زرعی اصلاحات کا مطالبہ کرنے لگے۔ اوکاڑہ میں ملٹری فارمز کے غیرمعمولی رقبے، جو 17 ہزار ایکڑ اور 20 دیہات پر مشتمل ہے، کے باعث ان فارمز پر کام کرنے والے مزارعین کا سیاسی شعور غیر معمولی رہا ہے اور انہوں نے مقامی سیاسی رہنمائوں کو زمین کی ملکیت کے لیے آواز بلند کرنے کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے مہمیز دی۔ انہی وجوہ کے باعث وہ فوجی و عسکری اشرافیہ کے قہر کا نشانہ بھی بنتے رہے ہیں جنہیں یا تو ان کا ووٹ چاہئے تھا یا دوسری صورت میں وہ اپنا اقتدار مضبوط کرنا چاہتے تھے۔



جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے جب اقتدار پر قبضہ کیا تو انہوں نے بھی ریفرنڈم میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان مزارعین کو زمین کی ملکیت دینے کا وعدہ کیا لیکن ووٹ حاصل کرنے کے بعد یہ وعدہ کبھی پورا نہیں ہوا۔ 2002ء کے عام انتخابات میں ان مزارعین نے رائو سکندر اقبال کو منتخب کیا جو اس وقت پیپلز پارٹی میں تھے اور جنہوں نے 10 لاکھ کسانوں کی نمائندہ تنظیم انجمن مزارعین پنجاب سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ کامیاب ہونے کے بعد انہیں زمین کی ملکیت دلائیں گے تاہم انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ اپنی ہی سیاسی جماعت سے الگ ہو گئے اور انہوں نے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے نام سے ایک الگ دھڑا بنا لیا، ان خدمات کے صلے میں مسلم لیگ ق کی حکومت میں انہیں وزارت دفاع کا قلم دان دیا گیا۔ ان کے دور میں انجمن مزارعین پنجاب کے خلاف ماضی کی نسبت زیادہ زور و شور سے کارروائی کی گئی۔ اسی بنا پر مزارعین کا ریاست پر سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ گیا کیوں کہ انہوں نے یہ محسوس کیا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے جو ان کی فوجی منتظمین کے خلاف شدید مزاحمت کی وجہ بھی بنا اور وہ ملکیت یا موت کا نعرہ بلند کرنے پر مجبور ہو گئے۔

ان زمینوں کی فوجی ملکیت خود میں ایک متنازعہ معاملہ ہے جس کا آغاز انڈیا کی تقسیم سے ہوا۔ 1913ء میں برطانوی راج نے برطانوی قانون کے تحت یہ زمین 20 برسوں کے لیے وزارت دفاع کو لیز پر دی۔ دستاویزات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس لیز میں مزید پانچ برسوں کے لیے 1938ء تک توسیع دے دی گئی۔ تقسیم کے بعد وزارت دفاع کے پاس لیز ہونے کے باعث اس زمین کی ملکیت فوج کو منتقل ہو گئی۔ لیکن آج کی تاریخ تک حکومت پنجاب کی جانب سے نہ ہی لیز میں توسیع کی گئی ہے اور نہ ہی حکومت پنجاب کو اس مد میں کوئی کرایہ ادا کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عاصمہ جہانگیر کی یادیں، قسط 1: عاصمہ جہانگیر اور اوکاڑہ مزارعین کی جدوجہد

اس کی تصدیق ستمبر 2001ء میں اس وقت ہوئی جب پنجاب بورڈ آف ریونیو نے اوکاڑہ فارمز کے اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر سے حکومت کو کرایے کی ادائیگی کا ثبوت فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ فارمز انتظامیہ ایسا کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکی۔ 31 دسمبر 2008ء کو اوکاڑہ ملٹری فارمز کے اس وقت کمانڈنٹ بریگیڈیئر رانا محمد فہیم نے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی جانب سے ہونے والی سماعت میں سرکاری طور پر یہ تسلیم کر کے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ اوکاڑہ ملٹری فارمز حکومت پنجاب کی ملکیت ہیں جن کا کنٹرول فوج نے اپنے مویشیوں اور گھوڑوں کے لیے چارے کی پیداوار کے لیے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔



ان وجوہ کے باعث ہی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فوج کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ مزارعین کے ساتھ 2000ء میں فصلوں میں سے حصہ لینے کا معاہدہ کرتی جس کے باعث یہ تنازع شروع ہوا جب کہ بہ ظاہر وہ اس زمین کی ملکیت ہی نہیں رکھتی؟ اگر معاملہ درحقیقت یہی ہے تو کیا مزارعین فوجی منتظمین کو فصل میں سے کچھ حصہ دینے کے پابند ہیں؟ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے اس سوال کو بھی مکمل طور پر نظرانداز کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ حکومت پنجاب فوج کے فصل میں سے حصہ لینے پر معترض نہیں ہے اور نہ ہی فوج سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ صوبائی حکومت کو بقایا جات ادا کرے، اس کے بجائے مزارعین سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ فصلوں میں سے حصہ ادا کریں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس تنازع کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی معاہدے میں کوئی انکوائری کروانے کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ان خلاف ورزیوں کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں جن میں قتل، تشدد، بھتہ خوری اور ’’زبردستی طلاق دلوانے‘‘ کی طرح کے معاملات بھی شامل ہیں۔

2000ء میں مزارعین نے جب فصل تقسیم کرنے کی نئی شرائط تسلیم کرنے سے انکار کیا اور احتجاج کے طور پر دھرنا دیا تو فوج نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔ مزارعین کے پرامن احتجاج کو کچلنے کے لیے ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ دیہاتوں کا پانی بند کر دیا گیا اور ان کا کئی روز تک محاصرہ جاری رہا۔ تمام فصلیں تباہ ہو گئیں، دیہاتیوں کو اس وقت تک خوراک اور ادویات کی رسد بند کر دی گئی جب تک انہوں نے نئی شرائط پر رضامندی ظاہر نہیں کر دی۔

ہیومن رائٹس واچ نے 2004ء میں اس حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی جس میں پاکستانی فوج، پنجاب پولیس اور پیراملٹری رینجرز کی جانب سے اوکاڑہ کے مزارعین، بچوں، خواتین اور ادھیڑعمر افراد کے ساتھ کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیل بیان کی گئی تھی۔ رپورٹ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ دار حکام کا ذکر بھی تھا، جن کے خلاف 15 برس گزرنے کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

ریاست نے مزارعین کی جدوجہد کو کچلنے کے لیے عدالتوں اور نوآبادیاتی عہد کے قوانین کا سہارا لیا۔ احتجاج کرنے والے مزارعین اور ان کے خاندانوں کے خلاف قتل سے لے کر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے، جیسا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے لیے کام کرنے تک کے الزامات عائد کیے گئے۔ بہت سوں کو ان الزامات کے تحت کئی برسوں کے لیے جیل میں بند کر دیا گیا اور انجمن مزارعین پنجاب کی قیادت اب بھی ان الزامات کا سامنا کر رہی ہے۔



حالیہ معاہدے کے خلاف بہت سی آوازیں بلند ہوئی ہیں۔ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے معاہدے کو مکمل طور پر یکطرفہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے، ’’ مزارعین کو فصلوں میں سے حصہ دینے کا کہہ کر قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کیا ہے۔ یہ معاملہ اسی صورت میں حل ہوگا جب اوکاڑہ کے مزارعین کی حقیقی قیادت پر قائم کیے جانے والے جھوٹے پولیس مقدمات ختم کیے جائیں گے۔ آپ قائدین کو جیلوں میں بند کر کے مزارعین سے فصلوں میں سے حصہ دینے کا نہیں کہہ سکتے۔‘‘

پاکستان کے بہت سے حصوں میں ایک صدی یا اس سے زیادہ عرصہ تک قائم رہنے والا نوآبادیاتی عہد تقسیم کے بعد کے نوآبادتی طرز کے قوانین میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اوکاڑہ میں احتجاج اور اس پر ریاست کا ردعمل یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی ریاست اپنی حاکمیت قائم رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔

اوکاڑہ میں احتجاج کی جڑیں دہائیوں پر محیط عدم اعتماد میں پنہاں ہیں۔ اس عدم اعتماد کے سیاسی شعور میں شامل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مزارعین ریاست کی نسبت زیادہ منظم اور آگاہی رکھتے ہیں۔ ریاست کی جانب سے عدم تشدد کی حامل پرامن احتجاجی تحریک کو کچلنے کے لیے پرتشدد حربوں کے استعمال کا مطلب یہ ہے کہ ریاست ملک بھر میں مزارعین کی مزاحمت برداشت نہیں کر سکتی۔ اگر حال کا ذکر کیا جائے تو ملک کی قبائلی بیلٹ میں حقوق کی بہت ساری تحریکیں چل رہی ہیں لیکن محروم طبقات کی فکر کو بندوق کے سایوں میں مقید کر دیا گیا ہے۔