Get Alerts

دولت کی ہوس میں استعمال ہوں تو سائنسی ایجادات تباہی لاتی ہیں

سائنسی تھیوریز کی تشکیل میں ہزاروں سائنس دانوں کی محنت شامل ہوتی ہے۔ سائنسی آلات بنانے میں بھی ہزاروں محنت کش مل کر کام کرتے ہیں۔ لیکن یہ آلات مالکان کی نجی ملکیت میں چلے جاتے ہیں جو منافع کی خاطر ان آلات کو سماج کی تباہی کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔

دولت کی ہوس میں استعمال ہوں تو سائنسی ایجادات تباہی لاتی ہیں

انسان کی تاریخ نیچر کے ساتھ مقابلے کی تاریخ ہے۔ زندہ رہنے کی خاطر ہمیشہ سے انسان فطرت سے جنگ آزما رہا ہے۔ شعوری ارتقا کے نتیجے میں نیچر سے مقابلے میں انسان کا پلڑا نسبتاً بھاری ہو گیا اور انسانی شعور نے نیچر یعنی خارجی کائنات کو مسخر کر کے تہذیب و تمدن کی بنیادیں رکھیں۔

نیچر کے ساتھ اسی مقابلے کے دوران ہی سائنس کا ظہور ہوا۔ اشیا کو اپنے استعمال میں لانے کے لئے ان کی شناخت بھی ضروری تھی۔

انسان جب فطرت میں موجود اشیا کی خاصیت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے سائنس جنم لیتی ہے۔ جب ان اشیا کی خاصیتوں کو سمجھ کر ان سے مختلف آلات بناتا ہے اور سائنس کو استعمال میں لاتا ہے تو اس سے ٹیکنالوجی ظہور میں آتی ہے۔

چقماق پتھر کی خاصیت کو سمجھنے سے آگ جلانے کی سائنس نے جنم لیا۔ دیا سلائی کی ایجاد سے پہلے تک چقماق پتھر ہی آگ کی ٹیکنالوجی تھی۔

انسان نے کب آگ کو قابوکرنا سیکھا، اس بارے میں ہم فی الحال صرف تخمینے ہی لگا سکتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ 9 لاکھ سال پہلے کی انسان نما مخلوق نے ہی آگ کو مسخر کر لیا تھا۔ کوئی 5 لاکھ سال پہلے بتاتے ہیں۔ لیکن اتنا مسلم ہے کہ آگ کو مسخر کرنے کی سائنس نے انسانی تہذیب کے ارتقا میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ آگ صرف فائدہ مند ہی نہیں، نقصان دہ بھی ہے۔ آگ کو انسان نے تخریبی مقاصد اور جنگی اہداف کے لیے بھی استعمال کیا۔ یہاں سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ سائنس سے جنم لینے والی ٹیکنالوجی کو انسان دونوں طرح سے استعمال کر سکتا ہے، تمدن سازی کے لئے بھی اور تمدن کی بربادی کے لئے بھی۔

جنگوں میں دشمنوں کے کیمپوں اور رسد کے ذخیروں کو آگ لگانا بھی معمول رہا ہے۔

اسی طرح انسان نے پتھر کی خاصیت کو سمجھ کر پتھروں سے اوزار بنائے۔ لوہے کی دریافت سے انسان کو اس دھات کی مضبوطی کا علم ہوا تو انسان نے لوہے سے اوزار بنا کر اپنی تہذیب کے ارتقا کو سرعت و تیزی عطا کی۔ لوہے سے انسان نے زراعت کے لئے اوزار بنائے اور لوہے کو جنگی مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا۔ اس ٹیکنالوجی نے بھی دونوں کردار ادا کئے۔

پہیے کی ایجاد بھی ایک اہم ٹیکنالوجی تھی جس نے آمد و رفت اور اشیا کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کو آسان بنایا۔ تجارت کے فروغ و ترقی میں پہیے کا بڑا کردار ہے اور تجارت نے مختلف تہذیبوں کو آپس میں جوڑنے کا کردار نبھایا۔

یہ سائنس و ٹیکنالوجی کے تعلق کی ابتدائی مثالیں ہیں۔

خیر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ کیونکہ سائنس کی تاریخ ہمارا موضوع نہیں۔ بلکہ سماج پر اس کے اثرات ہمارا موضوع ہیں۔

سائنس کا سفر پہیے کی دریافت یا لوہے کے اوزاروں کی ایجاد پر ختم نہیں ہوا بلکہ یہ آج بھی جاری ہے۔ سائنس آج بھی وہی ہے البتہ یہ پہلے سے زیادہ منظم ہو چکی ہے۔ اس کی تحقیق کا دائرہ زیادہ پھیل چکا ہے اور مزید آلات کی ایجاد نے اس کا سفر سہل کر دیا ہے۔

اس لحاظ سے قدیم سائنس اور ماڈرن سائنس میں کوئی جوہری فرق نہیں۔ اس ارتقائی سفر میں بھاپ کے انجن کی ایجاد ایک انقلابی ایجاد تھی جس کے بعد انسانی تہذیب نے تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کیں۔ اور پھر الیکٹریسٹی کی دریافت نے بجلی کی مدد سے چلنے والے آلات بنانے میں مدد فراہم کی۔

ریڈیو کی ایجاد سے لے کر کمپیوٹر اور سمارٹ فون کی ایجاد تک ہزاروں ایجادات ہیں جو سائنس کی بدولت ممکن ہوئیں اور جنہوں نے ناصرف انسان کی انفرادی زندگی بلکہ سماجی زندگی کو بھی بدل ڈالا۔ یہ سب ایجادات جن کو ہم ٹیکنالوجی بھی کہہ سکتے ہیں، سائنس کی بدولت ممکن ہوئیں۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

سائنس فطرت کے منظم مطالعہ کا نام ہے۔ سائنس میں ابتدائی مشاہدے کے بعد ہائپوتھیسز پیش کئے جاتے ہیں۔ ان ہائپوتھیسز کی مختلف تجربات کے ذریعے آزمائش کی جاتی ہے اور ہائپوتھیسز کی صداقت پہ مطمئن ہونے کے بعد تھیوریز بنتی ہیں۔

اس منظم مطالعے سے حاصل ہونے والے نتائج کے اطلاق  (Applicability)سے ٹیکنالوجی وجود میں آتی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا رشتہ بہت قریبی ہے۔ ہر ایجاد کے پس منظر میں کئی سائنسی دریافتیں کارفرما ہوتی ہیں۔

نیوٹن کے دریافت کردہ قوانین حرکت ہوائی جہاز بنانے اور اڑانے میں مدد گار ثابت ہوئے۔ اپالو مشن سے لے کر ہبل اور جیمز ویب ٹیلی سکوپ تک ہزاروں ایسی ایجادات ہیں جن کی بنیاد میں سائنس کارفرما ہے۔

کوانٹم سائنس کی دریافتوں سے فائدہ اٹھا کر سمارٹ فون کی ایجاد ممکن ہوئی۔ فون کے اندر جی پی ایس سسٹم آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کی روشنی میں کام کرتا ہے۔

اسی طرح انسانی جینوم کی ساخت کا مطالعہ اور ایٹم کی اندرونی ساخت کے سائنسی مطالعے نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں انقلابی جستیں طے کی ہیں۔ بہت سی بیماریوں کا علاج جینیٹک سائنس کی بدولت ممکن ہوا۔

میڈیکل سائنس کی مدد سے بہت سے ملکوں سے پولیو کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ طاعون کا خاتمہ بھی سائنس کی مدد سے ممکن ہو سکا۔ ملیریا ایک جان لیوا بیماری تھی جس کا علاج فلیمنگ کی دریافت سے ممکن ہوا۔ زہریلے جانوروں کے کاٹے کا علاج بھی ممکن ہو چکا ہے۔ ایکس ریز کی دریافت نے بیماریوں کی تشخیص دینے والے آلات بنانے میں بھی مدد کی اور اب تو کینسر جیسی بیماری کے بعض مراحل کا علاج بھی ریڈیو تھراپی سے کیا جاتا ہے جس میں ایکس ریز استعمال ہوتی ہیں۔

یوں ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو تبدیل کرنے میں کس قدر مؤثر ثابت ہو رہی ہیں۔

یہاں یہ عرض کرنا مناسب ہو گا کہ سائنسی ایجادات اپنی ذات میں اچھی یا بری نہیں ہوتیں بلکہ ان کا استعمال انہیں اچھا یا برا بناتا ہے۔ اٹامک سائنس کو ہی لے لیجیے، ایٹم کے داخلی اجزا کے مطالعے نے انسانوں کے سامنے نئے راستے کھولے۔ ایٹمی سائنس کی مدد سے ایٹمی انرجی کو انسانی تہذیب کی ترقی کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور ایٹم بم بنا کر انسان نے اپنے لئے تباہی کا دہانہ بھی کھول رکھا ہے۔ ایٹمی سائنس اپنی ذات میں اچھی یا بری نہیں بلکہ یہ انسان ہے جو اس کو اچھے یا برے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔

لیکن اگر انسان اپنی نوع کی بقا کے لئے فکر مند ہو تو سائنس کے اندر یہ پوٹینشل بھی موجود ہے کہ یہ انسانی غلطیوں کی اصلاح بھی کر سکتی ہے۔

انسانی ایجادات نے زمین کے ٹمپریچر میں اضافہ کیا ہے جس سے زندگی کی بقا کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ لیکن اب انسان اس طرف متوجہ ہو چکا ہے اور ماحول کی گرمی میں اضافہ کرنے والے یا اسے آلودہ کرنے والے عوامل پر قابو پانا چاہتا ہے۔ لیکن ہوس زر انسان کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

سائنس کی مدد سے ہی ماحول دوست  (Environment friendly)ایجادات سامنے آ رہی ہیں۔ ماحول دوست گاڑیوں کی ٹیکنالوجی میں سولر سائنس اور دیگر شعبوں کی سائنس کا بڑا دخل ہے۔ فیکٹریوں سے نکلنے والے ماحول دشمن دھوئیں کو فلٹر کرنے والے آلات بھی سائنس نے ایجاد کر لئے ہیں۔ لیکن ان آلات کا اضافی خرچہ منافع کی ہوس میں مبتلا مالکان برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے تو یہ انسان کا قصور ہے۔ ضرورت سے زائد فیکٹریز لگانے کی روش بھی ہوس زر سے جنم لیتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ منافع کا لالچ انسان کو ھل من مزید کی طرف لے جاتا ہے۔ ہوس زر کا سب سے بڑا تضاد یہی ہے کہ یہ اپنی اور بنی نوع انسان کی تباہی کے راستے کھولتی ہے۔

یہاں پہنچ کر ہمیں اخلاقیات کی اہمیت کا بھی احساس ہوتا ہے۔ اگر انسان اخلاقی اقدار کا پابند ہو کر ٹیکنالوجی کو استعمال میں لائے تو یہ انسان کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے اور اس کے نقصان دہ پہلو کو کم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اخلاقیات کے معیار بھی نظام کی تبدیلی سے بدل جاتے ہیں۔ پھر اخلاقیات انسان نے ہی اپنے اوپر لاگو کرنی ہوتی ہیں اور جب انسان ہوس زر میں مبتلا ہو جائے تو پھر وہ اخلاقی اقدار کو پامال کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتا۔

جس سماج میں دولت اکٹھی کرنے کی دوڑ لگی ہو وہاں اخلاقیات پہ عمل کرنے والے بھی بہت تھوڑے رہ جاتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہوس زر کی دوڑ کی بنیادی وجہ ذرائع پیداوار کی مطلق نجی ملکیت ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ انفرادی ملکیت کی جگہ اجتماعی ملکیت کو جمہوری انداز میں قائم کیا جائے۔

سائنس و ٹیکنالوجی بھی تو انسان کی اجتماعی ملکیت اور انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے۔ اس پر سب کا حق ہے۔ اگر اس کو ہوس زر کے لئے استعمال کیا جائے گا تو تباہ کن ہو سکتی ہے اور اگر اسے انسانیت کے مفاد میں بروئے کار لایا جائے تو یہ سماج کی پیشرفت و ترقی کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔

سائنسی تھیوریز کی تشکیل میں ہزاروں سائنس دانوں کی محنت شامل ہوتی ہے۔ سائنسی آلات بنانے میں بھی ہزاروں محنت کش مل کر کام کرتے ہیں۔ یہ کسی اکیلے فرد یا گروہ کا کارنامہ نہیں ہوتے۔ لیکن جب یہ آلات بن جاتے ہیں تو مالکان کی نجی ملکیت میں چلے جاتے ہیں جو منافع کی خاطر ان آلات کو سماج کی تباہی کے لئے بھی کام میں لے آتے ہیں۔

اگر ان آلات بنانے والے اداروں پر ان میں کام کرنے والے محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول ہو اور مناسب قانون سازی کے ذریعے ان کو اہم فیصلوں میں شریک کیا جائے، نیز ٹیکنالوجی کے ضرر رساں پہلو کو قابو کرنے کے لئے بھی پارلیمنٹ کے ذریعے ضروری قانون سازی کی جائے تو اس سے منافع کی دوڑ کے منفی پہلو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ کیونکہ جہاں بہت سے انسان مل کر فیصلے کرتے ہیں وہاں اس بات کا امکان کم ہو جاتا ہے کہ وہ انسانیت کی تباہی چاہیں گے۔ اسی لئے جمہوریت کو نچلی سطح پر منتقل کرنا اور شہروں اور دیہاتوں تک بنیادی مسائل کے حل کیلئے اختیارات کی منتقلی بھی ضروری ہوتی ہے۔

مصنف دینی تعلیم کے شعبے سے وابستہ اور حوزہ علمیہ قم کے فارغ التحصیل ہیں۔ اعجاز نقوی فلسفہ، سائنس اور سماجیات سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں اور ایک مدرسے میں بطور وائس پرنسپل خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔