سائنسی نظریات کو زیربحث لانے سے پہلے ہمیں سائنسی طریقہ کار کے بارے میں جان لینا چاہیے کہ سائنسی طریقہ کار ہے کیا؟
سائنسی طریقہ کار میں پہلے مرحلے پر مشاہدہ یا آبزرویشن ہے۔ لیکن یہ آبزرویشن سادہ یا خالی نہیں ہوتی۔ اس سے ایک سائنس دان کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے۔ ایسا سوال جو اس کو اس نئے مظہر یا فنومینا کی وضاحت پر اکساتا ہے۔
اب سائنس دان مزید ڈیٹا کلیکٹ کرتا ہے اور ان کی آبزرویشن سے کوئی مفروضہ/ ہائپو تھیسز قائم کرتا ہے۔
ہائپو تھیسز دوسرا مرحلہ ہے۔
مفروضے پیش کرنے کے بعد مزید مشاہدات سے اس مفروضے کو ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور مفروضے کو جنرلائز کیا جاتا ہے۔
یہ تیسرا مرحلہ ہے۔
یعنی مزید ڈیٹا کلیکٹ کرنا ضروری ہے تا کہ مفروضے کو اس سارے ڈیٹا پر ٹیسٹ کیا جا سکے۔
اس کے بعد چوتھے مرحلے میں نتیجہ لیا جاتا ہے۔
یہ نتیجہ یا کنکلوژن مفروضے کی تائید بھی کر سکتا ہے اور تردید بھی۔ اگر نتیجہ پہلے والے مفروضے کی تصدیق کر دے تو پھر بھی اسے کئی بار ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ تب جا کر اس نتیجے کا اعلان کیا جاتا ہے اور دوسرے سائنس دانوں کو اس پر رائے دینے اور اس کو ٹیسٹ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ دوسرے سائنس دان بھی اس نتیجے پر اپنے تجربات کرتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ مذکورہ نتیجہ تمام دستیاب ڈیٹا کی بخوبی وضاحت کر سکتا ہے، تب اس کو تھیوری کا درجہ ملتا ہے۔
اگر نتیجہ، مفروضے کی تائید نہ کرے تو پھر نئے سرے سے مفروضہ بدل کر تجربات کئے جاتے ہیں۔
ان سارے مراحل کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سائنسی نظریات قابل اعتماد اور یقینی ہوتے ہیں، احتمالی نہیں ہوتے۔ یعنی ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی سائنس دان تھیوری پیش کرنے کے بعد کہے کہ ہو سکتا ہے یہ غلط ہو!! اس لئے سائنسی نظریات کو احتمالی کہنا اس سارے پراسس سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ارتقاء ایک سائنسی نظریہ ہے۔ یعنی ایک تھیوری ہے جو تمام دستیاب ڈیٹا/ شواہد کی وضاحت کرتی ہے۔ اس وقت سائنسی دنیا میں اس کا کوئی ایسا متبادل نہیں جو تمام شواہد کی وضاحت کر سکے۔
کشش ثقل ایک قوت کا نام ہے۔ کسی تھیوری کا نام نہیں۔ تھیوری تو نظریۂ اضافیت ہے جو اس کشش ثقل کی وضاحت کرتی ہے۔ تاہم یہ کہنا کہ 'کشش نام کی کوئی چیز نہیں'، ایک جذباتی بیانیہ ہے جس کو صرف سوڈو سائنس (جہل مرکب) میں اہمیت دی جاتی ہے۔
اگر کشش ثقل نام کی کوئی چیز نہیں تو پھر اس کی متبادل تھیوری پیش کیجئے جو تمام کائناتی مظاہر کی توجیہ کر سکے، جو ستاروں، سیاروں، کہکشاؤں کی حرکت، ان کی تخلیق اور ارتقاء اور ان کے سپرنووا بن کر پھٹنے کی بھی وضاحت کر سکے۔ اور تو اور صرف زمین کے بیضوی ہونے کی وضاحت ہی کر سکے!!!
سوڈو سائنس میں کسی نظریے کا ایک ٹکڑا کاٹ کر پیش کر دیا جاتا ہے یا کسی ایک فرد کے ذاتی خیالات کو سائنس کہہ دیا جاتا ہے جو کہ درست نہیں۔
سائنس کسی سائنس دان کے ذاتی خیالات کا نام نہیں۔ سائنس ان نظریات کا نام ہے جن کی تصدیق یا تردید دیگر سائنس دانوں کے لئے بھی ممکن ہو اور وہ ان کی تصدیق بھی کریں۔
مثلاً نظریہ ارتقاء صرف ڈارون کے خیالات کا نام نہیں۔ اس پہ تمام سائنس دانوں نے کام کیا ہے اور ابھی تک کام کر رہے ہیں۔
سوڈو سائنس جو سائنس کی شبیہ ہے، اس میں فلیٹ ارتھر بھی ہیں، کشش ثقل کے مخالف بھی ہیں، زمین کو ساری کائنات کا مرکز اور ساکن ماننے والے بھی ہیں۔ لیکن ان کے پیش کردہ مفروضے ان موضوعات سے متعلق تمام میسر ڈیٹا کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں۔
اسی طرح یہ کہنا کہ سائنس محدود ہے، ایک مبہم سا جملہ ہے۔ سائنس تمام قابل مشاہدہ کائنات کو اپنی تحقیق کی جولان گاہ قرار دیتی ہے۔
سائنس صرف سپر نیچرل طاقت یا طاقتوں کے بارے میں بات نہیں کرتی کیونکہ یہ اس کے نزدیک انسانی علم کی حدود سے باہر ہے۔ لیکن تمام مادی کائنات یا تمام قابل مشاہدہ کائنات، سائنس کا موضوعِ تحقیق ہے۔