قلندر اپنے آستانے پہ بیٹھا بھنگ ملی بلیک کافی پی رہا تھا ۔ خلاف معمول مریدوں کی حاضری آج کم تھی۔ دریافت کرنے پر قلندر کے پرسنل سیکریڑی سید اسحاقے کنجر نے بتایا کہ آدھے سے زیادہ مرید اس مظاہرے میں شرکت کررہے ہیں جو اس بل کےخلاف منعقد کیا گیا ہے جسکے تحت افواج پاکستان کا مذاق اڑانے یا توہین کرنے پر دو سال قید یا پانچ لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔
یہ سنکر قلندر آگ بگولا ہو گیا۔ اسحاقے کنجر کو کہا کہ فون کر کے سب کو آستانے پر فی الفور حاضر ہونے کا کہے ۔ نافرمانی کی صورت میں آستانے کی ممبرشپ منسوخ ! فرمان جاری ہوتے ہی کچھ ہی دیر میں سب کے سب قلندر کے حضور پیش ہو گئے۔
"کاہے کو گئے اس مظاہرے میں؟"
"حضور یہ بل آزادی اظہار کے خلاف ہے بس اسی لئے آواز اٹھانے گئے تھے۔" ریشماں، آستانے کی سب سے اعلی کتھک رقاصہ بولی۔
"ابے جاہلوں کس نے دماغ میں یہ خناس سما دیا کہ یہ بل آزادی اظہار کے خلاف ہے۔ یہ بل توانسانی حقوق کی شاندار ترجمانی کرتا ہے جو اس قوم کی جید جاہل سول سوسائٹی سمجھنے سے قاصر ہے۔" قلندر اپنے مخصوص انداز میں بولا۔
"یہ قانون کیسے انسانی حقوق کی شاندار ترجمانی کر سکتا ہے۔ لگتا ہے کافی میں بھنگ کی مقدار کچھ زیادہ ہے۔" قلندر کا منہ چڑھا چوہدری چول بولا۔
"ہاں ہاں کیونکہ تیری اماں نے اپنی آنکھوں سے تیار کی ہے۔ بہت نشہ ہے اسکی غزالی آنکھوں میں! اور بھی کچھ خاص چیزیں ملائیں ہیں اسنے ۔ سنے گا؟"
چوہدری چول نے محسوس کر لیا کہ اینٹ کا جواب پتھر سے مل چکا ہے لہذا اس نے چپ سادھنے میں عافیت جانی۔
"جاہلوں مظاہرے میں اندھا دھند گھسنے کے بجائے اگر بل کا غور سے مطالعہ کر لیتے اور تھوڑی بہت ہسٹری پڑھی ہوتی تو آج مجھے یہ لیکچر دینے کی ضرورت نہ پڑتی۔ تم لوگوں کی جہالت لاعلاج ہے پر میں پھر بھی کوشش کرتا ہوں کہ اس بل کی افادیت کے اسرار و رموز تم پر سیاق و سباق کی روشنی میں طشت از بام کروں۔ " قلندر نے کافی کا مگ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے کہا۔
"اس بل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ سزا اس صورت ملے گی اگر یہ ثابت ہو کہ توہین یا تمسخرایسا فعل 'اراداتاً' سرزد ہو ا ہو۔ باالفاظِ دیگر غیر ارادی طور پر ہم سب کو افواجِ پاکستان کی توہین/تمسخر اڑانے کی مکمل آزادی ہے۔ تو اب بتاؤ کیسے یہ بل آزادی اظہار یا انسانی حقوق کیخلاف ہو گیا؟"
"مگر حضور یہ فرمائیں کہ کوئی غیر ارادی طور پر کیسے توہین کر سکتا ہے یا تمسخر اڑا سکتا ہے؟" قلندر کے مرید بخاری بکواسی نے پوچھا۔
"ابے بکواسی اگر تو خواب میں افواجِ پاکستان کی توہین کا مرتکب ہو جائے تو تجھ پر کوئی قدغن نہیں!" قلندر نے جواب دیا اور سب مرید اس کی عقل پر عش عش کر اٹھے۔
"دوسرا پہلو جو تمام جہلاء کی احاطہ جہالت سے باہر ہے، اسے سمجھنے کے لئے مجھے تم لوگوں سے ایک سوال پوچھنا ہے۔ یہ بتاؤں اس بل سے پہلے اس انسان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا تھا جو افواجِ پاکستان کی شان میں گستاخی کیا کرتا تھا؟"
"حضور وہ دنیا سے پردہ فرما جاتا تھا مسنگ پرسن بنکریا 'حامد میر' یا 'عمر چیمہ' کا روپ دھارن کر لیتا۔" سب مرید یک زباں بولے۔
"بالکل درست۔ ایسا ہونے سے دنیا بھر میں ملک کی اور خاص طور پر افواجِ پاکستان کی بدنامی ہو رہی تھی۔ یہ غیر قانونی ہتھکنڈے تھے۔ اب ایسا نہیں ہو گا۔ اب توہین کرنے والے کو بتایا جائے گا کہ اس نے کیا جرم کیا ہے ۔ عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔ مقدمے کی کاروائی ہو گی اور تب جا کر انصاف ہو گا۔ ملزم کو پورا پورا حق دیا جائے گا اپنی صفائی پیش کرنے کا۔ یہ ہی رونہ تو ماما قدیر اور سول سوسائٹی رو رہی تھی کہ جی بندہ غائب نہ کریں، جرم بتلائیں، عدالت میں پیش کریں ، مقدمہ چلائیں، قصوروار ہو تو سزا دیں۔ تو اب بتاؤ یہ قانون انسانی حقوق کی اعلی ترین پاسداری کرتا ہے یا نہیں؟ "
"سولہ آنے کرتا ہے حضور۔ پاک فوج زندہ باد۔ " سب مرید نعرہ زن ہوئے۔
"ابے احمقوں صرف پاک فوج نہیں 'افواجِ پاکستان زندہ باد ' بولو۔ کیوں توہین افواجِ پاکستان کے مرتکب ہوئے جاتے ہو ادھورا نعرہ لگا کر!" قلندر تنبیہ کرتے بولا۔
"اور یہ جو ہمارا پڑوسی دشمن ملک ہے بھارت۔ ۔ جو دعوی کرتا ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا۔ اس کی آزادی اظہار ملاحظہ ہو۔ کل ہی واٹس ایپ پر ایک پرانے بھارتی دوست سے بات ہو رہی تھی۔ ممبئی میں رہتا تھا۔ کہیں غلطی سے مودی سرکار پر خفیف سے تنقید اپنے کالم میں کر بیٹھا۔ دو دن بعد رات تین بجے سی بی آئی اسکے فلیٹ پر پہنچ گئی اور اسے گرفتار کر لیا کہ اس نے مقررہ تاریخ تک اپنے کریڈٹ کارڈ کا بل نہیں جمع کروایا تھا۔ اس کے ایک صحافی دوست جو کہ دہلی میں رہتا تھا پر ریپ کا کیس درج گجرات میں درج ہوا۔ ہمارے یہاں دیکھو کتنی آزادی ہے۔ روز لوگ خان کو نئے نئے القابات سے نواز رہے ہوتے ہیں: کارتوس خان، اڑیل خان، طالبان خان، بھنگ خان، وغیرہ وغیرہ۔ وہ بیچارہ چپ چاپ سہہ لیتا ہے۔ "
"اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس بل کی برکات کے طفیل بے روزگاری میں کمی ہو گی۔ وہ ایسے کہ اب افواجِ پاکستان کو ایسے بندے بھرتی کرنے پڑیں گے جو چوبیس گھنٹے انٹرنیٹ پر سوار ہو اور ایسے شیاطین کا پتہ لگائیں جو فیس بک، ٹوئیٹر، یو ٹیوب یا اس قماش کی ویب سائٹس پر جعلی یا اصلی اکاؤنٹس کے ذریعے افواجِ پاکستان کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں۔ پھر ایسے وکلاء اور جج بھرتی کرنے پڑیں گے جو انہیں کیفرِکردار تک پہنچائیں۔ ایسے صحافی بھرتی کرنے پڑیں گے جو ان کیسز کی غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کریں۔ ایسے تجزیہ کار بھرتی کرنے پڑینگے جو شام کو ٹی وی چینلز پر حاضر ہو کر قوم کو آگاہ کریں کہ یہ عناصر کیا کیا گل کھلا رہے تھے۔ اور اسی قماش کی بھرتیاں ملزم بھی کرنے پر مجبور ہو گا۔ سو اس دو دھاری تلوار کے ذریعے غربت اور بے روزگاری کو جلد ہی خاتمہ ہو جاوے گا۔"
"لیکن حضور یہ پراسس تو بہت ہی طویل ہو جائیگا۔ ہماری عدالتوں سے انصاف پانے کے لئے انسان کے پاس صبر ایوب کے علاوہ عمرِ خضر بھی ہونی چاہیئے۔" یہ قلندر کا مرید کانا دوراندیش تھا۔ ایک آنکھ سے بھی یہ قطرے میں دجلہ بہ آسانی دیکھ لیتا تھا۔
"ہاں یہ تو ہے!" قلندر بولا۔
"حضور کے پاس اس کا کوئی حل ہے؟" کانے دوراندیش نے پوچھا۔
"وہ کون سا مسئلہ ہے جس کا حل قلندر کے پاس نہ ہو! اسکا بہترین حل یہ ہے کہ ملک میں سب سے پہلے بجلی کی سہولت مکمل ختم کر دی جائے۔ نہ بجلی ہو گی۔ نہ کمپیوٹر انٹرنیٹ چل سکے گا۔ ان ہی شیطانی چرخوں کی بدولت جگہ جگہ توہینِ افواجِ پاکستان ہو رہی ہے۔ "
"لیکن حضور وہ جنریٹر یا شمسی توانائی سے کمپیوٹر، انٹرنیٹ، سیل فون چلا لینگے۔ پھر کیا کرینگے آپ؟ کانے نے پھر پوچھا۔
"ہاں کانے بات تو ٹھیک ہے لیکن اسکا لانگ ٹرم سلوشن ہے۔ آج سے ہی شروع کر دیا جاوے تو اگلے بیس برس میں نہ توہین رہے گی نہ تمسخر۔ دونوں ٹنٹے اپنی موت آپ مر جائنگے۔ وہ یہ کہ ملک میں موجود تمام تعلیمی ادارے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیے جائیں۔ حال ہی میں حکومت نے اس سلسلے میں قابلِ رشک پیش رفت کی ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری کو راتوں رات ایک صدارتی آرڈیننس جاری کروا کے گھر بھیجا ہے۔ یہ شخص ڈاکٹر عطا الرحمن کی جہالت کا اجالے پھیلانے والی پالیسی کا دشمن تھا۔ اسکی برطرفی سے ہائیر ایجوکیشن والے تعلیمی ادارے تو بند ہی سمجھو۔ اب ایک اور آرڈیننس جاری کر وا کے اگر باقی ماندہ کالج اور سکول بند کروا دئیے جاویں تو کچھ عرصے بعد قوم لکھنے پڑھنے والے جھنجھٹ سے آزاد ہو جاوے گی اور اگلے بیس برس بعد اک ایسی نسل وجود میں آوے گی جسے سمجھنے کے لئیے ایک اور ڈارون کی ضرورت پڑے گی۔ "
"ارے واہ واہ حضور!" قلندر کے مریدوں کے چہرے خوشی سے تمتمانے لگے۔
Contributor
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔