قلندر آستانے پہ بیٹھا ایک بین الااقوامی این جی او کی سالانہ رپورٹ پڑھ رہا تھا جسکے مطابق ملک میں ایسے مقدمات کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی جو افواجِ پاکستان کے خلاف تمسخر یا ہتک کے ایکٹ کے تحت درج کئے گئے تھے۔ قلندر اور اس کے تمام مرید افسردہ تھے۔ ان سب کو اپنی افواج سے جنون کی حد تک عشق تھا۔ ان سب نے بڑھ چڑھ کر اس ایکٹ کی حمایت اس وقت کی تھی جب ہر سو سے اس پر تنقید کے نشتر برسائے جا رہے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس ایکٹ کے آ جانے سے افواجِ پاکستان کے خلاف تنقید، تمسخر یا سازشوں کا سلسلہ رک جاتا۔ مگر اس ایکٹ کے آتے ہی ایسی حرکتیں آئے دن ہونے لگی۔ جب ملک میں بلاسفیمی لاز نہیں تھے تو کوئی بھی بلاسفیمی نہیں کرتا تھا۔ جب بلاسفیمی کے خلاف قوانین آئے تو ہر ایرا غیرا نتھو خیرا بلاسفیمی کرنے لگا۔ بلاسفیمی کر کر کے لوگوں نے یورپ، امریکہ، کینیڈا میں سیاسی پناہ لے کر وہاں کی شہریت اختیار کر لی جو عام حالات میں ناممکن سے بھی اوپر کے درجے کی چیز تھی۔ رپورٹ کے مطابق کروڑوں پاکستانی افواجِ پاکستان کا تمسخر اڑا کر ان ممالک کے اول درجے کے شہری بن چکے تھے۔
"حضور اگر یہ فرنگی ٹولہ اسی طرح شہریت ریوڑیوں کی مانند بانٹے گا تو وہ دن دور نہیں جب آستانے پر الووؤں کا راج ہو گا۔ کچھ کیجئے۔ " کانا دوراندیش بولا۔
"ہاں کانے تو ٹھیک کہتا ہے۔ لیکن فکر نہ کر۔ اس کا بھی حل ہے میرے پاس۔ میں نے رات ہی ایک نیا بل ڈرافٹ کیا ہے۔ نیو خان نے مجھے فون کیا تھا۔ بہت پریشان تھا تم لوگوں کی طرح۔ اس کے ووٹر بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ آدھے سے زیادہ اب امریکی شہری بن چکے ہیں۔ لیکن اب ایسا نہ ہو گا۔ اس بل کی کشش کسی کو ملک چھوڑنے نہ دے گی۔ اور اس کی تاثیر کسی کو تمسخر بھی نہیں اڑانے دے گی۔ "
"یہ کونسا بل ہے سرکار؟" چول چوہدری نے پوچھا۔
"اس بل کا عنوان ہے، 'افواج پاکستان محبت بل'۔ اس کی رو سے جو بھی افواجِ پاکستان کی تعریف و توصیف و تکریم میں اضافہ کرے گا اسے انعام و اکرام سے نوازا جائیگا۔ "
"یہ تو بہت زبردست بل ہے۔ کیا کمال کا آئیڈیا نکالا سرکار نے!" ریشماں بولی۔
"پہلے سن تو لو۔ اس بل کے تحت اگر کوئی یہ ٹویٹ کرتا ہے کہ پاک فوج دنیا کی بہترین فوج ہے تو اسے ایک پلیٹ دیگی قورمہ بمعہ روغنی نان ملے گا۔ اگر کوئی یہ ٹویٹ کرتا ہے کہ پاک فوج کائنات کی سب سے اعلی فوج ہے تو اسے یہ ہی مینیو بمعہ سوئٹ ڈش ملے گا۔ اگر کوئی یوٹیوب پر یہ کہتا ہے کہ سیاست سے پاک فوج کا کوئی لینا دینا نہیں تو اسے فوجی کارن فلیکس کے دو ڈبے ملیں گے۔ جو ٹی وی چینل پر آ کر ان سیاستدانوں کو منہ توڑ جواب دے گا جو فوج کے خلاف بکواس کرتے ہیں انہیں ایک عد د عسکری سمینٹ کی بوری بطور انعام دی جاوے گی۔ اگرکوئی اس بات کی چرچا کرے کے آرمی چیف کا عہدہ تا حیات ہونا چاہیے، ایسے عظیم شخص کے بیٹے کو ڈی ایچ اے میں چوکیدرا کی نوکری دی جائیگی۔ سیاستدانوں کو طویل المدتی بنیادوں پر بدنام کرنیوالے کو نقدانعامات سے بھی نوازا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ لاتعداد انعامات ہیں جو کارکردگی کی بنیاد پر تقسیم کیے جاونگے۔ بہترین قصیدہ لکھنے والے کو ڈی ایچ اے میں پونے مرلے کا کارنر پلاٹ ملے گا۔ غرضیکہ جتنا بڑا اظہار محبت و عقیدت اتنا ہی بڑا انعام! "
"واہ واہ!" سب مریدوں نے نعرہ بلند کیا اور دھمال ڈالنا شروع ہو گئے۔ قلندر یہ بتانا بھول گیا کہ دھمال کا ریٹ سب سے اونچا ہے اس بل میں!
Contributor
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔