حال ہی میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 75 فیصد طالبات اپنے نصاب کے باہر کی کوئی کتاب نہیں پڑھتے ہیں، یہ کتابیں بھی صرف اس مقصد سے پڑھی جاتی ہیں کہ امتحانات میں پاس ہو سکیں۔ بلاشبہ، کتاب بہترین دوست تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ انسانی بنیاد کا لازمی جز ہے۔
29 نومبر کو ہونے والے " طلبہ یکجہتی مارچ" میں پاکستان بھر سے کئی موجودہ اور سابقہ طالب علم حصّہ لیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ طلبہ و طالبات اچانک سے باشعور ہوگئے ہیں؟ کیا ان طلبہ کو یونین کے نظریات اور فرق کا علم ہے؟
پاکستان جیسے ملک میں جہاں سوشل میڈیا پر لکھی ہر پوسٹ کو قرآن کی آیت سمجھ لیا جاتا ہے، یا کسی بھی نام سے منسوب کر دیا جاتا ہے، وہیں ایک عدد طلبہ تنظیم "پروگریسو سٹوڈنٹس فیڈریشن" ہے جو ملک کے مختلف شہروں میں ادبی نشست کا اہتمام کرتی ہے۔
ایسی نشستوں کا بنیادی مقصد طلبہ و طالبات میں مختلف نظریات، تحریک، فلسفہ اور اس سے منسلک غیر نصابی کتابیں پڑھنے کا رجحان پیدا کرنا ہے۔ تعلیمی دورانیے میں غیر نصابی پڑھائی سے نہ صرف ذات اور ذہن کی نشوونما ہوتی ہے بلکہ سماجی تخلیق کاری میں بھی مدد ملتی ہے۔
رواں سال شہر قائد، کراچی میں بھی ایسی نشستوں کا آغاز فرئیر ہال اور جامعہ کراچی سے ہوا، جنہیں حرف عام میں "Reading Circle" کا نام دیا گیا۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں اور نوکری پیشہ افراد تک اس نشست کے بارے میں سوشل میڈیا اور منہ زبانی چرچا کیا گیا۔ جامعہ کراچی کے شعبہ لٹریچر سے پڑھ کر نکلنے والی طالبہ عائشہ کا کہنا ہے، "ہمیں لوگوں کو سیاسی اور معاشرتی طور پر باشعور بنانا ہے جس کے لئے کتابوں کا پڑھنا اور مختلف نظریات کو سمجھنا بہت ضروری ہے"۔
عائشہ PrSF اور WDF کی کارکن ہیں اور ان ادبی نشستوں کا ہفتہ وار اہتمام کرتی ہیں۔ ان نشستوں میں عمومی طور پر سیاست، ریاست اور ان سے جڑے نظریات و فلسفے پر گفتگو ہوتی ہے۔ طلبہ و طالبات ہر ہفتے کسی کتاب یا موضوع کا انتخاب کرتے ہیں اور اس پر تفصیل سے تبادلہ خیال کرتے ہیں۔
جہاں ایک طرف جامعہ کراچی سیاسی طلبہ تنظیموں کی غیر تعلیمی سرگرمیوں کے لئے بدنام ہے، وہیں دوسری طرف PrSF جیسی فیڈریشن ہے، جو طلبہ کو ان کے بنیادی حقوق کی آگاہی دینے کا کام سر انجام دے رہی ہے۔
ان ادبی و نظریاتی نشستوں کا فائدہ آنے والے مارچ میں دیکھنے کو ملے گا۔ جہاں عائشہ اور ان جیسے کئی طلبہ و طالبات یونین کی بحالی کے لئے مارچ کریں گے۔
عام ذہن میں طلبا یونین اور سیاسی طلبا تنظیموں کو لے کر کافی غلط فہمی ہے۔ عائشہ کا کہنا ہے اس فرق کو سمجھنے اور قبول کرنے میں PrSF Reading Circles نے بہت مدد کی ہے۔ سیاسی تنظیموں نے طلبہ کے بنیادی حقوق اور ان کی بہتری کی طرف کام کرنے کے بجائے تشدد اور ہنگاموں کا ذریعہ اپنایا تھا، جس کے باعث طلبہ کنارہ کشی اختیار کر چکے تھے۔
یونین کا نظریہ قدرے مختلف ہے اور کیونکہ 3 دہائیوں کے بعد اس کی گونج سنائی دے رہی ہے تو مختلف جامعات میں اس کو لے کر ایک ہلچل ہے۔
اپنے طالب علمی کے دور میں یونین نہ ہونے کے باعث عائشہ نے خود بھی کئی مشکلات کا سامنا کیا ہے اور یہی وجہ ہے کے وہ طلبہ یکجہتی مارچ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لے رہی ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ جو مسائل ان کو درپیش آئے وہ مستقبل کے طلبہ کو بھی آئیں۔
تعلیمی و ادبی سرگرمیاں، تھیٹر، کلچر، آرٹس، یہ وہ چند چیزیں ہیں جو طلبہ یونین کو طلبہ تنظیموں سے جدا کرتی ہیں۔
عائشہ کا ماننا ہے کہ حقوق کی مانگ اور بحالی کے لئے ضروری نہیں کہ تشدد اور ہتھیار کا سہارا لیا جائے۔ اب چونکہ سیاسی تنظیموں کا زور ٹوٹ رہا ہے، حقوق کا شعور اجاگر ہو رہا ہے، ملک میں مختلف تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں تو شاید وہ وقت بھی آ پہنچا ہے جہاں طلبہ یونین کی بحالی کا معاملہ اٹھایا جائے۔
دنیا بھر میں اس وقت مختلف قسم کے مارچ اور مظاہرے جاری ہیں اور اسی بیچ پاکستان بھی اپنا زور (بایاں) بازو دکھائے گا اور اس کی شروعات 29 نومبر کو ہونے والے " طلبہ یکجہتی مارچ" سے ہوگی۔
ظلم کے ہوتے امن کہاں ممکن یاروں
اسے مٹا کر جگ میں امن بحال کرو
(حبیب جالب)