دروازہ کھلا اور کنڈی چڑھنے کی آواز آئی جو زونی کو سنانے کے لئے چڑھائی گئی تھی لیکن وہ منہ پھیرے بیٹھی رہی حالانکہ خفا نہ تھی، پھر بھی دل میں لپٹنے کی خواہش پیدا نہ ہو سکی۔
"ناراض ہو؟" زونی یوں دیکھتی رہی گویا کوئی شیشے کے دوسری طرف سے مخاطب ہو۔ آنکھوں میں پانی بھر آنے سے منظر دھندلا گیا لیکن دل سے کوئی سسکی نکلی نہ زبان سے اف۔
اس نے زونی کے کندھوں پر ہاتھ رکھے، ہونٹوں نے بھی جانا پہچانا لمس محسوس کیا۔ یہ ہاتھ، یہ رس چھوڑتے ہونٹ اور بل کھاتی لہراتی زباں ہفتوں بعد اس وصل میں وہ لذت اور سرور تھا جو چھوڑ دینے کے مدت بعد سگرٹ کے پہلے کش سے ملتا ہے۔ زونی کا جسم پانی بنتا جا رہا تھا اور چھیڑ چھاڑ سے اس پانی میں لہریں پیدا ہو رہی تھیں۔ ان ہاتھوں، ہونٹوں اور زبان کو سہلانے، اپنانے اور لبھانے کا فن خوب آتا تھا۔
بیلوں کے سے دو بازور اس کے جسم سے لپٹے جا رہے تھے اور مانوس سی خوشبو قربت کا نشہ بڑھا رہی تھی۔ زونی نے گہری سانس بھر کے آنکھیں موند لیں۔ گھٹی سانسیں پمپ کی طرح چلنے لگیں اور تنے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے۔ دونوں جسم ایک دوسرے سے آشنا تھے۔ لذت آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔ دائیں کان سے ذرا نیچے پاؤڈر ملک جیسی رنگت والی گردن پر جمع شدہ لو بائٹ کے جمے خون کو مانوس ہونٹ بھی محسوس کر رہے تھے۔ محبت سہلانے کا نام ہے نہ کہ دکھانے کا! سانسوں کی سرگوشی کا جواب بدن کی حدت نے دیا۔ تین ہفتے زونی نے کس کرب میں گزارے ہوں گے اسے خوب اندازہ تھا۔ زونی کا دولہا دیکھ کر دنیا فدا ہوئی جاتی تھی لیکن اسے اپنے دولہا کے سکس پیکس میں دلچسپی تھی، مردانہ وجاہت میں نہ پہروں پیار کرنے کی اہلیت سے۔ بلکہ وہ تو اسے پیار ہی نہیں سمجھتی تھی کیونکہ وہ محبت میں نرمی کی طلبگار تھی اور چاہتی تھی کہ اس کے خوبصورت جسم کو سہلایا جائے۔ جس طرح پھولوں کی نرمی اور نزاکت کو انگلیوں کے پوروں سے محسوس کیا جاتا ہے۔ گہری سانسوں کے ساتھ سونگھا یا پیار سے چوما جاتا ہے نہ کہ کھرل میں ڈال ہوان دستے سے رگڑا جائے۔
زونی کی ماں اس کی اچھی سہیلی تھی۔ باپ اور بھائی بھی خاصے لبرل واقع ہوئے تھے لیکن وہ جانتی تھی کہ وہ کسی کو قائل نہیں کر پائے گی۔ شائد وہ خود بھی اس رشتے کی قائل نہ تھی۔ بس ایک کشش تھی جسے وہ خود دوستی سے بڑھ کر کوئی اور نام دینے کی ہمت نہ رکھتی تھی۔ ماں، باپ حتیٰ کہ بھائیوں نے بھی اپنی لاڈلی سے بار بار اس کی مرضی اور پسند پوچھی لیکن وہ رائے نہ دے سکی۔
باہر ماربل کی سیڑھیوں پر اونچی ایڑی والے جوتے ٹک ٹک کی ردھم باندھ رہے تھے۔ دونوں الگ ہونا نہ چاہتے تھے لیکن قریب آتی ٹک ٹک کے باعث ہونا پڑا۔ زونی نے عجلت میں کھلے بالوں کو جوڑے میں باندھا اور جسم پر بڑا سا اونی سویٹر چڑھا کر زپ گلے تک بند کر دی۔ دروازے پر ہلکی سی دستک سے پہلے دونوں سنبھل چکے تھے اور کنڈی بھی احتیاط سے اتاری جا چکی تھی۔ ماں نے دروازہ کھولا اور مسکراتے ہوئے بولی "بیلا! بیٹا بہت اچھا کیا تم آ گئیں، زونی تمھیں بہت مس کر رہی تھی"۔
ٹیگز: راجہ مہتاب علی
مصںف پیشہ کے اعتبار سے کسان اور معلم ہیں۔ آرگینک اگریکلچر کے ساتھ ساتھ لائیو سٹاک کے شعبہ میں کام کرتے ہیں۔ ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور عرصہ 20 سال سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے منسلک ہیں۔ کرئیر کی ابتدا ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور ڈرامہ نگار کی جسکے بعد پی ٹی وی اور parallel theater کے لئیے بھی لکھتے رہے ہیں۔