فاشزم، خصوصاً جدید فاشزم کوئی سیاسی نظریہ یا عقیدہ نہیں بلکہ اقتدار تک پہنچنے کیلئے ایک سیاسی طریقہ واردات ہے، جس کا بڑا ہتھیار منظم پراپیگنڈا نظام اور اس کے ذریعے متواتر بیان بازی، نعرہ بازی اور سیاسی مخالفین کی کردار کشی کرنا اور اس کو اتنے تواتر سے کرنا کہ سچ اور سوچ وفکر کی آزادی کی تباہی یقینی ہو جائے۔
فاشسٹ جھوٹ کو اتنا دلفریب، شیریں اور رنگین پیرائے میں پرو کر پیش کرتے ہیں کہ اس کے سامنے سچ کی حیثیت لغو اور اکتا دینے والا عمل رہ جاتی ہے کیونکہ جب کسی کے عقیدہ یا رائے کی عمارت کی بنیادیں جھوٹ پر کھڑی ہو جائیں تو وہ نہ آزادانہ طور پر سوچ سکتا ہے اور نہ عمل کر سکتا ہے۔ اس قسم کے فرد، افراد یا سماج کی حیثیت ایک روبوٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ ان کی سوچ اور عمل کوئی اور تخلیق کرتا اور چلاتا ہے۔
چنانچہ، فاشسٹوں کا سب سے پہلا حدف سچ اور رازداری، خاص طور پر سوچ کی آزادی، کی بیخ کنی ہوتا ہے۔ اس کے بنیاد پر پر وہ اپنی ایک خیالی دنیا اور حقیقت بناتے ہیں جس کے کوئی وجود نہیں ہوتا، سوائے فاشسٹ رہنماؤں اور ان کے حواریوں کے ذہنوں میں۔
ان کے نام نہاد سیاسی عقیدے میں کوئی اٹل اصول اور پیمانہ کا وجود نہیں ہوتا بلکہ مختلف رنگوں والی دھاریوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہوتا ہے۔ جس سے وہ معروضی حالات اور وقتی تقاضوں کے متعلق کوئی بھی رنگ اٹھا کر استعمال میں لاتے ہیں۔
اس طرح فاشسٹوں کا اتحاد، حلیف اور حریف کسی اصول کے بنیاد پر نہیں بلکہ اقتدار تک رسائی کے بنیاد پر ہوتا ہے۔ مطلب جو فرد، گروہ یا طاقتور سمجھتے ہیں کہ اقتدار حاصل کرنے اور اسے طول دینے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے، وہ ان کا فطری حلیف ٹھہرتا ہے۔ جس طرح وہ خیالی ماہیت تشکیل دیتے ہیں، اس طرح وہ فرضی شناخت، فرضی دشمنوں اور خطروں کو تراشتے ہیں۔
اصل میں فاشزم بیان بازی، نعرہ بازی اور محاورہ بازی کا ایک مجموعہ ہوتا ہے۔ وہ اس کے ذریعے آبادی میں ایک خاص گروہ یا طبقے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ عموماً ان کا حدف اکثریتی گروہ ہوتا ہے۔
عوام کے جذبات ابھارنے اور اس میں شدت پیدا کرنے کیلئے وہ زیادہ تر عظمت رفتہ اور ماضی کے گزری ہوئی شان و شوکت کو دیومالائی بنا کر دلربائی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کو بار بار یہ بتاتے ہیں کہ آپ کا ماضی کتنا شاندار تھا، جہاں آپ عظمت کے بلند وبالا زینے پر کھڑے تھے اور اب یا تو ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں پڑے ہیں یا گرنے والے ہوں گے۔ اس کے ذریعے وہ اکثریت میں احساس مظلومیت اور محرومیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں انسان کو شدت پسندی اور جنونیت پر آسانی سے مائل کرتی ہیں اور سوچ، فکر اور عقلیت کے حس پر غالب ہو جاتی ہے۔
فاشسٹ ہمیشہ اعلٰی شان، سیاسی اغراض ومقاصد اور خیالی منصوبوں کا انتخاب کرتے ہیں جس کی تکمیل کی نہ کوئی تاریخ متعین ہو سکتی ہے اور نہ اس کی پراگراس کو ناپا جا سکتا ہے، یہ ایک ہمیشہ زیر تعمیر پراجیکٹ ہوتا ہے۔
اور اس طرح اقتدار تک پہنچنے یا اپنے اقتدار کیلئے خطرہ سمجھنے والوں کو اس عظمت رفتہ کی بحالی یا واپسی میں رکاوٹ بننے اور اپنے ناکامی کا الزام لگا کر فاشسٹ اس جنونیت کا رخ اپنے ان عناصر کے طرف موڑ لیتے ہیں جو ان کے عزائم کے مخالفت کرتے ہیں اور یوں سیاسی میدان کو محاذ جنگ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
بیرونی سازش، اندرونی دشمنی اور غدار ان کے بیانیہ کے اہم لغات اور ہتھیار ہوتے ہیں۔ جیسا نازیوں نے یہودیوں کیساتھ کیا تھا یا مسولینی نے اٹلی کے کمیونسٹوں کیساتھ۔
اس خیالی نصب العین تک پہنچنے کیلئے ایک دیو مالائی عظیم لیڈر کے ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیڈر کو ایسا تراش کر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ عام انسانوں سے برتر اور مافوق الفطرت صفات کا حامل نظر آئے۔ وہ تنقید سے مبرا ہوتا ہے اور ان کے پیروکاروں کے نزدیک ان کے لیڈر پر تنقید کرنا یا انگلی اٹھانا قابل گردن زنی جرم ہے۔ ہر وہ انسان دشمن اور غدار ہے جو ان جیسا نہیں سوچتا۔ فاشسٹ لیڈر اپنی ذات میں انجمن ہوتا ہے۔ اس کی ذات ریاست، ادارہ ، آئین اور قانون کا سرچشمہ ہوتی ہے۔
اب آتے ہیں جدید فاشزم کے طرف۔ میرے خیال میں طریقہ کار اور واردات میں زیادہ فرق نظر نہیں آتا، سوائے جدت کے۔ بدلے ہوئے بین الاقوامی سیاسی حالات کے مطابق ان کے پیشرو کی نسبت جدید فاشسٹوں کے عزائم محدود ہو گئے ہیں۔ اب ان کے عزائم توسیع پسندانہ سے سکڑ کر اپنی اپنی ریاستوں کو کنٹرولڈ کرنا اور اقتدار تک پہنچنا، پھر اس کو طول دینا، آئین اور قانون سے بالاتر حکمرانی کرنا ہے۔ دوسرا، اب وہ فاشزم کو خود ساختہ جمہوریت (کنٹرولڈ جمہوریت)، ویلفیر اور انسانی حقوق کی گھاس میں لپیٹ کر پروان چڑھاتے ہیں۔
ماضی قریب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اور حال ہی میں دوسروں کے علاوہ روس کا پوٹین، ترکی کا ارداوان اور پاکستان میں عمران خان کی مثال دی جا سکتی ہے۔ تحریر کے طوالت کو مدنظر رکھ کر ہم فی الحال اپنے فاشسٹ کا تجزیہ کرتے ہیں کہ وہ کتنا جدید فاشزم کے تعریف پر پورا اترتا ہے۔ سردست، عمران خان کی پوری پارٹی اس کی ذات پر کھڑی ہے۔ عملی طور وہ ادارہ ہے۔ آئین اور منشور اور ان کے الفاظ اس کے اصول ہیں، یعنی بنیاد کلٹ کی سیاست پر ہے۔
پہلے دن سے ان کی توجہ صرف بیانیہ، بیان بازی اور نعرہ بازی پر ہے جو وقت کیساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ منشور ان کا ریاست مدینہ لیکن زمان اور مکاں کے مطابق اس میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ کبھی مغربی جمہوریت سے متاثر ہوتا ہے، کبھی سکینڈینیوین ویلفیر ریاستوں سے اور کھبی چین کے واحد پارٹی مطلق العانیت نظام سے۔
حکومت میں آنے سے پہلے اور حکومت کے دوران ان کا نعرہ کرپشن ختم کرنا تھا لیکن اس کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار بئ دریغ استعمال کیا۔
شروع میں غلطی سے اعدادوشمار پر مبنی پراجیکٹس کا اعلان کیا جیسا کہ 50 لاکھ گھر تعمیر کرنا، ایک کروڑ نوکریاں دینا جس میں وہ پھنس گیا۔ اس کے بعد اس نے کبھی وہ غلطی نہیں کئی اور کل وقتی طور پر خیالی مثالی ریاست بنانے کے پراجیکٹ پر لگ گیا۔ اس احساس کے بغیر کے ان کی حکومت کے دوران معاشی تباہی ہوئی، مہنگائی بے قابو ہو گئی، افراط زر آسمان سے باتیں کرنے لگا، معاشی شرح نمو منفی میں چلی گئی، لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے، کروڑوں خط غربت سے نیچے چلے گئے۔ لیکن تین سال حکمرانی کے بعد بھی وہ اس کا ذمہ دار پچھلی حکومتوں کوقرار دیتا تھا۔
پچھلی حکومتوں پر ان کا ایک بڑا الزام بیرونی قرضے لینا تھا، لیکن اس کی حکومت نے پونے چار سال میں بیس ہزار ارب روپے قرض لئے لیکن کوئی ایک قابل ذکر ترقیاتی پراجیکٹ اس میں شروع نہیں کیا۔ جبکہ گذشتہ تمام حکومتوں نے 45 ہزار ارب روپے کا قرض لیا تھا۔
حکومت میں آنے سے پہلے کہتا تھا کہ ان کے پاس سو معاشی ماہرین کی ٹیم ہے اور حکومت ملتے ہی دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی لیکن سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے انکشاف کیا کہ کوئی معاشی پلان تھا ہی نہیں۔
اپنے پونے چار سالہ حکمرانی میں عمران خان نے باقاعدہ اور سب سے زیادہ اجلاس میڈیا کے ٹیم کے منعقد کئے۔ سب سے زیادہ وقت اور وسائل مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر خرچ کئے۔ ساری حکومتی توجہ پراپیگنڈا، بیان بازی اور نعرہ بازی پر تھی کیونکہ ان کی حکومت اسی ہی پر چلتی تھی۔ ان کا محبوب مشغلہ سیاسی مخالفین کی پگڑیاں اچھالنا اور کردار کشی کرنا تھا۔
پاکستان کی تاریخ میں اتنی تباہ کن حکومت کوئی نہیں گزری لیکن ابھی وہ غازی بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب ان کو اپنا زوال نظر آیا تو بیرونی سازش کا کبوتر ہیٹ سے نکال دیا۔ اب وہ اپنے ساری ناکامیاں اور بدعنوانیاں اس میں چھپانے کے کوشش کر رہا ہے اور محب الوطنی کے لبادہ اوڑھ کر عوام کے جذبات اور احساسات کیساتھ کھیل رہاہے۔
جیسا کہ یال یونیورسٹی کا فلاسفر جیسن سٹینلی کہتا ہے کہ " فاشسٹوں کا توڑ آپ سچ سے نہیں کرسکتے کیونکہ اس میں آپ کا ایک ہاتھ پیچھے باندھا ہوتا ہے۔ سچ ہمیشہ گنجھلک، پیچیدہ اور بے ترتیب ہوتے ہیں"۔ اس کے مقابلے میں جھوٹ، احتیاط، عیارانہ، مکارانہ اور شاطرانہ مہارت سے تراشے ہوتے ہیں۔
نوٹ: مصنف نے اس تحریر کیلئے پروفیسر جیسن سٹینلی کی کتاب What Fascism is and how it functions in the modern world اور انٹرویوز سے استعفادہ کیا ہے۔
ٹیگز: establishment, Fascism, Imran Khan, pakistan, political ideology, پی ٹی آئی, عمران خان, فاسشت, فاشزم