Get Alerts

فاشزم کیا ہے؟ کیا دنیا میں آج بھی فاشسٹ قوتیں براجمان ہیں؟

فاشزم کیا ہے؟ کیا دنیا میں آج بھی فاشسٹ قوتیں براجمان ہیں؟
فاشزم‘ کے بارے میں ہمارے ہاں کافی کنفیوژن پایا جاتا ہے۔ اکثر لوگ جابرانہ نظام کی ہر قسم مثلاََ فوجی ڈکٹیٹر شپ اور وراثتی و خاندانی بادشاہت یا ملوکیت کو بھی فاشزم سے تعبیر کرتے ہیں۔ جو سائنسی اعتبار سے درست نہیں۔ کیونکہ فاشزم اپنے حقیقی معنوں میں جس قدر خوفناک اور تباہ کن نتائج کا حامل ہوتا ہے۔ جبر کی دیگر اقسام ان کے عشرِ عشیر بھی نہیں ہوتیں۔ میں نے تیس سال پہلے بائیں بازو کے معروف دانشور اور سوویت انقلاب میں لینن کے قریبی ساتھی لیؤن ٹراٹسکی کی ایک کتاب کا اُردومیں ترجمہ کیا تھا۔ جس کا عنوان تھا ’ فاشزم کیا ہے اور اس سے کیسے لڑا جائے؟‘

اس کے مطابق ’ فاشزم سرمایہ دارانہ سماج کی وہ کیفیت ہے جب عوام کی حقیقی نمائندہ جماعتوں کی بوجوہ شکست یا عدم موجودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلاء کو سیاسی عمل کے ذریعے ایسی پارٹیاں پُر کرتی ہیں جو عوام کو نفرت اور انتقام پر مبنی مذہبی، نسلی اور دیگر انتہا پسند نظریات کے گورکھ دھندوں میں اُلجھا کر اقتدارپر قبضہ کر لیتی ہیں۔۔۔ اور پھر اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے سماج پر جبر کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع کر دیتی ہیں‘۔

فاشٹ اپنا سب سے پہلا نشانہ محنت کشوں کے باشعور اور انقلابی عناصر کو بناتے ہیں اور پھر اُن طبقات اور اداروں کو بھی اپنی آہنی گرفت میں لے کر مفلوج کر دیتے ہیں جنکی مدد سے وہ اقتدار پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ فاشزم میں ہر طرح کی ٹریڈ یونیینز، اظہارِ رائے کی آزادی، انسانی حقوق اور عدالتی نظام کو تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے اور اپنے مخالفین کو ملک و قوم کا غدّار قرار دیکر انتقامی کاروائیوں کے ذریعے چن چن کر ختم کردیا جاتا ہے۔فاشٹ حکمران کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ خود کو نجات دہندہ اور دیوتا قرار دے دیتا ہے۔

انقلابِ فرانس اور برطانیہ کے صنعتی انقلاب نے جہاں صدیوں سے رائج روائتی آمرانہ نظام کا خاتمہ اور نئے جمہوری نظام کا آغاز کیا۔ وہیں جمہوری نظام کے اندر چھپے ہوئے آمرانہ نظام کو بھی پہلی مرتبہ ہٹلر اور مسولینی کے ذریعے آشکار کیا جسے فاشزم کہتے ہیں۔ گویا فاشزم جمہوریت کے نام پر بدترین آمریت کا دوسرا نام ہے۔ جس میں تمام آمرانہ طاقتیں باہمی گٹھ جوڑ سے اقتدار پر قابض ہوجاتی ہیں۔ ہٹلر اور مسولینی دونوں منتخب حکمران تھے لیکن انہوں نے اپنے اپنے ملک میں نہ صرف تمام انسانی آزادیوں کو سلب کرلیا بلکہ نسلی برتری اور انتہا پسندی کے ذریعے دوسری جنگِ عظیم کی شکل میں بنی نوع ِ انسان کی بقا کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔

موجودہ دور میں فاشزم کی کلاسیکل مثالیں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، بھارت کے نریندر مودی اور پاکستان میں عمران خان کی شکل میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ٹرمپ کی نسلی امتیاز اور میڈیا کے ساتھ بدسلوکی کی پالیسی کو امریکہ کے ڈھائی سوسالہ مضبوط جمہوری نظام نے پنپنے نہیں دیا۔ جبکہ بھارت کے نریندر مودی کی ہندو بنیاد پرستی پر مبنی ’ہندوتوا‘ کے خوفناک اثرات بھارتی معاشرے کو جس طرح تقسیم در تقسیم کررہے ہیں۔ وہ بھارتی جمہوریت کی مضبوطی کے لیے چیلنج اور بھارت کی وحدت پر سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔

پاکستان کی صورتِ حال سب سے زیادہ تشویشناک ہے۔ جہاں جمہوریت انتہائی کمزور اور وفاقی اکائیاں محرومی کا شکار ہیں۔ جو ملک اس سے پہلے صرف 23سال میں دولخت ہو چکا ہے اور اپنی جیوپولیٹیکل اہمیت کی وجہ سے شروع ہی سے عالمی طاقتوں کی سازشوں کی آماجگاہ بنا رہا ہے۔ وہاں مستقل سیاسی عدم استحکام زہرِ قاتل ثابت ہو سکتا ہے جبکہ فاشزم معاشرے میں عدم برداشت، مخالفت برائے مخالفت اور انتہا پسندی کے ذریعے قومی وحدت کو پارہ پارہ کر دینے کا سبب بن سکتا ہے۔  بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی سیاسی منظر نامے کے پیشِ نظر پاکستان کے مستقل حکمران اداروں نے جواب براہِ راست اقتدار پر قبضہ نہیں کر سکتے تھے انہوں نے اپنے سویلین چہرے کے طور پر ایک ایسے شخص کو چنا ہے۔ جس کا مزاج ہی غیر جمہوری ہے۔ جو سیاسی استحکام اور رواداری کی بجائے سیاسی انتقام پر یقین رکھتا ہے اور جسکی ’معصومانہ خواہش‘ میں سعودی شہزادے محمد بن سلمان جیسے اختیارات حاصل کرنا اور اپنے مخالفین کو نشانِ عبرت بنانا ہے۔

آج پاکستان کے تمام معتبر صحافی اور اینکر پرسن مین سٹریم میڈیا سے فارغ کروادئیے گئے ہیں۔ جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس وقار سیٹھ کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف انہیں چیف جسٹس آف سپریم کورٹ بننے سے روکنے کے لیے گھٹیا ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ہٹلر کے وزیر کو ہٹلر کی طرح جھوٹے پراپیگنڈے کے ذریعے ہر جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ریاستِ مدینہ جیسی مذہبی اصطلاحات کو سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ توہم پرستی اور رجعت پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اگر عمران حکومت کے دوران پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہوجاتا تو نہ صرف جبر کے یہ شکنجے عوام پر مزید سخت ہوتے بلکہ اب تک اس حکومت کو لانے والے بھی اس کا شکار ہو چکے ہوتے۔ کیونکہ ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈہ استعمال کرکے اقتدار میں آنے والا ٹولہ زیادہ دیر تک کسی کی شراکت اور مداخلت برداشت نہیں کر سکتا۔ اپنی تاریخ اور معروضی حالات کے پیشِ نظر پاکستان زیادہ دیر تک کسی فاشٹ حکومت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مزید نت نئے تجربات کرنے کی بجائے پاکستان کو حقیقی نمائندہ جمہوریت کی ضرورت ہے جس کے بغیر پاکستان عدم استحکام کا شکار رہے گا۔

ڈاکٹر خالد جاوید جان ایک ترقی پسند سماجی کارکن اور شاعر ہیں۔ وہ مشہور زمانہ نظم ’ میں باغی ہوں ‘ کے مصنف ہیں۔