30 ستمبر 1977 کو جب بطور سرکاری افسر ڈیوٹی پر معمور خواجہ ظہیر کو وئیداد خان، جسٹس انوار لحق جسٹس مولوی مشتاق جسٹس نسیم حسن شاہ کی محفل میں بلایا گیا ۔۔۔۔ میں نے پیپلز پارٹی کے بڑے جلسے کی خبر سنائی تو جسٹس مولوی مشتاق بولے" صاحب ایسے نہیں جائے گا یہ کچھ اور کرنا پڑے گا'' ... پاکستان کے منتخب وزیر اعظم کے خلاف سازش رچانے والوں کا احوال سینئر بیوروکریٹ خواجہ ظہیر سے جانیئے اس ویڈیو میں
جس ماحول میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جا رہی تھی اس میں سپریم کورٹ کے ججز اپنی ترقیوں کو لے کر کیسے بھٹو کے خلاف بغض یافتہ تھے اور اسی وقت میں ایک دوسرے کے بھی خلاف چومکھی لڑای لڑ رہے تھے۔ بڑے عہدوں پر چھوٹے لوگوں کے قبضے کی داستان خواجہ ظہیر سے سنیئے
ذوالفقار علی بھٹو کو کیس کی سماعت کے دوران کب اندازہ ہوا کہ عدالتیں ان کے خلاف متعصب ہیں؟ انہوں نے 342 سی آر پی سی کے بیان میں بھی کہا کہ میں اب صرف اس پر بات کروں گا کہ میری حکومت کا تختہ الٹنے کے لیئے کونسی عالمی طاقت نے ضیا الحق کو استعمال کیا ہے اور اب تک اس عالمی طاقت کی ملکی معاملات میں براہ راست مداخلت جاری ہے۔ فوادحسن فواد کی انکشافات سے بھرپور گفتگو
جسٹس نسیم حسن شاہ پر بھٹو کو پھانسی کے دینے کے حوالے سے دباؤ تھا وہ ایڈہاک جج تھے انہیں پکا ہونا تھا۔ اس وقت کے یہ جج اپنے پر دباؤ کے بارے میں کیا کہتے تھے؟؟ رضا رومی صورتحال کا نقشہ کھینچ رہے ہیں خبر سے آگے میں