پچھلے دو روز سے سوشل میڈیا پر صحافی علی سلمان علوی پر لگائے جانے والے الزامات کا تذکرہ ہوتا رہا جب ان کی مرحوم بیوی کی بہن مہوش زہرا نے اعلان کیا کہ علی سلمان علوی ان کی بہن صدف زہرا کے قاتل ہیں اور وہ نہ صرف گھریلو تشدد کے مرتکب ہوئے بلکہ وہ دیگر خواتین کے ساتھ مراسم بھی رکھتے تھے اور پیسوں کے حصول کے لئے بلیک میلنگ کا سہارا بھی لیتے رہے تھے۔ مہوش زہرا کے باتیں سوشل میڈیا پر آگ کی طرح پھیل گئیں اور اگلے ہی روز خبر آئی کہ علی سلمان علوی پر ایف آئی آر درج ہو چکی ہے اور وہ اس وقت پولیس کی حراست میں تھے اور جولائی 8 کو عدالتی ریمانڈ پر جیل منتقل کر دیے گئے تھے۔
ایئر پورٹ پولیس سٹیشن میں درج کرائی جانے والی ایف آئی آر کے مطابق یہ واقعہ جون 29 کو پیش آیا اور بقول مہوش زہرا کے ان کو دوپہر کے 2 بجے اپنی بہن کے نمبر سے علی سلمان کا فون آیا کہ وہ تباہ ہو چکا ہے اور صدف زہرا نے اپنے ساتھ کچھ کر لیا ہے۔ جب صدف زہرا کے خاندان والے وہاں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ متوفی نے اپنے آپ کو چھت پہ لگے پنکھے سے لٹک کر پھانسی لگا لی تھی اور قریب میں ایک سیڑھی بھی پڑی تھی۔ ایف آئی آر میں درج ہے کہ علی سلمان علوی نے مختلف اوقات پر صدف زہرا کو مارا پیٹا بھی تھا اور ایف آئی آر میں استدعا کی گئی تھی کہ اس کی تحقیق کی جائے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ چند مہینے پہلے صدف زہرا نے گھریلو تشدد پر بہت کچھ لکھا اور اس میں خواتین پر ہونے والے مظالم کا ذکر بھی کیا۔ اس کے ساتھ مارچ میں صدف نے ٹوئیٹ کیا کہ وہ عورت مارچ کی پہلے حمایت نہیں کرتی تھیں لیکن اب وہ اپنے لئے، اپنی بیٹی اور آنے والی نسلوں کے لئے عورت مارچ کا حصہ بنیں گی۔ اس اندوہناک واقعے کی تحقیق تو پولیس کر رہی ہے اور ابھی تلک علی سلمان علوی کا مؤقف سامنے نہیں آیا۔ اسی لئے ان کو قاتل ٹھہرانا انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہوگا کیونکہ جب تک یہ جرم ثابت نہیں ہوتا، اس وقت تلک وہ محض ایک ملزم ہی ہیں۔
یاد رہے کہ علی سلمان علوی سوشل میڈیا پر بہت سرگرم تھے اور ان کے صرف ٹوئٹر پر 43 ہزار سے زائد فالؤرز ہیں۔ آج سے ایک دہائی پہلے وہ پیپلز پارٹی کے سرگرم حمایتی دکھائی دیتے تھے اور پاکستان میں شیعہ برادری پر ہونے والے مظالم پر بھی خوب آواز اٹھاتے تھے اور بذریعہ سوشل میڈیا ایکٹو ازم بھی کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ وہ پیپلز پارٹی سے دور ہوتے گئے اور پچھلے چار پانچ سال سے پاکستان تحریک انصاف کے انتہائی پرجوش کارکن کی طرح نہ صرف عمران خان کا دفاع کرتے تھے بلکہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی پر بھی تنقید کے نشتر برساتے تھے۔ ان کا ہدف بالخصوص مریم نواز شریف بھی تھیں اور وہ بہت واضح انداز میں اس بیانیے کا حصہ بن گئے تھے جو کہ 2016 میں پانامہ پیپرز کے بعد پاکستان میں گھڑا گیا تھا۔ اور جس کی مدد سے سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کے خاندان اور پارٹی کے خلاف رائے عامہ کو کافی حد تک اثر انداز بھی کیا گیا تھا۔
کیا وہ کسی منظم تحریک کا حصہ ہیں یا محض عمران خان کے ایک جوشیلے چاہنے والے، اس کا تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد باقاعدہ سوشل میڈیا ٹیموں کے ذریعے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچاتی ہے اور اپنے مخالفین پر الزام تراشی کا بھرپور سلسلہ جاری رکھتی ہے۔
اس عمل میں ان صحافیوں پر بھی کیچڑ اچھالا جاتا ہے جو عمران خان کی پالیسیوں اور اب ان کی حکومت پر تنقید کرتے ہیں یا عام سے سوال اٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو انگریزی زبان میں troll کہا جاتا ہے یعنی کہ جو کسی ایک شخص یا گروہ یا نظریے کے خلاف مستقل بیان بازی کرتے ہیں اور سچ اور جھوٹ میں فرق کو بھی یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
علی سلمان علوی معروف صحافی اور ٹی وی اینکر عاصمہ شیرازی کے ساتھ آج ٹی وی میں کام کرتے تھے اور بظاہر عاصمہ شیرازی کو بھی ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ بدھ کے روز عاصمہ شیرازی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ میں اس وقت حیران و پریشان ہو گئی جب مجھے اس واقعے کا پتہ چلا اور اس ایف آئی آر کے بارے میں معلوم ہوا۔ اور صرف میں نہیں بلکہ پورا میڈیا گروپ جس کے ساتھ میں کام کرتی ہوں، اس نے نہ صرف علی سلمان علوی کی مذمت کی بلکہ ان کو نوکری سے بھی نکال دیا۔ میں نے صدف زہرا نے جو کچھ ٹوئٹر پر لکھا، وہ بھی ابھی پڑھا ہے اور گو کہ میں ان سے کبھی نہیں ملی، میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔ انصاف بہر صورت ہونا چاہیے۔
عاصمہ شیرازی کو یہ سب کچھ کہنا اس لئے پڑا کہ سوشل میڈیا پر موجود ٹی وی انڈسٹری سے وابستہ ایک پروڈیوسر نے ان پر یہ فقرہ کسا کہ امید ہے کہ عاصمہ شیرازی علی سلمان علوی کے معاملے کو اپنے شو میں اٹھائیں گی کیونکہ وہ انسانی حقوق کی علمبردار ہیں۔ معلوم نہیں کہ یہ مشورہ کس نیت سے دیا گیا تھا لیکن عاصمہ شیرازی نے اس کا بھرپور جواب دیا اور دیگر کئی صحافیوں نے جن میں کامران یوسف، اسد علی طور، عادل شاہزیب اور دیگر شامل ہیں، انہوں نے نہ صرف عاصمہ شیرازی کا ساتھ دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ عاصمہ شیرازی ہمیشہ سے انصاف اور حق کی بات کرتی ہیں اور اگر ان کی ٹیم کا ایک ممبر اس طرح کے واقعات میں ملوث ہے تو اس میں عاصمہ شیرازی یا اس ٹی وی چینل کا کیا قصور ہے؟
پاکستان تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں نے بھی علی سلمان علوی کے معاملے کو خوب اچھالا ہے اور وہ اس بات کو ثابت کرنے پر تلے ہیں کہ پی ٹی آئی اس طرح کے مشکوک اور داغدار لوگوں کو استعمال کرتی ہے تاکہ وہ کیچڑ اچھالنے کا کام خوب تندہی سے انجام دیں۔ جنگ گروپ سے وابستہ صحافی عمر چیمہ نے ٹوئٹر پر لکھا کہ علی سلمان علوی وہ شخص ہے جو دوسرے صحافیوں کو صرف اس لئے لفافے کے طعنے دیتا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے نقاد تھے اور اب یہ خود اس طرح بے نقاب ہوا ہے کہ دیکھنے اور سننے والوں کے لئے توبہ کا مقام ہے۔ نہ صرف بیوی کے قتل کا الزام ہے بلکہ دیگر لڑکیوں کو بلیک میل کر کے ان سے رقمیں بٹورتا تھا۔ اللہ اس گھٹیا پن سے بچائے۔
احمد نورانی نے کہا کہ علی سلمان علوی نام کے صاحب عموماً مجھ پر الزامات لگاتے، طنز کرتے مگر میں نے کبھی ان کی کسی بات کو جواب دینے کے قابل نہیں سمجھا آج ان پر قتل کا الزام ہے۔ قانون پرعمل ہونا چاہیے مگر آج وہ کمزور ہیں، اس سارے قصے میں ان کا مؤقف کہیں نہیں۔ اگر ان کا کوئی جاننے والا ان کا مؤقف دینا چاہے تو میں اسے ضرور شائع کرنا چاہوں گا۔
احمد نورانی نے مزید لکھا کہ سوشل میڈیا پر ایک طرف کی معلومات ہیں، پولیس کے مطابق یہ خودکشی ہے، اگر ان صاحب نے خواتین سے دھوکہ کیا تو اس جرم میں سزا ہونی چاہیے، گھریلو تشدد ہے تو اس جرم میں، مگر قتل؟ سوشل میڈیا پر دی گئی یکطرفہ معلومات پر (صرف میڈیا کے لئے) اگر دوسرا مؤقف آجائےتو کیا برا ہے؟
احمد نورانی کی بات میں بہت وزن ہے اور نیا دور کے پلیٹ فارم سے بھی ہم چاہیں گے کہ اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہئیں اور اگر علی سلمان علوی کو نقصان پہنچایا ہے تو اس ضمن میں انصاف بھی ہونا چاہیے۔
یوں تو سوشل میڈیا پر ٹرولز کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر ہی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنے والے اور ٹرولنگ کرنے والوں کی نفسیات رفتہ رفتہ ان کی آن لائن تحریروں اور گالیوں میں مدغم ہو جاتی ہے۔ اکثر اوقات وہ ڈیجیٹل اور حقیقی دنیا کے درمیان فرق کو بھولنا شروع ہو جاتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ رویے تشکیل پاتے ہیں جنہیں sociopathy یا دوسرے الفاظ میں منتشر شخصیت کا شکار ہو جانا کہتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں اس پر تحقیق ہونا باقی ہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ بڑھتی ہوئی انٹرنیٹ تک رسائی کے ضمن میں اس مسئلے کا کچھ کیا جائے۔ اس پورے واقعے سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ پاکستان میں گھریلو تشدد کے خلاف ابھی تک مؤثر قانون سازی نہیں ہو سکی۔
موجودہ حکومت نے ایک قانون کا مسودہ تو تیار کیا ہے لیکن ماضی میں اس کی سخت مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ خواتین جو اپنے گھروں میں بدسلوکی اور تشدد کا شکار ہوتی ہیں، ان کی دادرسی کے کوئی ذرائع موجود نہیں۔ ہمارا خاندانی نظام خواتین کو بدسلوکی سہنے پر مجبور کرتا ہے اور معاشرتی رویوں میں خواتین پر تشدد کوئی انوکھی بات نہیں۔ اگر صدف زہرا کو انصاف ملنا ہے تو پھر اس امر پر بھی غور کرنا ہوگا لیکن سب سے پہلے علی سلمان علوی کو اپنی صفائی کا مکمل موقع ملنا چاہیے اور حقائق سب کے سامنے آنے چاہئیں۔