پابندیوں سے تشدد تو نہ رکا، البتہ طلبہ کا شعوری ارتقا ریاست نے کامیابی سے روک دیا

پابندیوں سے تشدد تو نہ رکا، البتہ طلبہ کا شعوری ارتقا ریاست نے کامیابی سے روک دیا
پاکستان بننے کے وقت ملک میں ایم ایس ایف ہی ایک واحد طلبہ تنظیم تھی اور ان چار صوبوں میں اس کا بھی کوئی خاطر خواہ اثر و رسوخ نہیں تھا۔ پاکستان بننے کے بعد پہلی قابل ذکر طلبہ تنظیم جو وجود میں آئی وہ ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) تھی جو کہ 1952 میں کراچی میں قائم کی گئی اور 1954 میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی ذیلی تنظیم کے الزام کے ساتھ اس جماعت کے ساتھ ہی پابندی کا شکار ہو گئی۔ اس تنظیم پر پابندی کے بعد طلبہ کو کنٹرول کرنے کے لیے بیوروکریسی نے نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن یعنی NSF ٍقائم کی مگر 1956 تک ڈی ایس ایف کے سرخے اس تنظیم میں نہ صرف شامل ہو چکے تھے بلکہ اس کو نظریاتی طور پر ایک مکمل بائیں بازو کی جماعت میں ڈھال چکے تھے۔ گو کہ اس تنظیم نے 1968 تک پاکستان کے تقریباً تمام تعلیمی اداروں پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کی مگر 1969 میں اسلامی جمعیت طلبہ نے بالآخر پنجاب یونیورسٹی سمیت ملک کی دیگر یونیورسٹیوں میں بڑی کامیابی حاصل کی اور اگلے تین سال ملک کے تعلیمی اداروں پر جمعیت کا راج رہا۔



تاہم 1971 میں اپنا عروج دیکھنے کے بعد جمعیت ایک مرتبہ پھر پنجاب، اسلام آباد، کراچی اور پشاور کے بیشتر کالجوں میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے مقابلے میں پے در پے شکستوں سے دو چار ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ترقی پسند تنظیموں کی آپسی لڑائیوں کا فائدہ جمعیت نے اٹھایا، مگر بھٹو دور حکومت کے خاتمے کے ساتھ یہ دور بھی اپنے اختتام کو پہنچا کیونکہ ترقی پسند تنظیموں نے ایک بار پھر اکٹھے ہو کر آمریت اور اس کے حواریوں کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ 1983 کے انتخابات میں پنجاب کے بیشتر کالجوں، یونیورسٹیوں اور اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی میں شکست کے بعد ضیاء حکومت کو اندازہ ہو چکا تھا کہ شاید جلد ہی پنجاب یونیورسٹی بھی اس کی B-team کے ہاتھ سے نکلنے والی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تمام طلبہ تنظیموں پر ہی پابندی لگا دی گئی۔

یہ تاریخ بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ کل سے جو کِل کِل سوشل میڈیا پر وطن کی محبت سے سرشار گل خانوں نے ڈال رکھی ہے، کہ طلبہ تنظیمیں ماضی میں قتل و غارت میں ملوث رہی ہیں، لہٰذا ان پر مکمل پابندی برقرار رہنی چاہیے۔ بھئی طلبہ تنظیموں پر 1984 سے پابندی ہے۔ یہ جو کچھ آپ نے پچھلے 35 سال میں دیکھا ہے، اس کی وجہ ہی یہ تھی کہ طلبہ تنظیمیں کسی فریم ورک کے تحت کام نہیں کر رہیں۔ کوئی انتخابات نہیں، کوئی سیاسی تنظیم سازی نہیں، تنظیموں میں طلبہ کے حقوق کی بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ طاقت کا منبہ طلبہ نہیں بندوقیں تھیں۔ اس کے لئے افغان جہاد کے دوران ملک کے طول و ارض میں کلاشنکوف کی آسان فراہمی یقینی بنا کر جنرل ضیاالحق حکومت نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ تو جس کو طاقت چاہیے ہو، اسے طلبہ کے ووٹوں کی نہیں، بلکہ اسلحے کی ضرورت تھی۔



لہٰذا یہ تشدد کا مسئلہ طلبہ یونینز کے ہونے سے نہیں، ان کے نہ ہونے سے پیدا ہوا ہے۔ اب آپ کہتے ہیں کہ یہ جو نوجوان لڑکے لڑکیاں آج طلبہ یونینز کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں، اس سے کیمپسز پر ایک بار پھر تشدد کو ہوا ملے گی، تو شاید آپ اس حقیقت سے ناآشنا ہیں کہ کیمپسز پر آج بھی تشدد کا دور دورہ ہے۔ بندوق آج بھی کیمپسز میں موجود ہے، ڈنڈے آج بھی برستے ہیں، اخلاقی پولیس آج بھی ہو رہی ہے۔ فرق محض یہ ہے کہ یہ تمام تنظیمیں اپنا اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کے لئے تو ہمہ وقت تیار رہتی ہیں مگر طلبہ کے مسائل سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہاں عہدہ ان کو دیا جاتا ہے جو طاقت کے حصول کی نیت سے پیسہ خرچ کر کے سیاسی جماعتوں میں جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور اس سب کے لئے وہ بندوق کا سہارا لیتے ہیں۔ اس پابندی کی وجہ سے طلبہ کی نظریاتی تربیت کا بھی فقدان ہے۔

لہٰذا آخری تجزیے میں، طلبہ یونین پر پابندی سے تشدد تو ختم نہ ہوا، طلبہ کی نظریاتی، اخلاقی اور سیاسی تربیت کے مواقع ضرور مفقود ہو گئے۔ یہ فیض فیسٹول پر نعرے لگانے والے طلبہ مانگ کیا رہے ہیں؟ طلبہ کے الیکشن کروائے جائیں، فیسوں میں کمی کی جائے، تعلیمی اداروں کی نجکاری کا سلسلہ بند کیا جائے، تعلیم کے لئے جی ڈی پی کا کم از کم 5 فیصد مختص کیا جائے، تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی فورسز کی مداخلت بند کی جائے، جنسی ہراسانی کے خلاف قانون تشکیل دیا جائے، لائبریری، انٹرنیٹ، ہاسٹل جیسی سہولیات مفت مہیا کی جائیں، معیارِ تعلیم کو یکساں اور بہتر کیا جائے، پسماندہ علاقوں میں تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں، اور فارغ التحصیل طلبہ کو اگر روزگار فراہم نہیں کیا جا سکتا تو بیروزگاری الاؤنس فراہم کیا جائے۔



اب آپ کو یہ تکلیف ہے کہ یہ طلبہ تو امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، احتجاج کے بعد گلوریا جینز چلے جائیں گے، وغیرہ۔ پتہ نہیں ان بیچاروں کے شلوار قمیض اور کوٹ دیکھ کر تو ایسا نہیں لگتا تھا کہ یہ گلوریا جینز جاتے ہوں گے۔ لیکن اگر جاتے بھی ہیں، تو آپ مطالبات پر غور کریں۔ گھر بیٹھ کر لوگوں پر تنقید کرنے سے تو یہ نوجوان کچھ زیادہ اور بہتر ہی کر رہے ہیں۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.