لسانی گروہ، پرتشدد سیاست، اور طلبہ یونینز کی بحالی کی تحریک

طلبہ مارچ میں لگے نعروں کی گونج ابھی باقی ہی تھی کہ جمعرات کی شام انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد میں دو طلبہ گروہوں میں تصادم ہوا جس کے نتیجے میں ایک طالبِ علم قتل اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ قتل ہونے والے طالبِ علم کا نام سیّد طفیل تھا۔ اطلاعات کے مطابق یہ واقعہ یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے منعقد کروائے گئے ایک ایکسپو کے دوران ہوا جہاں اچانک مبینہ طور پر سرائیکی سٹوڈنٹس کونسل سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے حملہ کیا اور فائرنگ کر کے بہت سے طلبہ کو زخمی کر دیا۔ ایک طالبِ علم سید طفیل، جن کا تعلق بھی اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا، اس حملے میں جاں بحق ہو گئے۔

دوسری جانب سرائیکی سٹوڈنٹس کونسل کے سینیئر وائس چیئرمین ضیا شفیق کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے کئی گھنٹے قبل ان پر اور ان کے دیگر ساتھیوں پر جمعیت کے ڈنڈا بردار غنڈوں نے حملہ کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی اطلاع انتظامیہ کو دی گئی تھی جنہوں نے سرائیکی سٹوڈنٹس کونسل کے ان طلبہ کو اسپتال جانے کا مشورہ دیا۔ ضیا شفیق کے مطابق وہ اسپتال میں داخل تھے اور ان کے علم میں نہیں تھا کہ ایکسپو پر حملہ کب اور کیسے ہوا، اور کس نے کیا۔


تاہم، یہاں سوال محض اس ایک تصادم کا نہیں ہے۔ یہ واقعہ ایک ایسے موقع پر پیش آیا ہے جب حال ہی میں پاکستان کے مختلف شہروں میں طلبہ یکجہتی مارچ کا کامیاب انعقاد کیا گیا ہے۔ ان پرامن مظاہروں میں اہم ترین مطالبات میں سے ایک طلبہ یونینز کی بحالی کا تھا۔ اسی ہفتے مسلم لیگ نواز کی ایک خاتون رکن قومی اسمبلی نے طلبہ یونینز کی بحالی کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا اور اس پر حکومتی اور اپوزیشن دونوں بنچوں سے اس مطالبے کی حمایت دیکھنے میں آئی، جس کے بعد اسے کمیٹی میں بھجوانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

اسلام آباد میں ہونے والے واقعے نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ آیا طلبہ اتنا شعور بھی رکھتے ہیں کہ سیاست اور تنظیموں کی بحالی کے بعد اس آزادی کو درست انداز میں استعمال کر سکیں، یا ایک بار پھر قوم ملک کے طول و عرض میں وہی کشت و خون کا بازار گرم ہوتے دیکھے گی جو 1990 کی دہائی میں دیکھا گیا تھا۔

وجاہت مسعود صاحب کے الفاظ میں ’تشدد پسماندہ سیاسی ثقافت کا نشان ہے‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طلبہ گروہوں کے درمیان تصادم اس وقت بھی ہوتے تھے جب یہ تنظیمیں موجود تھیں اور آج بھی معمول کا حصہ ہیں جب ان تنظیموں کا کوئی نشان نہیں۔ ہمارے ملک کی سیاسی ثقافت پسماندہ ہی اس لئے ہے کہ یہاں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ نیا دور پر گذشتہ روز چھپنے والے ایک مضمون میں کنور نعیم نے لکھا کہ وہ قائد اعظم یونیورسٹی میں مہران سٹوڈنٹس کونسل کے رکن محض اس لئے تھے کہ ان کا تعلق صوبہ سندھ سے تھا۔ یہ کوئی نظریاتی یا جذباتی وابستگی نہیں تھی، محض اپنے مسائل کے حل کے لئے ایک گروہ کا انتخاب ضروری تھا لہٰذا سندھ سے ہونے کی وجہ سے مہران سٹوڈنٹس کونسل کے رکن بن گئے۔ جمعرات کو پیش آنے والے واقعے میں بھی مبینہ طور پر ایک لسانی گروہ ملوث تھا۔



پسماندہ جمہوریتوں کا بنیادی مسئلہ نظریاتی سیاست کا فقدان ہے۔ لسانی اور نسلی گروہ جہاں اپنے گروہی اور گروہ کے ارکان کے ذاتی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، وہیں ان کی تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی۔ اپنے گروہ کے رکن کی حمایت اور تحفظ یہ خود پر لازم سمجھتے ہیں، خواہ حق کسی بھی طرف ہو۔ معاشی پسماندگی کا شکار معاشرے ہمہ وقت وسائل کی کمیابی کا شکار رہتے ہیں۔ اور گروہی سیاست وسائل کی منصفانہ یا مساوی تقسیم میں ایک رکاوٹ رہتی ہے۔ پرتشدد معاشروں میں یہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، یا جس کا جتھہ جتنا بڑا اس کی بھینس کی تصویر پیش کرنے لگتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سیاست کی بنیاد گروہی کے ساتھ ساتھ نظریاتی ہونا لازمی ہے۔ پاکستان کے سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو ہمارے یہاں سیاسی ثقافت کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ گروہی سیاست بھی ہے۔ برادری کے نام پر ووٹ دینا یہاں معمول ہے۔ اور نتیجتاً فیصلہ اس بنیاد پر ہوتا ہی نہیں کہ کون سا امیدوار مسائل کا بہتر حل پیش کر رہا ہے، بلکہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ آبادی یا جتھہ کس امیدوار کا بڑا ہے۔ طلبہ یونینز بحال ہوں گی تو یہ نسلی اور لسانی امتیاز بتدریج مٹتے جائیں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ معاشی اور سیاسی نظریات ان پر غالب آ جائیں گے۔



رہ گئی یہ بات کہ سیاسی شعور کے بغیر طلبہ یونینز بحال کرنے سے خون خرابہ ہوگا تو سوال یہ ہے کہ بغیر سیاسی عمل کے سیاسی شعور کا پیدا ہونا کیونکر ممکن ہے۔ جو آج اسلام آباد میں ہوا، یہ بھی طلبہ یونینز پر پابندی کے دوران ہوا ہے۔ جب فیصلے ووٹ کی طاقت سے نہیں ہوتے تو بندوق کی طاقت سے ہوتے ہیں۔ لہٰذا جمہور کے مسائل کا حل جمہور سے رائے دہی کا حق چھیننا نہیں۔ جمہوریت کے مسائل کا حل بھی مزید جمہوریت میں پنہاں ہے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.