Get Alerts

غیر ملکی حمایت حاصل ہوتی تو بلوچ کب کے آزاد ہو چکے ہوتے!

پاکستانی میڈیا میں بلوچوں کی آواز بین الاقوامی سطح پر سنے جانے پر ایک ماتم بپا ہے۔ اب 18 ویں ترمیم ہو کہ 20 ویں ترمیم، حقوق آغاز بلوچستان ہو یا محسن نقوی کی بڑھکیں؛ یہ بلوچستان کے مسئلے کے ایسے ہی حل ہیں جیسے کینسر کے مریض کا شیر مارکہ گولی یا پیناڈول سے علاج کیا جائے۔

غیر ملکی حمایت حاصل ہوتی تو بلوچ کب کے آزاد ہو چکے ہوتے!

جانی ٹی داس، وہ نوجوان جو بلوچوں کی 1973 کی مزاحمت میں لاپتہ ہوا، اس کا سراغ آج تک نہیں ملا۔ کراچی کا نوجوان حسن ناصر زیدی، جو بلوچ مزاحمت کے دوران بلوچستان میں ایک ترقیاتی پروجیکٹ پر کام کر رہا تھا، وہ بھی ابدی گمشدگی کا شکار ہوا۔ اس کا اتا پتہ پھر کبھی نہیں ملا۔ 1973 میں جب بھٹو نے عطاء اللہ مینگل کی حکومت برطرف کر دی تب کئی بلوچ قوم پرست اور ان کے ہم خیال نوجوان مسلح لڑائی کیلئے پہاڑوں پر چلے گئے۔

پہلی بار یہ بڑی بلوچ مسلح بغاوت تھی جس میں پڑھے لکھے غیر بلوچ اور سندھی نوجوان بھی شامل تھے۔ آج کے معروف صحافی احمد رشید، پاکستان کی سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس کے دو بیٹے راشد رحمان اور ان کے بھائی اسد رحمان، معروف ٹی وی اینکر نجم سیٹھی، میر علی احمد تالپور کے دو بیٹے میر محمد علی تالپور اور میر حیدر تالپور، آغا خانی افریقی نژاد محمد بھابھا ان نوجوانوں کا حصہ تھے۔ کراچی کے اردو بولنے والے اظہر جمیل، ہندو نوجوان جانی ٹی داس اور حبھی ان میں شامل تھے۔ حسن ناصر زیدی اور جانی ٹی داس کا بھی اب تک کوئی پتہ نہیں چلا۔

خان آف قلات کے محل میں شاید وہ کمرہ کھنڈرات کی صورت میں اب بھی موجود ہو گا جس کمرے میں ملک کے بانی محمد علی جناح کو سونے میں تولا گیا تھا اور پھر پاکستان بننے کے ایک سال کے عرصے میں جناح کے جیتے جی ہی سکندر مرزا کی قیادت میں خان آف قلات کے محل پر، اس کمرے سمیت، بمباری کی گئی تھی۔

جب گمشدہ، سربریدہ، بے گور و کفن بلوچوں کی دادرسی پاکستان میں کہیں نہیں ہوئی اور نا ہی بلوچستان کا ڈومیسائل رکھنے والے چیف جسٹسز کے پاس تو امریکی کانگریس، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور مغرب کے دیگر ایوانوں میں اب یہ آواز ضرور سنی جانے لگی ہے۔

پاکستانی ریاست کی طرف سے بلوچوں کو لگائے گئے زخم اور بلوچوں کی شکایات قلات پر پہلی فوجی چڑھائی سے شروع ہوتی ہیں جب بزور توپ خانہ بلوچستان کو تب کے نو آزاد پاکستان میں شامل کر دیا گیا۔ وگرنہ جب پاکستان بنا، قلات اس کا حصہ نہیں تھا بلکہ قلات اسمبلی کے زیر انتظام تھا۔ موجودہ بلوچستان انگریزوں کے ہی زمانے سے 'برٹش بلوچستان' بشمول کوئٹہ اور دیگر پشتون بیلٹ ژوب، پشین، لورالائی وغیرہ، اور قلات کے زیرانتظام (خاننیٹ) جھالاوان، ساروان، ساحلی مکران، اور سندھی بولنے والے سبی، لسبیلہ علاقوں پر مشتمل تھا، جبکہ گوادر 1950 کی دہائی تک خلیج کی سلطنت اومان کے زیر انتظام تھا۔ جب خان آف قلات اور جناح کے درمیان قلات کو پاکستان کی کنفیڈریسی میں شامل کرنے پر بات چیت ناکام ہو گئی تو قلات پر فوج کشی کر کے قلات اسمبلی سے بزور بندوق بلوچستان کو پاکستان میں شامل کرنے کی قرارداد منظور کروائی گئی۔

پاکستان کی قلات پر فوج کشی کے خلاف خان آف قلات کا بھائی پرنس عبدالکریم افغانستان جلاوطنی اختیار کر گیا اور کچھ عرصے بعد اس نے پاکستانی ریاست کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا جبکہ سردار اکبر بگٹی کوئٹہ میں جناح کی حمایت میں بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت کے حق اور حمایت میں تب پیش پیش رہے تھے۔

جدید بلوچ قوم پرستی کی داغ بیل عزیز کُرد المعروف عبدالعزیز بلوچ، اور تب بلوچ نوجوان انقلابی غوث بخش بزنجو اور شاعر محمد حسن عنقا نے ڈالی تھی۔ لیاری کے یوسف نسقندی، لال بخش رند، سندھی دانشور اور سیاسی کارکن قادر بخش نظامانی اور بلوچ دانشور رحیم بخش آزاد کے ذکر کے بغیر جدید بلوچ قوم پرستی کی تاریخ نامکمل ہو گی۔ اس کے ساتھ بلوچ سرداروں عطاء اللہ مینگل کے والد اور دادا بھی انگریزوں کے خلاف بغاوت اور سرکشیوں میں آگے آگے تھے۔

آج کے گمشدہ بلوچوں کی بے گور و کفن سربریدہ لاشوں کے برعکس انگریزوں کے باغی مری جنگجوؤں کی قبریں آج بھی بلوچستان پنجاب سرحد پر ڈیرہ غازی خان کے قریب موجود ہیں۔

پرنس کریم اور ان کے ساتھیوں کی بغاوت کو پاکستانی ریاست اور فوج نے کچل تو دیا لیکن بلوچ بغاوت اور بیزاری کی چنگاری تب جل اٹھی تھی۔

1950 کے عشرے میں بلوچستان کے بگٹی علاقے سوئی سے گیس دریافت ہوئی لیکن آج بھی بلوچستان کے کئی علاقوں میں گیس اور بجلی نہیں ہے۔ کوئٹہ میں بھی گیس بہت دیر بعد پہنچی۔

یہ واقعی 1970 کی دہائی والے بلوچ نہیں ہیں اور نا ہی اکبر بگٹی کے قتل کے دنوں والے بلوچ۔ اب ان کی تحریک ایک عالمی تحریک اور بلوچ مسئلہ انسانی حقوق کا بین الاقوامی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

یہ 1960 کی دہائی بھی نہیں ہے جب فوجی آمر ایوب خان کی حکومت تھی، جس نے بلوچوں کے خلاف فوجی کارروائی کا سلسلہ شروع کیا۔ تب بوڑھے سردار نوروز خان اپنے بھائیوں، بھتیجوں اور ساتھیوں سمیت بغاوت کرتے ہوئے جھالاوان کے پہاڑوں پر چلے گئے۔ ایوب خان حکومت نے نوروز خان سے بات چیت کا ڈرامہ رچایا اور قرآن بیچ میں رکھ کر نوروز خان اور ساتھیوں کو پہاڑوں پر سے صلح کا واسطہ دے کر اتروایا گیا۔ لیکن پھر حکومت نے اپنے وعدے سے مکر کر نوروز خان کے بیٹوں، بھتیجوں اور ساتھیوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے پھانسی پر چڑھا دیا۔

جنرل پرویز مشرف سے کئی سال پہلے ایوب خان نے بھی نواب اکبر خان بگٹی کو موت کی سزا دلوائی جو بعد میں بھٹو کی کوششوں سے معاف کر دی گئی تھی۔ ایوب حکومت نے اکبر بگٹی کی جگہ حکومت نواز سردار کو مقرر کروایا تھا جس کو 24 گھنٹوں کے اندر بگٹیوں نے قتل کر دیا۔

بلوچستان 1970 تک صوبے کی حیثیت میں نہیں تھا بلکہ ون یونٹ توڑنے کے اعلان کے ساتھ ہی یحییٰ خان نے بلوچستان کو پانچویں صوبے کی حیثیت دی۔ ون یونٹ ٹوٹنے کا اعلان سننے کے بعد اس کے خلاف جدوجہد کرنے والے عظیم سندھی رہنما حیدر بخش جتوئی المعروف بابائے سندھ انتقال کر گئے۔ ان کے جنازے میں اکبر بگٹی اور روپوش ہوتے ہوئے بھی شیر محمد مری نے حیدرآباد آ کر شرکت کی تھی۔

1960 ہی کے عشرے میں بلوچ نوجوان بائیں بازو اور قوم پرستی کے نظریات سے لیس ہونے لگے جب کچھ بلوچ نوجوان طلبہ نے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن یا بی ایس او قائم کی۔ بی ایس او کراچی میں ڈاؤ میڈیکل کالج میں پڑھنے والے عبدالحئی بلوچ، اور میر غوث بخش بزنجو کے بڑے بیٹے بزن بلوچ نے قائم کی تھی۔ بی ایس او طلبہ کی تنظیم ہوتے ہوئے بلوچ نوجوانوں میں کل تک منظم و مضبوط سیاسی پارٹی کا سا اثر رکھتی تھی، چہ جائیکہ پھر وہ دھڑوں میں بٹ گئی۔ لیکن آج بھی بلوچستان میں سیاسی فرنٹ پر سرکردہ رہنما ہوں یا کہ لڑاکا گروپ، ان کے کئی سرکردہ رہنما اور جنگجو بی ایس او کے کیڈر رہے ہیں۔

1970 کے انتخابات میں بلوچ قوم پرستوں نے حصہ لیا اور بی ایس او کے تب سابق صدر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ جیسے متوسط طبقے کے بے سر و سامان سیاسی ملنگ نے خان آف قلات کے بیٹے یا بھائی کو شکست دی تھی۔ انہی انتخابات میں خیر بخش مری کے اپنے حلقے سے حاصل کیے گئے ووٹوں کی تعداد پورے پاکستان کے کسی بھی امیدوار کے ووٹوں سے زیادہ تھی۔ خیر بخش مری ایک لاکھ ووٹ لے کر قومی اسمبلی پہنچے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آنے پر بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی (نعپ) نے حکومت بنائی، جس میں عطاء اللہ مینگل وزیر اعلیٰ، میر غوث بخش بزنجو گورنر، جبکہ بلوچی زبان کے قومی شاعر گل خان نصیر وزیر تعلیم بنے لیکن بھٹو نے یہ حکومت ختم کر دی۔ بھٹو حکومت نے جنرل ٹکا خان کی سربراہی میں ایران اور فوج کی خوشنودی کیلئے بلوچستان میں بلوچوں کے خلاف بدترین فوجی آپریشن کیا۔ پاکستانی فوج اور بلوچوں کی اس لڑائی میں فوج کا بھی زبردست نقصان ہوا جبکہ ہزاروں بلوچ قتل ہوئے۔ شیر محمد مری عرف جنرل شیروف، بی ایس او کے سابق صدر خیر جان بلوچ، اور ہزار خان مری اس جنگ کے اہم کردار رہے ہیں جبکہ خیر بخش مری کی سرپرستی میں پہاڑوں پر بلوچ پیپلز لبریشن فرنٹ یا بی پی ایل ایف نام کی ایک گوریلا یا لڑاکا تنظیم کا بھی 1973 کی بلوچ مزاحمت میں بہت نام لیا جاتا رہا ہے۔

ادھر ولی خان سمیت مری، مینگل، بزنجو کو بھی گرفتار کر کے حیدرآباد سازش کیس قائم کیا گیا، جس میں 54 لوگ شامل تھے، جن میں شیر محمد مری، معراج محمد خان، اکبر مستی خان اور یوسف مستی خان، نجم سیٹھی، حبیب جالب، اور پاکستان کے صدر آصف زرداری کی بہن فریال تالپور کے سسر اور اس وقت میرپور خاص سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے میر علی بخش تالپور بھی شامل تھے۔

میر علی بخش تالپور کا تعلق سندھ کے اس تالپور حکمران میر شیر محمد سے تھا جس نے آخری دم تک سندھ پر چارلس نیپیئر کے قبضے کی مزاحمت کی تھی۔ میر علی بخش کسانوں اور سندھ کے حقوق کے سرگرم وکیل کامریڈ روچی رام و دیگر کی صحبت میں انقلابی سوچ کا زمیندار تھا۔ وہ روچی رام کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کا بنیادی رکن ہو کر شامل ہوا تھا۔ بھٹو نے 1970 کے انتخابات میں میر علی بخش کو میرپور خاص سے قومی اسمبلی کی نشست کیلئے ٹکٹ دیا تھا جس میں وہ کامیاب ہو کر قومی اسمبلی پہنچے تھے۔ لیکن ان کی دوستی بلوچ لیڈروں اور اس وقت بھٹو کے منحرف حاکم علی زرداری سے تھی۔ خیر بخش مری اور شیر محمد مری عرف جنرل شیروف جیسے بلوچ رہنما بھی ان کے مہمان ہوا کرتے تھے۔ یہ بات بھٹو کو بہت ناگوار گزرتی تھی۔ میر علی بخش تالپور کو جیل میں بہت اذیتیں بھی دی گئی تھیں۔ وہ جیل میں ہی تھے کہ ان کے بیٹے میر منور تالپور کی شادی حاکم علی زرداری کی بیٹی فریال زرداری کے ساتھ ہو گئی تھی، بہرحال یہ ان کے بچوں کا اپنا فیصلہ تھا۔ میر علی بخش حیدرآباد سازش کیس میں جیل سے رہا ہونے کے کچھ عرصہ بعد ہی انتقال کر گئے۔

اکبر بگٹی کو بلوچستان کا گورنر بنا دیا گیا۔

پی این اے کی تحریک کے دوران جب بھٹو اور پی این اے قیادت کے درمیان مذاکرات ہوئے تو بھٹو نے اپوزیشن پی این اے کے حیدرآباد سازش کیس کے خاتمے اور بلوچستان سے فوج کی واپسی کے مطالبات مان لیے تھے لیکن جنرل ضیاء نے کہا کہ فوج کو اس پر اعتراض ہے۔ مگر بعد میں ضیاء جب مارشل لاء لگا کر آیا تو اس نے حیدرآباد سینٹرل جیل جا کر ولی خان اور ان کے ساتھیوں سے بات چیت کر کے حیدرآباد سازش کیس ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ خیر بخش مری نے جنرل ضیاء سے ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔

ضیاء الحق نے بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کیا لیکن خیر بخش مری اپنے قبیلے کے ساتھ افغانستان چلے گئے جبکہ عطاء اللہ مینگل بھی بہت عرصے تک پاکستان سے باہر رہے۔ ضیاء الحق کا دور بلوچستان کی سیاست میں قبائلی خونریزی اور سیاسی کرپشن کا دور تھا، جس میں سیاست میں منشیات کی سمگلنگ کا ایک بڑا فیکٹر بھی شامل ہو گیا۔

بے نظیر بھٹو کی حکومت کے دنوں میں خیر بخش مری کو سی ون تھرٹی طیارے میں واپس لایا گیا۔ مری قبائل ان کی اور ہزار خان مری کی قیادت میں وطن واپس آئے لیکن اب خیر بخش مری اور ہزار خان کے راستے جدا ہو چکے تھے۔

مری اور دیگر بلوچ نوجوانوں سمیت نئی نسل بڑی ہو چکی تھی اور ان میں سے کئی نوجوان دوران جلاوطنی سابقہ سوویت یونین اور مشرقی یورپ کی یونیورسٹیوں سے بھی پڑھ کر آئے جن میں بالاچ مری، ہزار خان مری کا بیٹا جمعہ خان، بلوچی شاعر و دانشور عبداللہ جمالدینی کا بیٹا دوستین اور کئی بلوچ نوجوان شامل ہیں۔ بلوچ قوم پرست پارٹیوں نے ضیاء کی موت کے بعد ہونے والے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا جس میں ڈاکٹر عبدالحئی اور اختر مینگل کی بی این وائی ایم اور بی این اے کئی نشستیں جیت کر آئیں جبکہ غوث بخش بزنجو جیسے مدبر سیاست دان شکست کھا گئے۔

اگرچہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے دونوں ادوار میں بالترتیب اکبر بگٹی اور اختر مینگل کی سربراہی میں بلوچستان میں مخلوط حکومتیں قائم ہوئیں لیکن ان کا عالم یہ تھا کہ اکبر بگٹی کی حکومت بینظیر جیسی جمہوری کہلانے والی وزیر اعظم نے برطرف کر کے گورنر راج نافذ کر دیا جبکہ اکبر بگٹی کے مخالف کلپر قبائل کو بینظیر حکومت نے پنجاب میں پناہ اور سرپرستی دے رکھی تھی۔ نواز شریف دور میں اختر مینگل ایسا وزیر اعلیٰ تھا کہ اس کے صوبے میں چاغی میں نیوکلیئر دھماکے کی خبر خود انہوں نے بی بی سی پر سنی تھی۔

فوجی آمر پرویز مشرف جو خود بلوچستان میں بطور میجر متعین رہا تھا، بلوچوں کیلئے ایسا ثابت ہوا جیسا صدام حسین عراق میں کردوں کیلئے ثابت ہوا تھا۔ انہوں نے کہا؛ 'یہ 1970 کا زمانہ نہیں ہے۔ ان (منحرف سرداروں) کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ وہ کس چیز سے ہٹ ہوئے ہیں'۔

ایک خاتون ڈاکٹر شازیہ خالد کے ساتھ فوجی کیپٹن حماد کی پی پی ایل کالونی سوئی میں جنسی زیادتی کے خلاف ردعمل میں اکبر بگٹی اور ان کے بگٹی قبائل سمیت تمام بلوچ سراپا احتجاج بن گئے اور مشرف آمریت نے انصاف کے بجائے ریپسٹ فوجی کیپٹن کا دفاع کیا جس پر فوج اور بلوچوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ فوج کی طرف سے اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچ بے چینی اور بغاوت مکمل علیحدگی کی تحریک کی شکل اختیار کر گئی جسے بلوچ قوم پرست اور ہمدرد 'قومی آزادی کی جنگ' کہتے ہیں۔ پاکستان کی فوج نے دشمن کو تو مفتوح نہیں بنایا لیکن بلوچستان کو فتح کرنے کیلئے پل پڑی۔

ہزاروں کی تعداد میں بلوچ قوم پرستوں، ان کی خواتین اور بچوں کا گمشدگیوں کی صورت میں اغواء اور پھر سینکڑوں قتل اب پاکستان کی قومی دفاعی پالیسی کا حصہ لگتے ہیں۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ بلوچ آزادی کا نعرہ اب عوامی سطح تک پہنچ چکا ہے۔ مشرف، کیانی، پاشا اور یکے بعد دیگرے ان کی جگہ لینے والوں کی پالیسی کے تحت بلوچستان سمیت پورا پاکستان 'انٹیلی جنس ریپبلک آف غائبستان' بنا ہوا ہے جبکہ سیاسی حالات بدل چکے ہیں اور بلوچ بین الاقوامی مسئلہ بننے لگا ہے۔

پاکستان کا فوجی جاسوسی ڈیتھ سکواڈ اب بلوچ خواتین کو قتل کرنے لگا ہے، جیسے کراچی میں نواب اکبر بگٹی کی پوتی اور کینیڈا میں کریمہ بلوچ کے ساتھ ہوا۔

'دفاع پاکستان' جیسی دہشت گرد تنظیمیں جو کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو قتل کرنے میں ملوث ہیں، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی جیسی اور دیگر ایسی جہادی تنظیمیں جنہیں فوج کا آشیرواد حاصل ہے، اب وہ بلوچستان میں جہاد کے نام پر فوج کی حمایت میں الشمس اور البدر بننے جا رہی ہیں۔

پاکستانی میڈیا میں بلوچوں کی آواز بین الاقوامی سطح پر سنے جانے پر ایک ماتم بپا ہے۔ اب 18 ویں ترمیم ہو کہ 20 ویں ترمیم، حقوق آغاز بلوچستان ہو یا محسن نقوی کی بڑھکیں؛ یہ بلوچستان کے مسئلے کیلئے ایسے ہیں جیسے کینسر کے مریض کا شیر مارکہ گولی یا پیناڈول سے علاج کیا جائے۔ یہ بلوچستان میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہونے کی بات کرتے ہیں۔ بلوچ کہتے ہیں اگر ان کو واقعی غیر ملکی حمایت حاصل ہوتی تو وہ کب کے آزاد ہو چکے ہوتے۔