Get Alerts

سندھو دیش ریوولیوشنری آرمی: پاکستان سے علیحدگی پسند تحریک کے پیچھے کون؟

سندھو دیش ریوولیوشنری آرمی: پاکستان سے علیحدگی پسند تحریک کے پیچھے کون؟
گذشتہ پانچ اور چھ اکتوبر کی شب نوابشاہ کے نزدیک خیرپور میرس ضلع میں کوٹ لالو سٹیشن ریلوے لائن پر کراچی سے براستہ پاک پتن لاہور جانے والی ٹرین فرید ایکسپریس کے گزرتے ہی پٹڑی پر دھماکہ ہوا جس سے دو، ڈھائی فٹ گڑھا پڑ گیا۔

یہ دھماکہ بم ڈسپوزل سکواڈ کے عملے کے مطابق ریموٹ کنٹرول سے کیا گیا تھا اور بم میں دھماکہ خیز دیسی ساخت کا مادہ استعمال ہوا تھا۔

اس کے ٹھیک پانچ دنوں بعد نوابشاہ شہر جس کا اب نام بینظیر آباد رکھا گیا ہے میں سرکٹ ہائوس کے نزدیک ایک دفتر پر کریکر سے حملہ ہوا اور کہا جاتا ہے کہ یہ دفتر انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کا تھا۔ اس واقعے میں کم از کم ایک شخص زخمی ہوا۔

5 اکتوبر کو ہی لاڑکانہ کے قریب قمبر شہر میں موٹر سائیکل سوار افراد کی فائرنگ سے دو اشخاص قتل ہوئے۔ قتل ہونیوالے عمران اور عبداللہ مزدور تھے جو ہر سال چاول کے فصل کی کٹائی پر مزدوری کرنے آتے تھے اور ان کا تعلق رحیم یار خان سے تھا۔

لاڑکانہ شہر میں وی آئی پی روڈ پر المرتضیٰ ہائوس کے نزدیک کھوڑو ہائوس سے زیادہ دور نہیں اپنی دکان پر بیٹھا دکاندار تنویر راجپوت بھی دو موٹر سائیکل سواروں کے پستول کی فائرنگ سے قتل ہوا۔

اس سے قبل 11 ستمبر کو ضلع دادو کے میہڑ شہر میں کاروں کے شو روم پر حملے میں وہاں بیٹھے شو روم کے مالک خان محمد کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

ان تمام کارروائیوں کی ذمہ داری سوشل میڈیا پر اور اور سندھ میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نمائندوں کے واٹس ایپ پر یا پھر کن کیسوں میں جائے واردات (جیسا کہ ریل کی پٹڑیوں پر دھماکوں والی سرزمین کے قریب) پر پمفلٹس کے ذریعے خود کو " سندھو دیش ریوولیوشنری آرمی" کہلوانے والی ایک تنظیم نے قبول کیں۔ حال ہی میں قمبر، لاڑکانہ، اور میہڑ اور دوسرے مقامات پر قتل ہونیوالے افراد لسانی طور پنجابی، سرائیکی اور پشتو بولنے والے تھے۔ کئی دنوں سے سندھ میں پشتو اور پنجابی یا سرائیکی بولنے والے شہری بھی اس تنظیم کی ایسی دہشتگردانہ کارروائیوں کے نشانے پر ہیں۔

train-attack-Sindh-Desh-Revolutionary-Front

14 اگست 2021 کو مواد گوٹھ کراچی میں لوگوں سے بھرے ٹرک پر دستی بم سے حملہ ہوا جس میں پانچ بچوں سمیت بارہ افراد قتل ہوئے۔ قتل ہونیوالے پشتو بولنے والے تھے۔ اگرچہ اس کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی لیکن اسی 14 اگست والے دن تمام سندھ میں ایک ہی وقت اور ایک ہی دن ایسے حملوں کی نوعیت اور طریقہ ہائے کار کو دیکھتے ہوئے متعلقہ تفتیش کار چاہے خود سندھی قوم پرست حلقے سندھو دیش آرمی کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دے رہے۔

اس سے قبل سال 2020 میں کراچی اور گھوٹکی میں رینجرز پر ترتیب وار لیاقت آباد میں دستی بم سے ایک رینجرز اہلکار اور گھوٹکی میں بم دھماکے میں رینجرز سمیت تین افراد ہلاک ہوئے تھے۔

سندھو دیش ریولوشنری آرمی نے 2013 میں کراچی میں چینی سفارتخانے کے باہر ایک دھماکے، 2016 میں کراچی کے علاقے گلشن حدید میں چینی انجینیئرز کی گاڑی کو نشانہ بنانے کے علاوہ سکھر کے قریب سی پیک منصوبے کے اہلکاروں پر حملے کی بھی ذمہ داری قبول کی تھی۔

اس تنظیم کی پہلی کارروائی ذوالفقار آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے دفتر کے باہر بم دھماکہ بتایا جاتا ہے۔

جیسا کہ حالیہ دنوں میں قمبر شہر میں قتل کیے جانیوالے دو افراد کیلئے سندھو دیش ریوولیوشنری آرمی نے سوشل میڈیا پر اپنے صفحات پر دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے "آئی ایس آئی کے دو پنجابی ایجنٹوں کو قتل کیا ہے" اور نیز یہ کہ "پنجابی اور پٹھان و افغانی سندھ خالی کریں"۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں مقتولین عمران اور عبداللہ کا تعلق رحیم یار خان سے تھا اور وہ سرائیکی بولنے والے تھے۔ یہ دونوں مزدور پیشہ لوگ چاول کی فصل کی کٹائی کے دنوں میں مزدوری کرنے ہر سال قمبر شہر آتے تھے (قمبر شہدادکوٹ اور آس پاس کے علاقے چاول کی کاشت اور رائیس ملوں کیلئے مشہور ہیں) اور اس حملے والی رات وہ چاول کی دکان پر ہی سو رہے تھے۔

میہڑ میں کار شو روم پر قتل ہونیوالا شخص شہر میں برسوں سے باشندہ پشتو اور سندھی ایک ساتھ بولنے والا تھا۔ سندھ میں بے شمار پنجابی اور پٹھان خاندان برسوں صدیوں سے آباد ہیں اور وہ دو لسانی ہیں۔ سندھی پنجابی اور سندھی پشتو بولنے والے۔

سندھو دیش ریوولیوشنری آرمی (ایس آر اے) کی طرف سے فرید ایکسپریس کے گزرتے وقت اس کی پٹڑی پر دھماکے کے متعلق بھی سوشل میڈیا پر دعوے میں کہا گیا ہے کہ "پنجابی، پٹھان سندھ خالی کر جائیں"۔ نیز یہ بھی کہ " سندھ کے مالک سندھی ہیں اور غیر سندھی سندھ خالی کریں۔"

دعویٰ کرنے والا خود کو سوڈھو سندھی نام سے سندھو دیش ریوولیوشنری آرمی کا ترجمان تو کبھی کمانڈر شاہ عنایت بتاتا ہے۔ اس تنظیم کی اندرونی کہانیاں اور جم پل جاننے والے کہتے ہیں کہ "سوڈھو سندھی" ہو یا "کمانڈر شاہ عنایت"، یہ دونوں جعلی نام ایک ہی شخص اصغر شاہ کے ہیں جو سندھو دیش ریولیوشنری آرمی قائم کرنے کا بانی اور سربراہ ہے۔

اصغر شاہ کیلئے متضاد اطلاعات ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان اور بھارت میں تھا۔ ان دنوں غالباً ایران میں ہے۔ جب کہ اس تنظیم کا نمبر دو ذوالفقار خاصخیلی جو رشتے میں اصغر شاہ کا سالا بھی ہے اور جو جرمنی سے سندھو دیش ریوولیوشنری آرمی کی کارروائیاں چلا رہا ہے، سندھ میں ایسی کارروائیاں کرنے والوں سے رابطے رکھے ہوئے ہے۔ اصغر شاہ اور ذوالفقار خاصخیلی کے بعد جو ایس آر اے کی لیڈرشپ میں متحرک شخص ہے وہ امتیاز خاصخیلی نام کا بتایا جاتا ہے۔

Asghar-Shah-Sindhu-Desh
اصغر شاہ


سندھو دیش ریوولیوشنری آرمی کو پاکستانی حکومت نے کالعدم قرار دیا ہوا ہے۔ سندھو دیش ریوولیوشنری آرمی پاکستان میں تین سندھی تنظیموں جیے سندھ متحدہ محاذ (جسمم) اور سندھ لبریشن آرمی (ایس ایل اے) جس کا سربراہ شفی برفت ہے (جو آج کل جرمنی میں میں اپنے ساتھیوں اور خاندان سمیت سیاسی پناہ لیے ہوئے ہے) اور جیے سندھ قومی محاذ (جسقم) آریسر گروپ میں سے ایک ہے جو اب تک سندھ میں کراچی سمیت تازہ ترین دہشتگردانہ کارروائیاں قبول کرنے، ان میں سرگرم ہونے کا دعویٰ کرتی آ رہی ہے۔ ان کارروائیوں کا ہدف زیادہ تر سندھ میں رہنے والے پنجابی، پشتون، سرائیکی بولنے والے اور سی پیک منصوبے پر کام کرنیوالے چینی شہری ہیں۔

اس سے قبل 2020 میں یہ تنظیم سندھو دیش آرمی کراچی گلشن حدود میں چینی انجینئروں کی ہلاکت، لیاقت آباد کراچی اور گھوٹکی میں رینجرز اہلکاروں کی دہشتگردانہ بم حملوں میں ہلاکتوں کی ذمہ داریاں اور زیادہ دن نہیں ہوئے کراچی میں جماعت اسلامی کی کشمیر ریلی پر حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرتی رہی ہے۔

اصغر شاہ ہے کون ؟

پچاس سالہ سید اصغر شاہ لاڑکانہ کی تحصیل ڈوکری کے گائوں چھتو واہن میں پیدا اور بڑا ہوا تھا۔ اور وہاں چھوٹی موٹی پیری مریدی پر گزارا کرنے والے سید غلام مصطفیٰ شاہ کا بیٹا ہے۔ سید غلام مصطفیٰ کی دو شادیاں تھیں۔ اصغر شاہ کا شروعاتی تعلق جیے سندھ سٹوڈنٹس فیڈریشن سے رہا اور پھر جامشورو پاور پلانٹ پر ملازمت حاصل کرنے کے بعد وہ جیے سندھ کی ہی مزدوروں کی ذیلی تنظیم 'جیے سندھ پورہیت سنگت' میں سرگرم رہا۔ اسی پاور پلانٹ جامشورو پر اس کا تعلق وہاں پہلے سے ہی کام کرنیوالے ملازمین ممتاز بھٹو اور اس کے بھائی مظفر بھٹو اور جامشورو یونیورسٹی کالونی میں ہی رہنے والے شفی برفت سے ہوا۔ اصغر شاہ کا تعلق شفی برفت کی تنظیم جیے سندھ متحدہ محاذ یا جسمم سے ہوا۔

2002 میں شفی برفت نے بھی اگرچہ جیے سندھ کے دیگر گروپوں کی طرح " سندھو دیش مقدر ہے، جی ایم سید رہبر ہے" کے نعرے کے تحت سندھ کی پاکستان سے علیحدگی اور آزاد سندھو دیش کے قیام کو اپنا پروگرام بتایا لیکن اس نے اپنی الگ تنظیم جیے سندھ متحدہ محاذ قائم (جسمم) کرنے کا اعلان کیا۔ اب جسمم نے ایک نیا نعرہ اختیار کیا 'جدوجہد کا ایک ہی ڈھنگ، گوریلا جنگ گوریلا جنگ'۔ اگرچہ یہ لوگ جی ایم سید کے عدم تشدد کے بھی خود کو پیروکار بتاتے تھے لیکن سندھ میں اب تخریبی کارروائیاں کرنا شروع کیں۔ شفی برفت کا تعلق دادو ضلعے کے پہاڑی علاقے اور سخت جان برفت قبیلے سے ہے جن کا علاقہ بلوچستان کی سرحد سے بھی لگتا ہے۔ شفی برفت 'کمانڈر دریا خان' کے نام سے اپنی تنظیم کی رد سے کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرتا رہا ہے۔

ان کارروائیوں میں شروع شروع میں ہائی پاور ٹرانسمیشن واپڈا کے کھمبوں کو بارود سے اڑانا، نیشنل بنک آف پاکستان کے اے ٹی ایمز کو نشانہ، اور دیسی ساخت کے بموں یا کریکروں کے ذریعے دھماکے کرنا شامل تھا۔ شفی برفت جسمم کی ایسی کارروائیوں کی ذمہ داری کا دعویٰ 'کمانڈر دریا خان' کے نام سے کرتا رہا۔

ہتھیاروں کو وہ 'مرچ مصالحہ' دستی بم اور کریکرز کو وہ 'تھیلی' کہتے ہیں۔ ان دیسی ساخت کے بموں کو جیے سندھ کے گروپوں میں 'میڈ ان سندھو دیش' کہا جاتا ہے جس کی کہانی بہت پرانی ہے۔ ایسا ہی ایک بم 1972 کے لسانی فسادات کے دوران دادو شہر کے ایک گھر پر بنایا جا رہا تھا کہ بارود سے دھماکہ ہوا جس میں ایک کارکن علی جان کے ہاتھ اڑ گئے تھے۔ وہ کئی برسوں سے لندن میں خود ساختہ جلاوطنی میں ہے۔

جامشورو پاور پلانٹ پر جسسم کے ممتاز بھٹو کے رہائشی کوارٹر میں دھماکہ ہوا تھا جو کہتے ہیں کہ بم بنایا جا رہا تھا کہ بارود پھٹ گیا۔ اس کیس میں ہی ممتاز بھٹو اور اس کے بھائی مظفر بھٹو کو سکیورٹی ایجینسیوں نے اٹھا کر غائب کر دیا تھا۔ مظفر بھٹو جسمم کا سیکرٹری جنرل تھا تو اصغر شاہ سینیئر نائب صدر۔ مظفر بھٹو دو مرتبہ غائب کیا گیا۔ جب دوسری بار غائب ہوا تو پھر اس کی مسخ شدہ لاش ہی نیشنل ہائی وے پر ملی۔ مظفر بھٹو کا ایک بھائی شاہنواز بھٹو ان دنوں جرمنی میں ہے۔

2001 میں ہی لندن اور واشنگٹن میں بلوچ اور سندھی قوم پرستوں کا اتحاد بن گیا تھا جسے بظاہر نام 'سندھی بلوچ فرنٹ' دیا گیا تھا۔ بالاچ مری اور برادران ہربیار و دیگر کے لندن میں ورلڈ سندھی کانفرنس اور واشنگٹن میں ورلڈ سندھی انسٹیٹیوٹ سے قریبی روابط رہے۔

2005 میں جب پاکستان پیٹرولیم لمیٹیڈ سوئی بلوچستان میں متعین سندھی خاتون ڈاکٹر شازیہ خالد کے ساتھ انتہائی فوجی کمانڈوز کے پہرے والی پی پی پی ایل کالونی میں ریپ ہوا تو بلوچ رہنما اور سردار نواب اکبر بگٹی پاکستانی ریاست اور فوج سے تصادم میں آئے جس میں پہلی جھڑپ میں دس پیرا ملٹری والے ہلاک ہوئے تھے۔ باقی سب تاریخ ہے۔

سندھ میں بلوچ عسکریت پسندوں سے تعلق کے شبے اور کارروائیوں میں جسمم و دیگر قوم پرست گروپوں کے نوجوان و کارکن غائب ہونے لگے جن میں سمیع کلہوڑو اور ایک سال بعد اپنے ہی گروپ جیے سندھ تحریک کے سربراہ اور امریکی شہری ڈاکٹر صفدر سرکی بھی شامل ہیں۔ سمیع کلہوڑو پولیس تحویل سے سخت تشدد میں زخمی ہو کر فرار ہوا اور کچھ دنوں کے بعد ہی فوت ہو گیا۔

جسمم کا ذوالفقار کولاچی اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ اختر کالونی کراچی سے گرفتار ہوا۔

ان گروپوں کی اندرونی کہانیاں جاننے والے کہتے ہیں کہ جسمم کے 'گوریلوں' کی تربیت بلوچستان میں فراری کیمپوں میں ہوئی۔ ان دنوں شفی برفت کے فینسی جوتوں اور جیکٹ کے ساتھ پہاڑوں کی کسی بڑے پتھر پر بیٹھے بندوق ہاتھ میں لیے تصاویر سوشل میڈیا پر عام ہوئیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں فراری کیمپوں میں ہے مگر اس کے مخالف کہتے ہیں وہ جامشورو سے فوٹو بھیج رہا ہے۔

پھر سوشل میڈیا اس طرح کے فوٹو اور نعروں والے فیس بک پر آنیوالے نوجوان ریاستی ایجینسیوں اور شفی برفت کا ٹارگٹ بنتے رہے۔

ریاستی ایجینسیاں انہیں مبینہ طور پر اٹھاتیں اور غائب کر دیتیں۔ شفی برفت اور اس کی جسمم ایسے نوجوانوں کو اپنے عزائم و سیاست کیلئے کچا مال سمجھ کر بھرتی کرتے رہے۔

مجھے شفی برفت کے ایک سابق دست راست نے بتایا تھا کہ سندھ میں جو لوگ اٹھائے جا رہے ہیں، ان میں سے کئی یا تو تربیت لے کر آئے ہیں یا پھر ان کے روابط ہیں۔ شفی برفت کا یہ سابق دست راست اکثر بھارتی میڈیا اور خاص طور بھارتی سرکاری میڈیا پر دیکھا جاتا ہے۔

غالباً 2014 میں شفی برفت بلوچستان کے راستے افغانستان کے صوبے نیمروز پہنچا جہاں بلوچ عسکریت پنسندوں کی ایک بڑی تعداد پہلے سے ہی موجود تھی۔ افغانستان کے صوبے جات نیمروز اور ہلمند میں اکثریت بلوچوں کی ہے۔ یہاں بلوچ لبریشن آرمی (بے ایل اے) کے کیمپ بالاچ مری کی سربراہی میں تھے۔

لاڑکانہ سے سرائی قربان تھا جس کے اثر کے کئی ساتھی بھی جسمم میں شامل ہوئے۔ جب شفی برفت نے سرائی قربان کھہاوڑ کو جسمم کا سینیئر نائب صدر بنایا تو اصغر شاہ نے اس سے الگ ہو کر جیے سندھ انقلابی پارٹی بنائی۔

جاننے والے جانتے ہیں کہ اصغر شاہ سمیت سندھی عسکریت پسندوں کی تربیت بلوچ عسکریت پسند اسلم عرف استاد اسلم بلوچ نے کی۔ اسلم بلوچ کراچی کے چینی قونصل خانے پر حملے میں ملوث بتایا جاتا ہے۔ اسی لئے کچھ عرصہ قبل اسے افغانستان میں پاکستانی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹوں نے مبینہ طور پر قتل کر دیا۔ جب کہ اس سے بہت قبل بالاچ مری ہلمند کے پاس ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہو گیا۔ نیز شفی برفت افغانستان سے جعلی بھارتی پاسپورٹ پر دبئی پہنچا جہاں وہ کافی عرصے تک قیام پذیر رہا۔ شفی برفت نے دبئی میں دو بزنس کمپنیاں (ایک مینٹیننس کمپنی اور دوسری فیشن کمپنی) کھولیں جن کے اکائونٹس میں حوالہ یا ہنڈی کے ذریعے ملنے والے پیسوں کو جمع کیا گیا۔ دبئی میں پہلے سے موجود 'سندھودیش کاز' کے کچھ حامیوں نے اسی سلسلے میں شفی برفت اور اس کے ساتھیوں کی مدد کی۔ جسمم کی اندرونی کہانیاں جاننے والے بتاتے ہیں کہ قندہار میں قائم بھارتی قونصل خانے کی طرف سے جعلی بھارتی پاسپورٹ پر شفی اور اس کے ساتھی دبئی پہنچے۔ اسی طرح اس کا خاندان بھی جعلی پاسپورٹس پر دبئی پہنچا۔ دبئی سے اپنی کمپنی کے دستاویزات اور اکائونٹس کی بنیاد پر شفی برفت اور اس کے کچھ لیکن اہم ساتھی جرمنی پہنچے جہاں وہ آج کل رہائش پذیر ہیں۔

شفی برفت نے جرمنی پہنچ کر اعلان کیا کہ وہ اب سفارتی عالمی محاذ پر سندھ کا کیس لڑیں گے اور پہلی بار 2 ستمبر 2015 کو شفی برفت اور اس کے ساتھی جنیوا، سوئٹزرلینڈ میں اقوام متحدہ کے ہیومن رائیٹس کاؤنسل کے اجلاس کے موقع پر منظر عام پر آئے۔

شفی برفت کے اپنے خاندان سمیت جرمنی جا کر پہنچنے پر اس کے کارکنوں اور ساتھیوں میں مایوسی ہوئی۔ اندرونی کہانیاں جانیوالے جانتے ہیں، یورپ جا کر شفی نے 'سفارتی محاذ' کھولنے کے نام پر سندھ میں تخریبی کارروائیاں جن کو وہ 'مزاحمت' کہتے ہیں، بند کر دیں۔ اس پر اس کے 'گوریلوں' اور پہلے سے ہی ناراض ساتھی اور جسمم کے سابق سینیئر نائب صدر اصغر شاہ نے 'اصل کاذ سے مکر جانا' قرار دیا۔ اصغر شاہ جو پہلے ہی جسمم میں اس کی جگہ سرائی قربان کھہاوڑ کو سینیئر نائب صدر بنانے پر الگ ہو کر جیے سندھ انقلابی محاذ نام سے ایک تنظیم قائم کر چکا تھا۔ اب سندھو دیش ریولیوشنری آرمی قائم کی۔ اور اب غیر ملکی پیسے پر پہلے شفی برفت اور اس کی جسمم میں کام کرنیوالوں نے اصغر شاہ کی تنظیم سندھو دیش ریولیوشنری آرمی جوائن کر لی۔

دھماکوں اور فائرنگ کے 60، 70 ہزار روپے فی نوجوان ادا کیے جاتے ہیں اور ہلاک ہو جانیوالے کو ایک لاکھ سے ڈیڑہ لاکھ۔ جاننے والے حلقوں کے مطابق ایک لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ امریکی ڈالر ماہانہ ان تنظیموں کو دبئی میں بذریعہ حوالہ یا ہنڈی ادا کیا جاتا ہے۔ ایسی کارروائیوں کا ہدف سی پیک کی تنصیبات اڑانے کے بعد ان تنظیموں کی وقعت بڑھی ہے۔ ایسے حلقوں کا کہنا ہے کہ دبئی بھارتی اور پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا اہم مرکز ہے۔ دبئی میں مجھے بتایا گیا کہ بھارتی بزنس شخصیات اور سیٹھوں میں را کا بہت وسیع نیٹ ورک ہے اور کئی لوگ اس کے ملازم بھی ہیں۔ انہی لوگوں کے ذریعے حوالہ یا ہنڈی طریقے سے پیسے ان تنظیموں کے کارندوں کو ہر سہ ماہی، دو ماہی مل جاتے ہیں۔ اور مختلف خرید فروخت کے جعلی انوائسز کے ذریعے ایسی تنظیموں کی جعلی کمپنیاں ایسے کالے دھن کو سفید کرتی ہیں۔ شارجہ اور دبئی میں مزدور پیشہ لوگوں کا بھی ان کی ضروریات اور مجبوریوں کے تحت ایسی تنظیموں نے استحصال کیا ہوا ہے۔ دبئی میں صنعتی علاقوں میں زون 'سات، دس، گیارہ' میں کم از کم بیس ایسی جگہیں ہیں جہاں سکریپ کے کاروبار ہیں اور یہ ان تنظیموں کے لوگ ایسے مزدور پیشہ لوگوں کو اپنے خاندانوں کو پیسے بھیجنے کے نام پر ہنڈی یا حوالہ میں استعمال کرتے ہیں۔ حال ہی میں قمبر کے قریب پاکستانی فوجی ایجینسیوں نے دبئی میں کام کرنیوالے ایک مزدور پیشہ نور چانڈیو کے اہل خانہ جن میں چھوٹی بچیاں اور عورتیں بھی شامل ہیں کو اٹھا کر غائب کر دیا ہے جس پر سندھ کے سنجیدہ سیاسی اور سماجی حلقوں میں بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اگرچہ کسی بھی وجہ و جواز کی بنا پر کسی کو بھی غائب کرنا غیر آئینی و قانونی اور انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے پر جاننے والے کہتے ہیں کہ مزدورپیشہ نور چانڈیو کو ہنڈی یا حوالے میں استعمال کیا گیا ہے۔

باہمی اختلافات اور جھگڑوں (زیادہ تر لڑائی پیسوں پر ہوتی ہے) اور جرمن حکومت کے پاس ایک دوسرے کی شکایات کے بعد اب اطلاعات یہ ہیں کہ جسمم یا شفی برفت کے 'تھیلے' بند کر دیے گئے اور وہ کہیں کتابوں کی جلد سازی پر گزارا کر رہا ہے۔ اب بھارت اور اس کی پراکسی کی تمام دلچسپی سندھو دیش ریوولیوشنری آرمی اور اصغر شاہ پر ہے۔ اب ہر شب اکثر الطاف حسین اور شفی برفت ٹیلی فون پر “ہیپی آور” طویل مجلس کرتے ہیں۔

کمیٹی فار مِسنگ پرسنز کی اب سربراہ سورٹھ لوہار ہے جس کے والد ہدایت لوہار کو 2017 میں ریاستی ایجینسیوں نے نصیرآباد سے غائب کیا تھا۔

ہدایت لوہار، خادم آریجو اور کئی دیگر افراد اصغر شاہ کی سندھو دیش آرمی کی کارروائیوں اور ان سے روابط کے شبے یا تفتیش میں اٹھائے گئے تھے۔ اب تک جسمم شفی برفت کی سندھ لبریشن آرمی اور اصغر شاہ کی سندھو دیش آرمی سے تعلق کی بنا پر کوئی مل ملا کر ساٹھ کے قریب نوجوان پاکستانی ایجینسیوں کے ہاتھوں غائب ہوئے اور مبینہ طور پر کئی مارے جا چکے ہیں۔ پچاس کے قریب لوگ اب بھی ایجینسیوں کی تحویل میں غائب ہیں۔ کچھ ماہ قبل اب پاکستان ورکرز پارٹی کے سرگرم رکن سینگار نوناری کو بھی نصیرآباد سے گرفتار کر کے غائب کر دیا گیا تھا جسے ملک گیر احتجاج پر رہا کیا گیا۔ سینگار نوناری کے لئے بتایا جاتا ہے کہ ان کا اوائلی تعلق جسمم شفی برفت سے تھا۔ سینگار نوناری کو ایک ماہ کے اندر رہا کردیا گیا ہے لیکن زبردست جسمانی تشدد کے بعد۔

سندھ میں لاڑکانہ، شہدادکوٹ، قمبر، نصیر آباد، باقرانی، ڈوکری، رادھن، میرو خان میہڑ، سہون، جامشورو، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، نوابشاہ، بچھیری، خیرپور میرس گھوٹکی، بڈانی اور کشمور میں سندھو دیش ریوولیوشنری آرمی کے کیڈرز کے حلقہ جات اثر یا پاکٹس ہیں۔ انہی علاقوں سے ایس آر اے یا سندھو دیش ریوولیوشنری آرمی کیلئے نوجوان بھرتی ہوئے ہیں۔ کشمور سے تعلق رکھنے ایک سجاد شاہ نامی نوجوان کے بھائیوں نے سوشل میڈیا نے سوشل میڈیا پر الزام لگایا ہے کہ ان کا بھائی اصغر شاہ افغانستان میں یرغمال بنایا ہوا ہے۔

بیروزگاری، مہم جوئی، نیم خواندگی، جذباتیت، باہر ممالک میں جانے کا شوق، ٹشن بازی (ٹیکہ پسندی جسے سندھی میں لئہ بازی بھی کہا جاتا ہے) وہ اسباب ہیں جس پر یہ نوجوان سندھو دیش آرمی کو اپنی کارروائیوں کیلئے کچے مال کی طرح مہیا ہوتے ہیں۔ بالکل وہی طریقہ جو کئی کیسوں میں جہادی تنظیمیں اپناتی ہیں۔

لاڑکانہ میں تنویر راجپوت کے قتل کی جائے واردات کے آس پاس لگی سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے حملہ آوروں میں سے ایک یوسف چانڈیو کو گرفتار کیا گیا۔ یوسف چانڈیو نے دوران تفتیش اعتراف کیا کہ اسے پستول اور ستر ہزار روپے ایک کامران چانڈیو نامی نوجوان نے فراہم کیے تھے۔ یہ گرفتار شدہ دو دفعہ پہلے غائب کیے جانیوالے عاقب چانڈیو کا سالا ہے۔ عاقب چانڈیو دونوں مرتبہ طویل مدت تک ریاستی خفیہ ایجینسیوں کے ہاتھوں غائب رہا تھا۔ عاقب چانڈیو جب دوسری دفعہ غائب ہوا تو اس دوران تفتیش انٹیلیجنس ایجینسیوں نے اسے ساتھ لا کر اس کی نشاندہی پر ایک نوجوان ارشد چانڈیو کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔ ارشد چانڈیو کے گھر پر چھاپے کے دوران عاقب چانڈیو کی نشاندہی پر اسلحہ اور دیسی ساخت کے بم بنانے کا ساز و سامان برآمد کیا گیا تھا۔ اس برآمد شدہ ساز و سامان میں ایک ہزار کی تعداد میں ڈھائی ڈھائی انچ کے ڈیٹونیٹر، ہزار کے قریب ڈرائی بیٹری سیل، واشنگ مشینوں کے ٹائمرز، اور دھماکہ دار بارود شامل تھا۔ لیکن تفتیش کے بعد یہ ثابت ہوا کہ نوجوان ارشد چانڈیو اور اس کے گھر والے اس تخریبی ساز و سامان کی ان کے گھر میں موجودگی سے بے خبر تھے۔ پھر بھی ارشد چانڈیو کو چھڑانے کیلئے انتہائی اعلیٰ سطح پر اثر روسوخ استعمال کیا گیا کہ کھاریاں کے غالباً جنرل کمانڈنگ آفیسر یا جی او سی میجر جنرل جاوید دوست چانڈیو کی مدد سے ارشد چانڈیو کو رہائی ملی کہ ان کا تعلق ایک ہی گائوں سے ہے۔ عاقب چانڈیو کہا جاتا ہے کہ دو دفعہ غائب رہ کر رہائی کے بعد اب 'ڈبل ایجنٹ' کے طور پر کام کرتا ہے۔

سندھی قوم پرست اور علیحدگی پسند سیاست پر دہائیوں سے نظر رکھنے والے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ "سندھی قوم پرست گروپوں اور ایسی عسکریت پسند تنظیموں دونوں میں خفیہ ایجینسیوں را اور آئی ایس آئی کے کنٹرول کا جھگڑا ہے۔ کوئی شاذ و نادر ہی ایسا گروپ ہوگا کہ جو ان سے تعلق سے مبرا ہو"۔

سندھی قوم پرست گروپوں میں جو سندھو دیش کی بات کرتے ہیں باوجود عدم تشدد میں یقین رکھنے کے دعوؤں کے، ہتھیاروں کی سیاست یا عسکریت پسندی کی ایک باقاعدہ تاریخ رہی ہے جس کے بانی کوئی اور نہیں، خود جی۔ ایم۔ سید بتائے جاتے ہیں۔ 1970 اور 80 کی دہائیوں میں جی۔ایم سید نے اپنے حلف یافتہ کارکنوں کیلئے گوریلا لڑائی اور تربیت کیلئے ایک کتاب تحریر کی۔ یہ ان کی سندھو دیش تحریک کے بند قریبی حلقوں میں تقسیم کی اور پڑھی جاتی تھی۔ سندھی زبان میں 'رہبر' عنوان سے اس کتاب میں جی۔ایم سید لکھتے ہیں کہ سندھو دیش کے سپاہیوں کو ہمیشہ نقاب پوش ہونا چاہیے، اور جنگلات میں خفیہ زندگی گزارنی چاہیے۔ مذکورہ کتاب اپنے انتہائی وفادار کارکنوں کیلئے سید کی سندھو دیش کی فکری اور عسکری تربیت کا ایک طرح رہبرنامہ یا ہینڈ بوک ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خون سے تحریر کیا ہوا حلف نامہ ایم کیو ایم کے حوالے سے سنے جانے سے بھی بہت قبل جی ایم سید کی سندھو دیش تحریک کے کارکنوں سے لیا جاتا تھا۔

GM-Syed-Book

جیے سندھ تحریک میں سندھو دیش کے پرانے حامیوں کا کہنا ہے کہ 1970-80 کی دہائیوں سے وقتاً فوقتاً جیے سندھ کے مختلف گروپوں کے لوگ سرحد پار کر کے بھارت آتے جاتے رہے تھے۔ جب کہ دادو ضلع میں ایک تربیتی کیمپ رنی کوٹ کے علاقے میں بھی قائم کیا گیا تھا جہاں بھارت سے ایک انسٹرکٹر بھی آیا تھا جو پھر ناراض ہو کر چلا گیا تھا۔ سندھو دیش تحریک میں ذرائع کا دعویٰ ہے کہ تربیتی کیمپ مقامی قبیلے کی خاتون کے ساتھ کسی سندھو دیشی کارکن کی بدتمیزی کی شکایات پر بند کر دیا گیا تھا۔ 1980 کی دہائی میں آزاد سندھو دیش کیلئے جی۔ایم سید کے ایسے حلف یافتہ کارکنوں پر مشتمل فورس قائم کی گئی تھی جسے ' سندھ سوڈھا فورس' کا نام دیا گیا تھا۔ وقتاً فوقتاً اس فورس میں شامل ہونیوالوں کے ناموں کی ایک بڑی فہرست ہے۔

میں نے جب بذریعہ واٹس ایپ صوبہ سندھ میں رہنے والے ایک پرانے جیے سندھ کے دہائیوں تک سرگرم دانشور کارکن سے سندھ سوڈھا سنگت سے لے کر سندھو دیش آرمی تک پر اس کی رائے پوچھی تو انہوں نے کہا کہ "اگرچہ مقصد صحیح ہے لیکن طریقہ ہائے کار غلط ہے"۔ اسی طرح یورپ میں رہنے والے ایک ایک پرانے سندھو دیشی کارکن سے جب میں نے یہی سوال کیا تو انہوں نے کہا "آج کی دنیا میں گوریلا جنگیں اور تشدد کے سیاسی راستے متروک ہو چکے ہیں۔ اس سے سندھ میں سینکڑوں نوجوان اور خاندان تباہ کر دیے گئے ہیں۔" لیکن دونوں مذکورہ کارکنوں کا کہنا تھا کہ "جب تک خطے میں پراکسی جنگیں ہیں، اس طرح کی کارروائیاں چلتی رہیں گی اور ایسی تنظیموں اور ایجینسیوں کے دھندے بھی۔"

لیکن سندھو دیش آرمی کے کام کو قریب سے مشاہدہ کرنیوالوں نے اصغر شاہ کی ایک بات چیت کے حوالے سے کہا کہ "جب تک سندھ میں بھوک اور بیروزگاری ہے، نوجوان سندھو دیش آرمی میں بھرتی ہو کر آتے رہیں گے۔" سندھو دیش آرمی کو اندر سے جاننے والے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جیو پولیٹیکل حالات میں نہ صرف بھارت اس پراکسی میں ملوث ہے بلکہ اب اس طرح کے گروپوں میں ایران اور متحدہ عرب امارت سمیت کچھ اور عرب ممالک بھی دلچسپی رکھ رہے ہیں۔ دبئی میں سندھو دیش آرمی کے کارندے اور را کے درمیان ان کے وسطی شخص کی گفتگو کے حوالے سے ذرائع یوں نقل کرتے ہیں: "کارروائیوں سے چند ہفتے پہلے مجھے مطلع کرنا۔ تم پر امریکہ، بھارت، یورپ اور اسرائیل کے دروازے کھول دیے جائیں گے"۔