جیے سندھ کا چھوکرا بشیر شاہانی اپنے سائیں جی ایم سید کے پاس جا پہنچا

یہی وہ چھوکرے ہیں جنہوں نے لفظ سندھ کو، سندھی شاعری کو، شیخ ایاز کی شاعری کو، اجرک کو، سرخ کلہاڑی والے جھنڈے کو، جی ایم سید کی تصنیفوں سے زیادہ نعرے کو، اس کے آبائی گاؤں سن کو، شاہ جو رسالو کو، کسی نہ کسی طرح، حالات کتنے بھی جبر کے ہوں، زندہ و پائندہ رکھا ہوا ہے۔

جیے سندھ کا چھوکرا بشیر شاہانی اپنے سائیں جی ایم سید کے پاس جا پہنچا

بشیر شاہانی نے کوئی ایک چوتھائی صدی امریکہ میں گزاری۔ انتہائی یارباش، مہمان نواز، سندھ اور سندھی نواز شخص تھا۔ مجلسی تکلم و تبسم رکھنے والا۔ اصل میں اس کا تعلق زمانہ طالب علمی سے جی ایم سید کی ' جیے سندھ تحریک' سے تھا۔ 73 برس کی عمر میں امریکی ریاست ٹیکساس میں فوت ہوا لیکن وصیت کر گیا کہ اس کے جسد خالی کو جی ایم سید کے آبائی گاؤں سن میں اپنے رہبر کی قبر کے قدموں کی طرف دفن کیا جائے۔

لاڑکانہ کے ڈوکری یعنی موہن جو دڑو کے قریبی گاؤں کی جم پل رکھنے والے بشیر شاہانی کی میت کو اس کے بیٹے، دوست، ساتھی اور احباب سندھ میں جی ایم سید کے گاؤں لے کر گئے۔ اس کے جنازے میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی جن میں جی ایم سید کے خاندان کے مردوں کے علاوہ، زیادہ تر جیے سندھ تحریک کے پرانے اور نئے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ ان پرانے نئے جیے سندھ کے کارکنوں نے روایتی طور پر شیخ ایاز کی نظم 'سندھ دیس جی دھرتی' (جسے اب وہ ایک بڑے عرصے سے سندھو دیش کا ترانہ کہتے ہیں) گا کر اسے الوداع کہا۔ اسے جیے سندھ کے سرخ کلہاڑی والے جھنڈے (جس کو ڈیزائن کرنے والا ایک میرا دوست اور آج کی نگران حکومت میں وفاقی وزیر مدد علی سندھی بھی ہے) اور اجرک کے کفن میں دفن کیا۔ اسے الوداع کہا۔ اس سے قبل انہوں نے شیخ ایاز کا الوداعی گیت بھی گایا۔

جیے سندھ کے لوگ عجیب لوگ ہیں۔ وہ چودہ، پندرہ، سولہ، بیس، تیس، چالیس سال سے ساٹھ، ستر برس کے ہو کر بھی ' جیے سندھ کے چھوکرے' ہی ہیں۔ یہی وہ چھوکرے ہیں جنہوں نے لفظ سندھ کو، سندھی شاعری کو، شیخ ایاز کی شاعری کو، اجرک کو، سرخ کلہاڑی والے جھنڈے کو، جی ایم سید کی تصنیفوں سے زیادہ نعرے کو، اس کے آبائی گاؤں سن کو، شاہ جو رسالو کو، کسی نہ کسی طرح، حالات کتنے بھی جبر کے ہوں، زندہ و پائندہ رکھا ہوا ہے۔

میں سندھی قوم پرست ہوں، نہ میں ان کے لال کلہاڑی والے جھنڈے کو مانتا ہوں اور نا ہی ان کی سیاست کو، لیکن یہ لوگ ایک کیفیت، ایک نعرے اور ان میں سے کئی ایک نظریے کا نام ہیں۔ علامتوں اور استعاروں کا نام ہیں۔ سُر اور سنگیت، اور اس کیفیت میں اپنے سر پیش کرنے والوں کا نام ہیں۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں۔ یہ ان گیتوں کو قومی گیت کہتے ہیں۔ خود قومی کارکن کہلاتے ہیں۔

میں ان چھوکروں سے پیار کرتا ہوں کہ میں خود بھی عمر کے ایک چھوٹے سے حصے میں 'جیے سندھ کا چھوکرا' رہا ہوں۔ کچھ اپنا لہو بھی شامل ہے اس تزئین گلستان میں جس پر میرا اب دعویٰ بھی نہیں کہ خوش رہو اہل چمن ہم تو سفر کرتے ہیں۔ کہ اس لیلائے وطن کے مجنوں ہزاروں ہیں۔ ان میں چوری کھانے والے بھی اور کئی خون دینے والے بھی ہیں۔

ان کی اپنی ایک لغت ہے، ایک سیاسی کلچر ہے، ایک محبت یا جیسے بوب مارلے کا گیت ہے 'ون لو'۔ جیے سندھ والوں کی محبت بھی ون لو ہے۔

جب میں جیے سندھ والے کہہ رہا ہوں نا تو اس میں وہ عادی مجرم اور بھتہ خور نہیں آتے جنہوں نے جیے سندھ کی آڑ لی ہوئی ہے۔ ان کی تعداد زیادہ بھی نہیں۔ وہ جن کو میں نے کیٹی جامشورو والے کہا تھا۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔

شریف اور معصوم جیے سندھ والے۔ عام طور پر سادہ لوح مگر جذباتی۔ یہ شہنشاہ جذبات لوگ اور اہل ہوش بھی تو اہلِ دل بھی۔ پڑھے لکھے بھی۔

یہ پیارے ایک دوسرے کو 'پیارا' کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کو گرفتار کرنے والے پولیس والوں کو بھی۔ 'آء پیارا ڈی ایس پی!'۔ ان میں سے کئیوں نے اپنی عمروں کے بڑے بالغ حصے جیلوں اور ریاستی عقوبت خانوں میں گزارے ہیں۔ اب تو سیاسی جلاوطنوں کی ایک نسل حالیہ دہائیوں میں شمالی امریکہ اور یورپ میں آ کر آباد ہوئی ہے۔ اس سے پہلے جو پیارے ڈوکری، جامشورو، کندھ کوٹ، کشمور، بدین، حیدرآباد، لاڑکانہ وغیرہ میں ملتے تھے اب وہ لندن، واشنگٹن، جنیوا، نیویارک، ٹورنٹو سمیت دنیا کے کئی شہروں میں ملتے ہیں۔ کئی پیارے پاکستان میں مارے گئے۔ کئیوں کی سڑی گلی ٹارچر شدہ لاشیں ملیں۔

لیکن یہ کہیں بھی ہوں، بس عابدہ پروین کے اس گیت 'میں کہیں بھی رہوں سندھ تیرا رہوں' کے مصداق ہیں۔ ان کا کوئی نام نہیں۔ یہ پیارے ہیں۔ ' پیارے جیے سندھ وارے'۔ ان کو کئی لوگ غلط العام میں 'کامریڈ' بھی کہتے ہیں۔ لیکن سب تو نہیں! اب تو خواتین پیاریاں بھی ہیں۔

یہ کہیں بھی ہوں، میں نے کہا نا، ان کی اپنی زبان اور ڈکشن ہے۔ یہ قسم بھی اٹھاتے ہیں تو سندھ کی اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح سندھی ادبی زبان اور شاعری بھی انہی کے دم سے ہے۔ ابراہیم منشی، نیاز ہمایونی، راشد مورائی، خاکی جویو، تاج جویو، بدر سومرو، زخمی چانڈیو، سرکش سندھی جیسے شاعر ان کے اپنے ہیں جن کی شاعری ان میں سے کئیوں کو ازبر یاد ہے۔ میں نے خود شیخ ایاز کی شاعری کو پڑھنا اور حفظ کرنا ان کے اس وقت کے سرگرم لیڈر آغا ظفر اللہ شاہین سے سیکھا تھا جب مجھے ان کے ہمراہ جیے سندھ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے دوسرے سالانہ کونشن میں دادو جانے کو سکھر سے ٹرین میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا تھا۔ ٹرین کی سبک رفتار اور چھک چھک سے زیادہ مزہ آغا شاہین کی زبان سے شیخ ایاز کی شاعری سننے میں آیا تھا۔

ان کی روزمرہ کی سیاسی زبان بھی شاعری کی طرح ہے۔ ان کے رہبر جی ایم سید کی ایک کتاب کا نام ہی 'دیار دل داستان محبت' ہے۔ ان کا سلام ہی یہ ہے 'جیے سندھ' یا کچھ کا ہے 'جیے سندھو دیش، جیے سائیں جی ایم سید

ذرا تصور کریں کہ سندھو دریا کے کنارے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پورے برصغیر کی تاریخ اپنے پاؤں کی دھول میں اور رت جگے آنکھوں میں لیے ایک 80، 90 سالہ بوڑھا شخص اور اس کے اردگرد پروانوں کی طرح مر مٹنے والے جواں سال اس کے کارکن اور عشاق۔ کوئی تو بات تھی اس بوڑھے باغی میں جس کی ضعیف العمری کو شیخ ایاز نے کیرتھر پہاڑ کی چوٹی سے تعبیر کیا تھا۔ اس بوڑھے باغی نے اپنے نوجوان عشاق سے ملاقات کو یوسف کے خریداروں کی فہرست میں نام لکھوانے اور یاقوتیاں کھانے سے تعبیر کیا تھا۔ اس کے عاشق اور کارکن پیارے جیے سندھ وارے، جیے سندھ کے چھوکرے اس بوڑھے کے مفلوک الحال سندھی گاؤں سن کو سندھ کے کعبے قبلے سے تعبیر کرتے ہیں۔ سید کی سن میں سالگرہ کے دن کو ایک تہوار سے تعبیر کرتے ہیں۔ نہ فقط اپنا جینا اور جدوجہد اس گاؤں سن اور اپنے سن کے سائیں سے منسوب کرتے ہیں بلکہ اپنا مرنا بھی۔ ان کی خواہش اور وصیت وہی ہے کہ وہ مر کر بھی سن کی مٹی میں اور اپنے رہبر کی کھلی کتاب نما سنگ مر مر کی قبر کی پائینتی کے پاس دفن ہوں۔ بشیر شاہانی نے بھی یہی کیا۔ 'اے سندھ تجھ کو الوداع، اے ہند تجھ کو الوداع'۔