بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک پاکستان کی حاکمیت کو چیلنج کر سکتی ہے

بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک پاکستان کی حاکمیت کو چیلنج کر سکتی ہے
قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں ذکر کیا ہے کہ جب وہ صدر ایوب خان کے دور میں اُس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ چین کے دورے پر گئے تو ان کی ملاقات چائنیز کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین ماؤزے تنگ سے ہوئی۔ ماؤزے تنگ نے ملاقات کے دوران پاکستانی وفد سے پوچھا کہ تمہارے مشرقی پاکستان کا کیا حال ہے؟ یہ سوال انہوں نے اپنی گفتگو میں بار بار دہرایا تو شہاب صاحب کہتے ہیں کہ ہم حیران ہوئے کہ چیئرمین ماوُ اس سوال پر اس قدر استفسار کیوں کر رہے ہیں- ہم نے بتایا کہ وہاں کے حالات ٹھیک ہیں اور وہاں ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے جس سے ملکی سلامتی کو خطرہ درپیش ہو۔ ہمارا جواب سن کر ماؤ صاحب خاموش ہو گئے مگر ان کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ ہمارے جواب سے مطمئن نہیں ہوئے اور دل ہی دل میں ہماری جہالت اور نادانی پر کڑھ رہے ہیں- یہ بات ایوب دور کی ہے اور اس کے کچھ ہی عرصے بعد ماؤزے تنگ پاکستان سے پوچھ رہا تھا کہ تمہارا مغربی پاکستان تو بچ گیا ہے ناں؟

کم و بیش چار عشرے گزرنے کے بعد پاکستان آج پھر سے ریاست کے اندر ایک اور قومی بغاوت کا سامنا کر رہا ہے۔ اس معاملے میں یہ نکتہ بھی زیر غور ہے کہ یہ قومی بغاوت ہے یا اس تنازعہ کو پاکستان مخالف اندرونی اور بیرونی عوامل قومی بغاوت بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس میں دونوں صورتیں ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک بلوچستان کے ساتھ مرکز کے مسائل چلتے آرہے ہیں۔ بلوچ قوم کے مطالبات کس حد تک منطقی ہیں یہ الگ بات ہے لیکن یہ سیاسی حقیقت ہے کہ یہ تنازعہ پرانا ہے جو کہ مختلف ادوار میں اپنی شکلیں بدلتا ہوا آج اس مقام پر ہے کہ بلوچ نوجوان ہر فورم پراپنے ساتھ کی گئی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔

اس تنازعہ میں دو مؤقف ہیں؛ ایک بلوچ قوم کا اور دوسرا پاکستان کی ریاست اور اس کے اداروں کا۔ بلوچوں کے مطابق مرکز نے ان کے ساتھ کئے گئے وعدوں پر وعدہ خلافی کرتے ہوئے بلوچستان کے ذخائر پرقبضہ کر رکھا ہے۔ ریاستی اداروں نے مختلف ادوار میں فوجی آپریشن کئے، بے گناہ لوگوں کو مارا گیا اور کافی تعداد میں لوگوں کو اٹھا لیا گیا۔ ڈاکٹر شازیہ ریپ کیس کے بعد اس سوچ کو مزید تقویت ملی کہ ریاست ہمارے رواج اور قبائلی روایات کو بھی ختم کرنا چاہتی ہے۔ آج کل سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر بلوچستان کے مسنگ پرسنز کے لئے آواز اٹھائی جا رہی ہے- جبکہ پاکستان کی ریاست اور اس کے اداروں کا مؤقف ہے کہ کسی بھی ریاست کے لئے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے ریاست کے اندر اپنی حاکمیت کو منوانا پڑتا ہے اور اپنی سکیورٹی کو پہلی ترجیح بنانا پڑتا ہے۔ جو ریاست اپنی سرحدوں کے بارے میں محتاط نہیں ہے اس کا تباہ ہونا فطری ہے لہذا بلوچستان کے اندر بغاوت یا علیحدگی کی تحریک پاکستان کی حاکمیت کو چیلنج کر سکتی ہے جس کی وجہ سے پہلے سے سکیورٹی کے مسائل میں گھرے ہوئے ملک کے لئے مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں- بلوچستان کی جغرافیائی نزاکتوں کو دیکھا جائے تو بلوچستان ایک طرف سے پنجاب، خیبر پختون خوا، سندھ اور دوسری طرف سے افغانستان اور ایران سے منسلک ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ اور قدیم سلک روڈ جیسے منصوبوں کے بعد بلوچستان کی جیو پولیٹیکل اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ سکیورٹی کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو بلوچستان اگر اس سیاسی حالت میں چاہتا ہے کہ وہ الگ ریاست کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا تو یہ بات عالمی سیاست کے حساب سے غیر فطری ہو گی کیونکہ بلوچستان ایک الگ ملک بن بھی جائے تو بلوچستان اور پاکستان ایک دوسرے سے چھٹکارا نہیں پا سکتے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کی سکیورٹی اور وجود کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔

موجودہ دور میں بلوچ قوم کی ریاست اور مرکز کے خلاف سیاسی اور پرامن مزاحمت پر تشدد مزاحمت کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ حالات اس قدر پرآشوب ہو چکے ہیں کہ اب نیم فوجی بلوچ تنظیمیں نوجوان طالب علموں کو استعمال کر کے ریاست کے خلاف تخریبی کارروائیاں کروا رہی ہیں۔ یہاں تک کہ اب خود کش حملوں کا خطرناک سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے- اس تناسخ کی وجہ بیرونی اور اندرونی عناصر دونوں ہیں مگر یہاں پر بیرونی عوامل ثانوی حیثیت کے حامل ہیں کیوںکہ بین الاقوامی سیاست کے حقیقت پسندانہ نظریہ کے مطابق ہر ریاست کے بیرونی دشمن ہوتے ہیں جو کہ ہر وقت اس ریاست کو سیاسی اور اقتصادی طور پر کمزور کرنے پر تلے رہتے ہیں مگر ایسے عوامل پر ریاستوں کا اختیار کم ہوتا ہے کیوںکہ بین الاقوامی سیاست میں مرکزی حکومت کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس طرح کے عوامل کی مداخلت فطری سمجھی جاتی ہے- تو ریاست کے پاسں صرف ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ اپنے اندرونی تنازعات کو مدبرانہ سیاسی دانش مندی کے ذریعے سے حل کرے اور اپنے غم زدہ شہریوں کے قانونی اور آئینی حقوق کو سلب نہ کرے۔ اگر کوئی محروم طبقہ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھاتا ہے تو ریاست ان کے سرکردہ رہنماؤں کو مارنے کی بجائے ان کے سیاسی مطالبات کو سیاسی طور پر ماننے کی کوشش کرے۔ ورنہ تنازعات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گا جو کسی بڑے قومی سانحے کا پیش خیمہ ہو گا۔ اس کے بعد بیرونی عوامل کو کوسنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا جیسا کہ بدقسمتی سے پاکستان کی قومی اور سیاسی تاریخ میں ہوتا آیا ہے- محسن نقوی نے کہا تھا:

قاتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
کاش اس خواب کی تعبیر کی مہلت نہ ملے
شعلے اگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ

زیادتیاں اور غلط فہمیاں دونوں طرف سے ہیں۔ یہ غلط فہمیاں پیدا کر دینے والے بلوچ عوام اور ریاست پاکستان دونوں کے دشمن ہیں۔ اس طرح کی غلط فہمیاں صدر ایوب کے دس سالہ دور میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان والوں کے درمیان بھی پھیلائی گئی تھیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان کو اس کی جغرافیائی حیثیت نے پاکستان سے الگ ہونے کا حوصلہ دیا مگر بلوچستان اور ریاست پاکستان کا مستقبل جغرافیائی اور سیاسی حدوں میں بندھا ہوا ہے اور دونوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے اپنی مدد کریں۔ پاکستان کے پاس اب کوئی اتنا ہمدرد دوست بھی نہیں بچا جو یہ پوچھ سکے کہ تمہارے بلوچستان کا کیا حال ہے؟