پشتون تحفظ موومنٹ المعروف پی ٹی ایم کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جس کے بعد سیاسی شخصیات، سیاسی پارٹیوں اور تجزیہ کاروں کی ملی جلی آرا سامنے آ رہی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ نے پشتون قومی عدالت کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح جمعیت علمائے اسلام قبائلی چیپٹر نے بھی پشتون تحفظ موومنٹ کی پشتون قومی عدالت کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کی بحیثیت پارٹی حمایت یا مخالفت سے متعلق ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آٰیا۔ خیبر پختونخوا میں برسراقتدار جماعت پی ٹی آئی بھی اس معاملے پر خاموش دکھائی دے رہی ہے۔
پی ٹی ایم جس کا قیام امن و امان کی بحالی اور ریاستی جبر کے نام پر کیا گیا تھا لیکن وقت کے ساتھ ناصرف بیانیہ بدلا بلکہ رویے میں بھی شدت آ گئی۔ اب پشتون قومی عدالت کے نام پر جو 11 اکتوبر کو ہونے جا رہا ہے یہاں تو حالات یکسر مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ نے اس حوالے سے اگست سے لے کر آج تک خوب ٹرینڈ چلائے ہیں جس میں الگ ریاست کی بات کی جا رہی ہے اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے ریاست مخالفین اور اندرون ملک ایسی سوچ رکھنے والے افغانستان کا جھنڈا استعمال کر کے پختونخوا کو افغانستان میں ضم کرنے یعنی گریٹ پختونستان بنانے کی بات کر رہے ہیں، مگر پی ٹی ایم کی لیڈرشپ کے منہ سے آج تک ایسی کوئی بات نہیں نکلی جس کو ہم ریاست مخالف بیانیے یا دہشت گردی کے زمرے میں ڈال سکیں، مگر پشتون قومی عدالت کے خلاف ریاستی مشینری حرکت میں آ گئی ہے اور گذشتہ دس روز سے کارروائیاں بھی ہو رہی ہیں۔
اس ضمن میں وزارت داخلہ نے پشتون تحفظ موومنٹ سے تعلق رکھنے والوں کی ایک لسٹ جاری کی ہے جس کے تحت 52 افراد کو شیڈول فور میں شامل کیا گیا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے سُرخیل منظور پشتین کہتے ہیں کہ یہاں زندگی مانگنا بھی گناہ ہے، ہم تو زندگی مانگ رہے ہیں مگر ریاست ہمیں موت دینے کے درپے ہے۔
دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کی جانب سے پشتون قومی جرگے کی حمایت اور خاص طور پر ضلع خیبر میں پانچ دن کی فائر بندی نے پشتون تحفظ موومنٹ کے کردار کو مشکوک بنا دیا ہے، جس کو بنیاد بنا کر ریاست نے پی ٹی ایم کو کالعدم کر دیا ہے۔
قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے پی ٹی ایم سے متعلق بیان دیتے ہوئے اس پابندی کی مخالفت کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ پابندی مسئلے کا حل نہیں، پشتون تحفظ موومنٹ جو مانگ رہی ہے اس مسئلے کا حل سیاسی ہے، مذاکرات کے ذریعے اس کو حل کرنا چاہیے۔
پی ٹی ایم پر پابندی اور اس کے ممکنہ نتائج سے متعلق سابق آئی جی پی و سابق ہوم سیکرٹری اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ پابندی کو دیکھنا پڑے گا کہ کیا پی ٹی ایم جو کچھ کر رہی ہے یہ دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے؟ اگر دیکھا جائے تو کسی جماعت یا تحریک کو دہشت گرد تب قرار دیا جاتا ہے جب اُس کی حرکتیں دہشت گردوں والی ہوں یعنی اگر وہ ریاست کے خلاف بندوق اٹھاتے ہیں، ریاستی اداروں اور عام لوگوں کو بم دھماکوں کے ذریعے نشانہ بناتے ہیں، میری نظر میں صرف تقریر کرنے پر تو اس کا اطلاق ہوتا ہے یہ دیکھنا پڑے گا۔ دوسرا یہ کہ پی ٹی ایم تو زندگی، تحفظ اور امن مانگ رہی ہے جو ریاست کی ذمہ داری ہے، آئین ریاستی اداروں کے حقوق اور عوام کے حقوق کو واضح طور پر بیان کرتا ہے، تحفظ دینا، امن قائم کرنا ریاست کا کام ہے، اگر ریاست یہ اب نہیں دے رہی تو سماجی و بنیادی حقوق سے متعلق فلسفوں کو نصاب سے نکال دینا چاہیے۔
اختر علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب میں موجود جو تنظیمیں ہیں ان پر پابندی اس لئے بھی نہیں لگتی کیونکہ ان کے پاس ووٹ بینک ہے جو حکومت کی مجبوری ہے، حالانکہ ٹی ایل پی سے تعلق رکھنے والے ایک پولیس اہلکار نے سلمان تاثیر کو قتل کیا، میجر ظہیر نے نواز شریف اور رانا ثناء اللہ کو قتل کی دھمکی دی، فنڈنگ سے متعلق بھی الیکشن کمیشن سے پوچھا گیا کہ ٹی ایل پی کو کیسے سیاسی جماعت قرار دیا ہے، یہ بہت اہم نقطہ ہے جس کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔
سابق آئی جی پی اختر علی شاہ نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ریاستی زور کے استعمال سے تحریکیں ختم نہیں ہوتیں ان کو مزید تقویت ملتی ہے، بلوچستان میں بھی طاقت کے استعمال سے آج تک کیا ہوا؟ تحریکیں جاری ہیں۔ اگر ریاست نے مسائل کو حل کرنا ہے تو لازماً گڈ گورننس اور بنیادی سہولیات مہیا کر کے لوگوں کو اپنا بنانا ہوگا، ماضی میں اے این پی پر پابندی لگی، پیپلز پارٹی پر پابندی لگی، کیا وہ ختم ہو گئیں؟ بالکل بھی نہیں۔ میرے خیال میں اسی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
سینیئر صحافی رفعت اللہ اورکزئی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وہ تحریک جس کا آغاز یا قیام دہشت گردی کے خلاف بیانیے پر ہوا ہے اس کو دہشت گرد قرار دینا سمجھ سے بالاتر ہے، اگر دیکھا جائے آج تک پی ٹی ایم پر ایک ہوائی فائرنگ کرنے کی بھی ایف آئی آر نہیں ہے، نہ اس کے کوئی شواہد موجود ہیں، دوسرا یہ کہ معاملات کو بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہوگا۔
رفعت اللہ اورکزئی کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کے خلاف زور زبردستی کا استعمال ان کو اکسانے کے مترادف ہے، طاقت کے استعمال سے کام خراب ہوتا ہے، لوگ مشتعل ہوتے ہیں، جس کا نقصان ملک کو اٹھانا پڑتا ہے۔ میری نظر میں حالات خرابی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت کچھ ہونے والا ہے مگر اس کا الزام ہم پھر کس کو دیں گے؟ یہ سوال جواب طلب ہے۔ اگر دیکھا جائے پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات امن، سکیورٹی اور زندگی مانگنے تک محدود ہیں جس کو پورا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔