Get Alerts

بشام میں چینی انجینیئرز پر حملہ؛ دو انکوائری کمیٹیوں کی رپورٹس غیر تسلی بخش قرار

ذرائع کے مطابق موجودہ آئی جی بلوچستان معظم جاہ انصاری کی سربراہی میں جو انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس نے کچھ عرصہ قبل اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی جس میں معطل افسران کو معمولی سزا دے کر بحال کرنے کی سفارش کی گئی تھی تاہم وزیر اعظم ان تجاویز سے متفق نہیں ہوئے۔

بشام میں چینی انجینیئرز پر حملہ؛ دو انکوائری کمیٹیوں کی رپورٹس غیر تسلی بخش قرار

چینی انجینیئرز پر ضلع شانگلہ میں ہونے والے خودکش حملے کے حوالے سے دستاویزات میں چینی باشندوں کو مکمل سکیورٹی فراہم نہ کرنے اور پختونخوا پولیس کو بروقت آگاہ نہ کرنے سمیت دیگر انکشافات سامنے آئے ہیں۔ حملے کے نتیجے میں معطل ہونے والے خیبر پختونخوا پولیس کے اعلیٰ افسران 8 ماہ گزرنے کے باوجود بحال نہیں ہو سکے۔ پہلی انکوائری کمیٹی نے ان افسران کو معمولی سزا دینے کی سفارش کی تھی لیکن وزیر اعظم نے ان سفارشات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے سیکرٹری پاور ڈویژن کی سرابراہی میں ایک اور انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے۔

23 مارچ 2024 کو ضلع شانگلہ کے علاقے بشام میں داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ (DHPP) جانے والے چینی انجینیئرز اور دیگر عملے کے قافلے پرخودکش حملہ کیا گیا تھا جس میں چینی باشندوں سمیت 6 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ وفاقی حکومت نے اس واقعے کا نوٹس لے کر اس وقت کے سیکرٹری پاور ڈویژن راشد محمود لنگڑیال کی سربراہی میں چار رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا دی تھی جس نے تین افسران ڈی آئی جی سپیشل سکیورٹی یونٹ (ایس ایس یو) محمد ظفر علی، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لوئر کوہستان جمیل اختر اور ڈی پی او اپر کوہستان محمد سلمان کی معطلی کی سفارش کی۔ یہ رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی گئی تو انہوں نے رپورٹ مسترد کرتے ہوئے اس وقت کے ڈی آئی جی ہزارہ محمد اعجاز خان کا نام بھی شامل کیا اور ان افسران کے خلاف موجودہ آئی جی بلوچستان معظم جاہ انصاری کی سربراہی میں ایک رکنی کمیٹی تشکیل دی۔

ذرائع کے مطابق اعجاز خان کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں بنتا تھا لیکن کسی نے وفاقی حکومت کو ان کے خلاف اکسایا۔ بعض لوگ اسے فارم 45 اور 47 کی کارستانی بھی قرار دے رہے ہیں کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف مانسہرہ سے الیکشن ہار گئے تھے اور ن لیگ کے رہنما متعلقہ پولیس افسران سے خوش نہیں تھے۔ کئی سینیئر پولیس افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس واقعے سے کچھ عرصہ قبل 11 کور نے اعلیٰ پولیس حکام کو مالاکنڈ میں ممکنہ خودکش حملے کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی تھیں اور یہی خط ان کی معطلی کی وجہ بنا کیونکہ اگر اس تھریٹ الرٹ کی تحقیقات کر لی جاتیں تو خیبر پختونخوا کے بعض اعلیٰ افسران کے خلاف کارروائی ہونی تھی۔

اس واقعے اور انکوائری کمیٹی سے متعلق ہمیں ایسی دستاویزات ملی ہیں جن میں کئی انکشافات کئے گئے ہیں جس کے مطابق جس دن چائنیز قافلے کی صورت میں داسو بشام آ رہے تھے تو کوہستان پولیس کو اسی روز اس نقل و حرکت کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا حالانکہ وزرات داخلہ کے فارن نیشنل سکیورٹی سیل کے مطابق کسی بھی غیر ملکی کی آمد و رفت کے بارے میں معلقہ پولیس اور دیگر اداروں کو 7 دن پہلے بتانا ہوتا ہے۔

دستاویزات میں لکھا ہے کہ حملے کے وقت چائنیز باشندوں کے ساتھ بلٹ پروف گاڑیاں نہیں تھیں جبکہ کانوائے کے ساتھ جانے والی بعض گاڑیاں جیم فیٹیڈ تھیں لیکن حملے کے دن انہوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اسی طرح قافلے کی حفاطت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں کا انچارج تک ہمراہ نہیں تھا۔

ذرائع کے مطابق کے پی پولیس کے ایس ایس یونٹ نے واپڈا کے اعلیٰ حکام، واپڈا کے سٹریٹجک سکیورٹی مینجمنٹ، وزارت داخلہ اور داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ(DHPP)  اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کئی مرتبہ آگاہ کیا تھا کہ چینی باشندوں کو بلٹ پروف گاڑیاں فراہم کی جائیں اور ان کے محکمے کو درپیش مسائل کو بھی حل کیا جائے تاکہ چینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

وزارت داخلہ نے داسو پارو پروجیکٹ کیلئے ایک ٹاسک فورس قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس میں ضلعی انتظامیہ، پولیس، واپڈا، داسو کے سکیورٹی سمیت کئی دیگر ادارے شامل تھے لیکن بجائے اس کے کہ ایس ایس یو کو لیڈ رول دیا جاتا ان کے ایس پی کو ٹاسک فورس ہی سے نکال دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ایس ایس یو اور کئی دیگر اعلیٰ پولیس افسران نے واپڈا اور دیگر متعلقہ محکموں کے ذمہ دار لوگوں کو کئی مرتبہ آگاہ کیا کہ چائنیز کی سکیورٹی کے حوالے سے ان کے شدید تحفظات ہیں لیکن ان تحفظات کو ختم کرنے کے بجائے ایس ایس یو کے متعلقہ ایس پی پر DHPP میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔

خیبر پختونخوا میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں چینی انجینیئرز و دیگر عملہ کام کر رہا ہے۔ کے پی پولیس کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس وقت داسو (جو سی پیک میں شامل نہیں ہے) میں 750 کے لگ بھگ چینی شہری خدمات سرانجام دے رہے ہیں جن کی حفاظت پر کے پی پولیس کے ایس ایس یو کے 250 کے قریب اہلکار تعینات ہیں۔ اسی طرح داسو کے اپنے 750 اہلکار بھی سکیورٹی کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان چینی باشندوں کی نقل و حرکت کے دوران کئی دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا تعاون بھی انہیں حاصل ہوتا ہے۔

وزارت داخلہ کے ماتحت ایک  Foreign National Securityہے جو ان تمام غیر ملکیوں کی نقل و حرکت کو دیکھتی اور ایک گائیڈلائن دیتی ہے۔ ذرائع کے مطابق موجودہ آئی جی بلوچستان معظم جاہ انصاری کی سربراہی میں جو انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس نے کچھ عرصہ قبل اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی جس میں معطل افسران کو معمولی سزا دے کر بحال کرنے کی سفارش کی گئی تھی تاہم وزیر اعظم ان تجاویز سے متفق نہیں ہوئے اور سیکرٹری پاور ڈویژن کی سربراہی میں ایک اور کمیٹی تشکیل دی ہے۔

ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت فی الحال ان افسران کو بحال کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہی کیونکہ ان کے اوپر چینی حکومت کا بڑا دباؤ ہے اور وہ ایسا کوئی کام نہیں کر سکتے جس سے چینیوں کی تشویش میں اضافہ ہو۔ گذشتہ دنوں پاکستان میں تعینات چینی سفیر اور ڈپٹی وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے بیانات پر دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ بھی کھڑا ہوا تھا۔ چند روز قبل اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب سے اپنے خطاب میں چینی سفیر نے کہا تھا کہ چینی حکومت اپنے باشندوں کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ اس موقع پر اسحاق ڈار بھی موجود تھے۔

عمیر محمد زئی گذشتہ 18 سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکسپریس، ایکسپریس ٹریبیون اور فرنٹیر پوسٹ میں کام کرچکے ہیں۔