اس میں کوئی شک نہیں کہ جائز مطالبات کے لئے آواز اٹھانا، احتجاج کرنا اور ریلیاں نکالنا سیاست اور جمہوریت کا حسن ہی نہیں بلکہ یہ عوام اور سیاسی جماعتوں کا جمہوری اور بنیادی حق ہے مگر ان میں ملک و قوم کے مفادات سے ہٹ کر ذاتی مفادات، ضد اور انتقامی جذبے کا شامل حال ہو جانا ان کی اہمیت کو ختم کر دیتا ہے۔ اور اسی طرح اگر یہ سلسلہ جاری رہے تو مایوسی، بددلی اور انصاف کو طاقت کے ذریعے سے حاصل کرنے کی جستجو سیاست اور جمہوریت کو فائدہ دینے کی بجائے اسے جتھوں کی سیاست کا شکار کر دیتی ہیں جو معمول ہمارے ملک میں پچھلی کئی دہائیوں سے دیکھنے کو مل رہا ہے اور اس سے پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام سے معاشی بدحالی، انتہا پسندی اور دہشت گردی جنم لے کر ملکی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتی ہیں۔
اگر ہم جمہوریت کی تاریخ اور دور جدید میں کامیاب جمہوری نمونوں کا مطالعہ کریں تو اس کی مثالیں ہمیں نارتھ امریکہ اور یورپ میں ملتی ہیں جن میں سر فہرست ہم سکینڈی نیوین ممالک کو دیکھتے ہیں اور وہاں پر سیاسی شعور اور اعلیٰ اخلاقیات بہت واضح ملتے ہیں جس سے اس حقیقت کا پتا چلتا ہے کہ جمہوریت سے فائدہ اٹھانے کے لئے عوام کے اندر ان دو خوبیوں کا ہونا ناگزیر ہے۔
ہم جمہوریت کے نعرے بھی لگاتے ہیں اور اس کی طرز پر انتخابات کا ڈرامہ رچا کر حکومتیں بھی تشکیل دے لیتے ہیں حتیٰ کہ اگر کوئی ڈکٹیٹر بھی ریاست کا نظام سنبھالے تو اس کو بھی اپنی آمریت کو جمہوریت کی کوئی نہ کوئی شکل دینی ہی پڑتی ہے جو عالمی سطح پر تعلقات کو بحال رکھنے کے لئے ہماری مجبوری ہیں لیکن ہم نے کبھی جمہوریت پر نہ تو یقین رکھا ہے اور نہ ہی اس کو حقیقت میں پنپنے بڑھنے دیا ہے۔
اس دوغلی جمہوریت کی سیاست میں بھی ہمیں جو تسلسل کے ساتھ سننے کو ملتا ہے وہ یہ ہے کہ فلاں سیاسی قائد نے عوام کو شعور دیا ہے خواہ وہ خود آمریت ہی کی پیداوار ہو، وہ خود اقتدار تک جمہوریت نہیں بلکہ آمرانہ مفادات اور کوششوں ہی کی بدولت پہنچا ہو۔ اگر کسی نے عوام کو سیاسی شعور دیا ہوتا تو آج اس ملک و قوم کی یہ حالت نہ ہوتی۔ یہ شعور ہی کی خرابی ہے کہ عوام ان مفادات پرست مداریوں کے ہتھے چڑھی ہوئی ہے۔ دراصل یہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے میڈیا کے ذریعے رائے ہموار کر کے عوامی جذبات کے اندر اپنی ہمدردیاں حاصل کی گئی ہوتی ہیں یا عوام کی بنیادی ضروریات کے پورا کرنے کا جھانسہ دے کر ان کی کمزوریوں کو نشانہ بناتے ہوئے ان کو استعمال کیا گیا ہوتا ہے جسے شعور کا نام دے کر عوام کو مسلسل دھوکے میں رکھا گیا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم جمہوریت سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھائیں تو ہمیں جمہوریت کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس کو اصلی حالت میں ان کی شمولیت کے ذریعے سے عوامی شعور کا حصہ بنانا ہوگا تاکہ وہ صحیح سیاسی قیادت کو پہچان سکیں۔
سیاسی شعور اس کو کہتے ہیں جس کے اندر اگر مخالفین میں بھی اچھا کردار ہو تو اس کی تعریف، حوصلہ افزائی اور حمایت ملے اور اگر اپنا بھی کوئی غلط کر رہا ہو تو اس کی تنقید، حوصلہ شکنی اور مخالفت کی جائے۔ اگر تو یہ سیاسی شعور موجودہ عوامی آرا میں دیکھنے کو ملتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ عوام کے اندر سیاسی شعور پایا جاتا ہے اور اگر اس کے برعکس حمایت یا مخالفت کی بنیاد انا پرستی، سیاسی الحاق اور ضد ہے تو پھر اسے سیاسی شعور نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی اس کی بنیاد پر جمہوریت سے مستفید ہو کر اچھے سیاست دان یا ریاست کے نظام کو چلانے کے لئے اچھے حکمران تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ اسے جمہوریت نہیں بلکہ کسی بد تہذیب معاشرے کے اندر جتھوں کے زور کی بنیاد پر اقتدار کے حصول کا نظام کہا جا سکتا ہے۔
عوامی شعور کو صحیح سمت دے کر جتھوں کی سیاست سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ عوام کو ناصرف صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی ترغیب دی جائے بلکہ عملی طور پر ان کی آواز کو بامقصد بنانے اور انہیں اہمیت دینے کا عملی ماحول پیدا کیا جائے۔ ان کو جمہوریت کی بنیاد سیاسی جماعتوں سے لے کر وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کے عمل تک میں عملی طور پر شمولیت دے کر ان کے اندر شعور کو اجاگر کرنا ہو گا۔ اس کے لئے میڈیا کے علاوہ فنون لطیفہ اور ڈراموں و فلموں کے اندر بھی جمہوریت اور سیاست کو موضوع بنایا جا سکتا ہے۔
عوام کی طرف سے جائز اور آئینی مطالبات کو اہمیت دیتے ہوئے پارلیمان میں زیر بحث لا کر ان کو حکمت عملی سے منطقی انجام تک پہنچانے کی پالیسی بنائی جانی چاہیے۔ اگر کسی بھی مطالبے پر قومی اسمبلی کے کسی حلقے کے ووٹرز کی تعداد کے برابر عوامی تائید حاصل ہوتی ہے تو اسے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایجنڈے میں شامل کر کے ان پر بحث کی جائے۔ اگر وہ عوامی مطالبہ آئین و قانون کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے تو اس کے پورا ہونے کا عملی ثبوت دیا جائے اور جو مطالبات غلط ہوں وہ خواہ کسی بھی جماعت کی طرف سے ہوں ان کے منفی پہلوؤں کو دلائل کی روشنی میں میڈیا پر آشکار کر کے قوم کے اندر با شعور رائے کو ہموار کرنے کی ثقافت کو فروغ دیا جائے اور اگر کوئی جماعت اپنے مطالبات کو عدالت میں لے کر جاتی ہے تو اس کی کارروائی کو براہ راست دکھایا جائے اور اس پر قومی سطح کے غیر جانبدار آئینی ماہرین کا ایک پینل قومی میڈیا پر اپنی آرا دے تاکہ عوام کی شعوری اصلاح کر کے ان کی سوچوں کو صحیح سمت دی جا سکے۔
عوامی شعور کی اصلاح کے لئے پارلیمان اور اداروں کے ماحول کے اندر اس کی جھلک ملنی چاہیے۔ اس کے لئے سب سے پہلے سیاسی قائدیں خواہ ان کا اپوزیشن سے تعلق ہو یا حکومت میں شامل جماعتوں سے، ان کے خلاف ہر طرح کے زیر التوا مقدمات کی سپریم کورٹ یا ہائیکورت کے غیر متنازع اور غیر جانبدار ججز کے کمیشن سے سکروٹنی کروائی جانی چاہیے تاکہ معلوم ہو کہ وہ تعصب اور سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ہیں یا ان میں آئین و قانون کی خلاف ورزی کا کوئی مواد موجود ہے جس پر وہ ان کو جاری رکھنے یا ختم کرنے کی رپورٹ جاری کریں تاکہ عوام کے اندر پائے جانے والے تعصبانہ اور سیاسی انتقام والے تاثر کو ٹھیک کیا جا سکے اور اس کا آغاز حکومت میں موجود جماعتوں کے قائدین کو اپنے آپ کو انکوائری تک پارلیمانی عہدوں سے علیحدہ ہو کر پیش کرنا چاہیے تاکہ عوام میں ان کے بارے اچھا تاثر پیدا ہو۔
سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین جمہوریت کا اثاثہ ہوتے ہیں اس لئے ان کے اندر بھی بہتری لانا انتہائی ناگزیر ہے جس کے لئے الیکشن کمیشن کی طرف سے ان کی نگرانی کا کوئی میکنزم ہونا چاہیے جس کے تحت سیاسی قائدین کے بیانات اور قول و فعل کو آئین و قانون، جمہوریت اور سیاست سے ہم آہنگ بنانے کے لئے سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جائے اور اس کا اپنی ویب سائٹ پر ایک ڈیش بورڈ لگائیں جسے تواتر کے ساتھ اپ ڈیٹ کرتے ہوئے اس کی سالانہ رپورٹ کو پارلیمان میں پیش کیا جائے جس پر بحث کے بعد ایسے سیاست دان جو اپنے قول و فعل میں آئین و قانون، جمہوریت اور سیاست کی اساس کو جھوٹ، غلط فہمیاں اور بے بنیاد الزامات کی سیاست کرنے کے مرتکب پائے جائیں، پر پانچ سالوں کے لئے پابندی لگا دی جائے جسے اگر وہ تعصبانہ، غلط یا بے بنیاد سمجھیں تو الیکشن کمیشن میں ثبوتوں کے ساتھ وضاحت پیش کر کے ہٹوا بھی سکتے ہوں اور اس فیصلے کے خلاف عدالتوں میں جانے کا حق بھی موجود ہو۔ اس حکمت عملی سے سیاسی جماعتوں کے اندر با کردار سیاست دانوں کی گرفت کو مضبوط کرنے کا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے۔
سیاسی شعور سے یہ توقع کی جانی چاہیے کہ جمہوریت کو محض سیاست دانوں کی نہیں بلکہ اچھے با کردار سیاست دانون کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیاسی شعور اس قابل بھی ہونا چاہیے کہ اس سے یہ توقع رکھی جا سکے کہ عوام سیاست دانوں اور ان کے آباؤاجداد کے ماضی پر بھی نظر رکھیں تاکہ ان کو معلوم ہو کہ ان کا خاندانی ڈی این اے کتنا جمہوری ہے اور ان کے سیاسی دعوے ان کے اپنے یا ان کے آباؤاجداد کے ماضی سے کتنی مطابقت رکھتے ہیں۔
اداروں کو سیاست سے پاک کر کے آئین و قانون اور عوامی فلاح و بہبود کا پابند بنانے کی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے تاکہ سیاست، جمہوریت اور حب الوطنی کے نام پر ذاتی مفادات کی آنکھ مچولی کا کھیل ختم کیا جا سکے۔ جب ملک کے انتظامی امور پر مامور افسران کے عمل سے عوامی فلاح و بہبور ہوتی ہوئی دکھائی دے گی تو یقیناً عوام کے دل میں ناصرف سیاست اور جمہوریت کی قدر بڑھے گی بلکہ پارلیمان کی بالادستی کا شوق اور جمہوری انقلاب کا جذبہ پیدا ہوگا جو آمریت کے خلاف جمہوریت کے لئے ڈھال ثابت ہوگا اور جب تک سیاسی جماعتوں، سیاسی قائدین اور ممبران پارلیمان کا اپنا کردار ان سے مطابقت کے معیار پر پورا نہیں اترتا ہوگا تب تک یہ سیاسی انتقام کے مکافات عمل سے جان چھڑانا ممکن نہیں اور یہ باریاں اسی طرح چلتی رہیں گی۔
اداروں کے سربراہان کے اندر عہدوں کی طلب اور طمع کے ماحول اور پارلیمان سے اس کی تائید کی سرتوڑ کوششوں کو شعور کی علامت قطعاً بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ عہدے ذمہ داریوں کا نام ہوتے ہیں اور کوئی بھی با شعور انسان اگر ایمانداری، خدمت اور جوابدہی کی سوچ رکھتا ہو تو ذمہ داریوں کو وہ شوق سے قبول نہیں کرے گا چہ جائے کہ اس کو اس پر مجبور کیا جائے۔ یہ عہدوں کی طلب اور طمع ہماری قومی سطح کی عمومی صورت حال کی عکاس ہیں جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہمارے اندر احساس ذمہ داری ختم ہو چکا ہے۔ اگر یہ عہدوں کا شوق عوامی خدمت کے جذبے کے تحت ہوتا تو آج ملک و قوم کی یہ حالت نہ ہوتی۔ آج بھی اگر قومی سطح پر اس کا شعور اجاگر ہو جائے تو ان عہدوں کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ملے گا، سب ان سے بھاگیں گے اور با کردار لوگوں کو مجبور کر کے عہدے دینے پڑیں گے۔ تب جو ماحول پیدا ہوگا اس میں احتجاج اور دھرنوں کی نوبت ہی نہیں آئے گی، محض کسی پر انگلی اٹھا دینا ہی اس کے منصب سے علیحدہ ہو جائے کے لئے کافی ہو گا اور نہ ہی کوئی محض جھوٹے الزامات کی بنیاد پر کسی کی عزت کو اچھالنے کی کوشش کرے گا کیونکہ اسے معلوم ہوگا کہ اسے ثبوت دینا پڑیں گے یا پھر سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔