Get Alerts

دہشت گردی کی تازہ لہر اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کی کیا وجوہات ہیں؟

گذشتہ برس خیبر پختونخوا میں ضم شدہ قبائلی اضلاع اور دیگر علاقوں میں دہشت گردی کی شدت میں اضافہ دیکھا گیا۔ ضم شدہ اضلاع میں 342 جبکہ دیگر اضلاع میں 464 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ اس دوران پولیس پر 243 حملے کیے گئے، جن میں 74 اہلکار شہید اور 401 زخمی ہوئے۔

دہشت گردی کی تازہ لہر اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کی کیا وجوہات ہیں؟

پاکستان میں رواں سال دوسری سہ ماہی کے دوران تشدد کے واقعات میں 12 فی صد کمی ہوئی جبکہ تیسری سہ ماہی میں دہشت گردی اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں 90 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق سال 2024 کی تیسری سہ ماہی کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 90 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان واقعات میں 722 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں عام شہری، سکیورٹی اہلکار اور مشتبہ افراد شامل ہیں، جبکہ 615 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 328 واقعات ایسے بھی ہیں جن میں تقریباً 97 فیصد ہلاکتیں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہوئیں۔

سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (سی آر ایس ایس) کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال کی ابتدائی تین سہ ماہیوں میں ہلاکتوں کی تعداد 1534 تک پہنچ چکی ہے، جو کہ 2023 کے مجموعی اعدادوشمار 1523 سے زیادہ ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں تشدد کے واقعات میں بالترتیب 159 فیصد اور 77 فیصد اضافہ ہوا۔ لیکن بلوچستان میں پنجاب سے آنے والے مزدوروں کو نشانہ بنانے کے نئے رجحان نے صورت حال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ بلوچستان میں 38 مزدوروں کو نشانہ بنایا گیا، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق پنجاب سے تھا۔

واضح رہے کہ رواں سال نومبر کے مہینے میں بھی بلوچستاں کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے ریلوے سٹیشن پر خودکش دھماکے میں 26 افراد ہلاک اور 60 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔

رواں سال دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کنفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے مینیجنگ ڈائریکٹر عبداللہ خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آپریشن ضرب عضب کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی تھی کیونکہ آپریشن کے بعد جب نیشنل ایکشن پلان کا آغاز جنوری 2015 میں ہوا تو پہلے جو دہشت گردی کے ماہانہ 130 واقعات رونما ہوتے تھے وہ سال 2015 میں کم ہو کر صرف 13 تک محدود رہے۔ بقول ان کے نیشنل ایکشن پلان پر حکومتی عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے سال 2024 میں دہشت گردی کے واقعات میں ایک بار پھر خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ تحریک طالبان کے جو مختلف دھڑے ہیں، جماعت الحرار اور حزب اللہ حرار دونوں ایک ہی نام تھے جنہوں نے مختلف تنظیمیں بنائی ہوئی تھیں، وہ سب اکٹھے ہوئے اور ان کے ہمراہ باقی تنظیمیں بھی منظم ہو گئیں جس کے بعد بلوچستان میں بھی بلوچ دہشت گرد تنظیمیں وجود میں آئیں جن کو 2018 میں منظم کیا گیا۔ یہ ساری تنظیمیں 'براس' کے نام سے سامنے آئیں۔

 وہ کہتے ہیں کہ 2021 میں جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی تو توقع یہ کی جا رہی تھی کہ امارات اسلامی تحریک طالبان کے خلاف کارروائی کرے گے لیکن انہوں نے کارروائی کے بجائے ان کی پشت پناہی اس لئے کی کیونکہ افغانستان میں تحریک طالبان اور امارات اسلامی طالبان نے مل کر امریکہ کے خلاف جنگ لڑی تھی۔

عبداللہ خان نے کہا کہ یہ وہی وجوہات تھیں جن کی بنا پر افغانستان میں گل بہادر گروپ کیلئے بہت سارے مواقع پیدا ہوئے اور ان کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کی گئیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کے انٹیلی جنس نیٹ ورک 'جی ڈی آئی' نے بھی ایک بڑا منفی کردار ادا کیا جس کی وجہ سے افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونا شروع ہو گئی۔

آپریشن عزم استحکام کے خلاف عوامی ردعمل دہشت گردی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے؟

عبداللہ خان نے بتایا کہ آپریشن عزم استحکام پر کچھ لوگوں نے سیاست کر کے اسے غلط طریقے سے پیش کر کے عوام کو احتجاجی مظاہروں پر اکسایا لیکن حکومت کی جانب سے واضح تھا کہ یہ آپریشن نہیں بلکہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن ہو گا جس میں عوام کے مال و جان کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔

عبداللہ کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث پہلی دفعہ اس طرح ہو رہا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو شہید کیا جا رہا ہے اور اس بار عوام کی بجائے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کا جانی نقصان زیادہ ہو رہا ہے۔

عبداللہ خان نے بتایا کہ یہ وہی پروپیگنڈا تھا جس پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی طرف سے عزم استحکام آپریشن کے خلاف شدید ردعمل بھی آیا جس کی وجہ سے حکومت وضاحتیں دینے پر مجبور ہو گئی۔

امن کی خاطر عوام کا سڑکوں پر احتجاج کیوں؟

جب حکومت نے دہشت گردی کے خلاف عزم استحکام کے نام پر ایک اور آپریشن کا اعلان کیا تو خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع میں عوام سڑکوں پر نکل آئے اور اس آپریشن کی مخالفت کی۔ ان مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی خیبر پختونخوا میں درجنوں آپریشن کیے گئے، جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے اور اب کی بار بھی ان لوگوں کو یہی خدشہ ہے کہ آپریشن کے لیے انہیں بے گھر کیا جائے گا۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے آپریشنز سے ان کی نجی زندگیاں اور کاروبار بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ یہ مظاہرین صوبے میں کیے گئے سابقہ آپریشنز کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے دوران بے گھر ہونے والے افراد میں سے بعض کو نہ تو معاضہ دیا گیا اور نا ہی انہیں اپنے علاقوں میں واپس آنے کی اجازت دی گئی۔

واضح رہے کہ رواں سال قومی اسمبلی کے منعقدہ اجلاس میں وزارت داخلہ نے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ دو سالوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں مجموعی طور پر 3 ہزار 758 افراد جاں بحق ہوئے ہیِں، جبکہ 2020 سے اب تک غیر ملکی شہریوں کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں کے 8 واقعات میں 12 غیر ملکی باشندے ہلاک ہوئے ہیں۔ وزارت داخلہ کے مطابق 2020 سے 2024 تک غیر ملکی باشندوں پر ہونے والے 8 حملوں میں غیر ملکیوں سمیت مجموعی طور پر 62 افراد ہلاک جبکہ 38 زخمی ہوئے ہیں۔

2023 خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کا بدترین سال قرار

2023 کے دوران خیبر پختونخوا میں ضم شدہ قبائلی اضلاع اور دیگرعلاقوں میں دہشت گردی کی شدت میں اضافہ دیکھا گیا۔ ضم شدہ اضلاع میں 342 جبکہ دیگر اضلاع میں 464 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ پولیس اور دیگر سکیورٹی ادارے خاص طور پر نشانے پر رہے۔ پولیس پر 243 حملے کیے گئے، جن میں 74 اہلکار شہید ہوئے اور 401 زخمی ہوئے۔ 2023 میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان رہا، جہاں دہشت گردی کے 132 واقعات رپورٹ ہوئے۔ یہ اعداد و شمار ناصرف صوبے کی سکیورٹی صورت حال کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ ان چیلنجز کی یاد دہانی بھی کرواتے ہیں جن کا سکیورٹی فورسز اور عوام کو مسلسل سامنا ہے۔

دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومتی اقدامات

خیبر پختونخوا میں اب تک زیادہ تر دہشت گرد حملوں کا نشانہ پولیس رہی ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور کے نواحی علاقوں کے پولیس سٹیشن خاص طور پر دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ صرف رواں ماہ کے دوران پشاور کے 11 پولیس سٹیشنز کو نشانہ بنایا گیا اور صرف گزشتہ ایک ہفتے کے دوران وارسک روڈ پر واقع پولیس سٹیشنز اور پولیس موبائل ٹیموں پر 4 حملے کیے گئے۔

صوبائی حکومت پولیس اور بالخصوص انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کی استعداد بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ صوبائی حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں پولیس کے لیے 140 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

2019 سے 2023 تک صوبائی حکومت نے دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانے کے لیے ان کے سروں کی قیمتیں بھی مقرر کیں جس کے لیے 3 ارب 31 کروڑ 71 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے۔ خیبر پختونخوا کے 28 اضلاع میں 2251 دہشت گردوں کی موجودگی کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا۔

فوج، پولیس اور سی ٹی ڈی صوبے میں دہشت گردوں کے خلاف متعدد آپریشن کر چکی ہے۔ گزشتہ دنوں فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف چوہدری کا ایک میڈیا بریفنگ کے دوران کہنا تھا؛ 'سال رواں کے دوران پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر 13000 آپریشن کیے گئے'۔

دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہو رہی؟

 2014 میں آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد متفقہ طور پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک نیشنل ایکشن پلان شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم 10 سال گزرنے کے باوجود بھی اس پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ 2018 میں قبائلی اضلاع کو خیبر پختونخوا میں ضم تو کر دیا گیا تاہم معاہدے کے مطابق ان اضلاع سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے روزگار کے مواقع بڑھانے اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے نیشنل فنانس کمیشن میں رقم مختص کرنے کے اعلان پر عمل نہیں ہو سکا۔

باسط خان صحافی ہیں اور اسلام آباد میں مقیم ہیں۔