پاکستان کی حکمران اشرافیہ چاہے نئے عسکری آپریشن کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کی جتنی بھی قلابیں ملا لے لیکن اس آپریشن کی بھرپور مخالفت اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ عوام میں کسی بھی فوجی آپریشن کے حوالے سے بہت زیادہ تحفظات پائے جاتے ہیں۔
اس آپریشن کے ناقدین کہتے ہیں کہ آپریشن کی بات کرنے سے پہلے یہ بتایا جائے کہ ماضی میں جو آپریشنز کیے گئے، ان کے کیا نتائج نکلے ہیں؟ ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ان عناصر کی بھی نشاندہی کی جائے جنہوں نے ماضی میں انتہا پسندی کی حمایت کی، بیت اللہ محسود کو راہ سے بھٹک جانے والا مجاہد قرار دیا اور ملک کو تباہی کے دہانے پہ پہنچایا۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انتہا پسندی کی حمایت کی وجہ سے جو تباہی آئی ہے اس سے حکمران اشرافیہ نے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ ناصرف وہ 'گڈ طالبان' کی حمایت کر رہے ہیں بلکہ ٹی ایل پی جیسے دہشت گرد گروہوں کی بھی سرعام سرپرستی کر رہے ہیں۔
وفاق کی چھوٹی اکائیوں سے تعلق رکھنے والے ناقدین کا خیال ہے کہ ہر آپریشن کو یہ کہہ کر شروع کیا گیا کہ اس سے دہشت گردی کا قلع قمع ہو جائے گا لیکن تمام طرح کی عسکری کارروائیوں کے باوجود ہر آپریشن کے بعد، ما سوائے چند آپریشنز کے، دہشت گرد مزید مضبوط ہوئے ہیں اور انہوں نے عام لوگوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ہے۔
ناقدین کا دعویٰ ہے کہ اس آپریشن سے پہلے یہ بتایا جائے کہ انتہا پسند عناصر کو کن لوگوں کی حمایت حاصل تھی اور ان لوگوں کو کیا سزا دی گئی۔ وہ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ کیا ان لوگوں کا احتساب نہیں ہونا چاہیے جنہوں نے نیک محمد سے لے کر بیت اللہ محسود اور بیت اللہ سے لے کر حکیم اللہ، فضل اللہ اور مفتی نور ولی محسود سے مختلف معاہدے کیے یا کرنے کی کوشش کی؟
ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی ملٹری آپریشنز سے زیادہ دہشت گرد ڈرون حملوں میں مارے گئے۔ حکیم اللہ محسود، بیت اللہ محسود، قاری حسین اور الیاس کاشمیری سمیت کئی دہشت گردوں کو بنیادی طور پر ڈرون حملوں میں ہی ہلاک کیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان ڈرون حملوں میں دہشت گردوں کی ہلاکت ہو رہی تھی، تو ماضی میں ان ڈرون حملوں کی مخالفت کیوں کی گئی؟ یہ بات صحیح ہے کہ ان ڈرون حملوں میں کچھ بے گناہ لوگ بھی مارے گئے لیکن فوجی آپریشنز میں بے گناہ افراد کے مارے جانے کی تعداد بہت زیادہ تھی اور اس کی وجہ سے جو لاکھوں لوگوں کی دربدری ہوئی اس دربدری کی مثال کسی ڈرون حملے میں نہیں ملتی۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ان ناقدین کا خیال ہے کہ ناصرف شمالی، جنوبی اور دوسرے قبائلی علاقوں میں طاقتور حلقوں کے جن عناصر نے دہشت گردوں کے ساتھ معاہدے کیے ان کا احتساب کیا جائے بلکہ جنرل حمید گل، مرزا اسلم بیگ، جنرل ضیاء الحق، جنرل جاوید ناصر اور جنرل محمود سمیت تمام مذہبی رجعت پسند جرنیلوں کو عوام کی عدالت میں لایا جائے۔ جو جنرل مر چکے ہیں، ان کا بعد از موت احتساب کیا جائے اور ان کے گھرانوں کو ملنے والی مراعات واپس لی جائیں۔
فوجی آپریشنز کے مخالفین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ حکومت افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرے۔ ماضی میں کئی لبرل اور سیکولر حلقے یہ کہتے رہے کہ یہ دونوں نظریاتی بھائی ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تاہم پاکستان کی ریاست ہمیشہ دعویٰ کرتی رہی کہ ان میں زمین آسمان کا فرق ہے اور یہ کہ افغان طالبان کبھی پاکستان کے خلاف نہیں ہو سکتے لیکن آج وہی افغان طالبان اس ٹی ٹی پی کو کمین گاہیں فراہم کر رہے ہیں، جس نے بقول ریاست پاکستان، فوجیوں کے گلے کاٹ کر ان کے سروں سے فٹبال کھیلا، کئی پاکستانی فوجیوں کو اپنے حملوں میں ٹارگٹ کیا۔ اس کے علاوہ ان عناصر نے پاکستان کے 30 ہزار سے زیادہ شہریوں کو بھی اپنے حملوں کا نشانہ بنایا۔ معاشی طور پر ملک کو جو نقصان ہوا وہ بھی اربوں ڈالرز میں ہے۔
لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ریاست ہر وقت ان سے مذاکرات کرنے کی بات کرتی ہے اور ان کا ایک بڑا دہشت گرد احسان اللہ احسان جب ریاست کے ہتھے چڑھتا ہے، تو پہلے اسے وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے، ٹی وی پر اس کے انٹرویوز نشر کیے جاتے ہیں اور پھر وہ انتہائی ہائی سکیورٹی زون سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور عوام کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ جن لوگوں نے اس کی فراری کے وقت غفلت کا ارتکاب کیا ان کے خلاف کیا کاروائی کی گئی؟
تمام ناقدین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ پاکستانی طالبان کو تو افغان طالبان کی حمایت حاصل ہے لیکن تحریک لبیک پاکستان کے انتہا پسندوں کو کن کی حمایت حاصل ہے، جو جب چاہتے ہیں نا صرف سڑکوں، مارکیٹوں اور بازاروں کو بند کر کے معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ریاست کو علی اعلان چیلنج کرتے ہوئے اس کی خارجہ پالیسی کو ڈکٹیت کرتے ہیں؟
وہ اقلیتوں پر حملے کر کے آئے دن پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں اور بغیر کسی خوف کے سپریم کورٹ کے سربراہ کو قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں لیکن ریاست یہ بتانے سے قاصر ہے کہ جن عناصر نے ان پر نوٹ نچھاور کیے تھے، ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ ابھی کچھ ہی دن پہلے ان عناصر نے ایک بار پھر آسلام اباد کو مفلوج بنانے کی کوشش کی اور ریاست تماشہ دیکھتی رہی جبکہ پاکستان تحریک انصاف، ایم کیو ایم لندن یا بلوچ یکجہتی کمیٹی کوئی چھوٹا سا بھی مظاہرہ کرے، تو ریاست ان کے خلاف فوراً بھرپور طاقت استعمال کرتی ہے۔ ناصرف یہ کہ انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے بلکہ کچھ واقعات میں انہیں غائب بھی کر دیا جاتا ہے۔
ریاست یہ بہانہ نہیں کر سکتی کہ تحریک لبیک کے انتہا پسندوں کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اسی تحریک لبیک پاکستان کے سرپرست اعلیٰ پیر افضل قادری نے جب جنرل باجوہ کے خلاف زہر اگلا تھا تو 48 گھنٹے میں ان کا سافٹ ویئر اپڈیٹ کر دیا گیا تھا اور انہوں نے ناصرف تحریک لبیک پاکستان سے استعفیٰ دے دیا تھا بلکہ مستقل گوشہ نشینی اختیار کرتے ہوئے سیاست سے بھی لا تعلقی کا اعلان کر دیا تھا۔
لہٰذا انتہا پسندوں کے خلاف آپریشن سے پہلے انتہا پسندوں کی جن لوگوں نے حوصلہ افزائی کی ان کا احتساب ضروری ہے۔