فوجی آپریشنز نے ماضی میں مثبت نتائج دیے ہیں اور نا ہی مستقبل میں اس کے کوئی امکانات ہیں۔ ایک فوجی آپریشن کے نتیجے میں ملک ایک بار ٹوٹ چکا ہے، کیونکہ سیاسی مسائل کا حل فوجی آپریشنز نہیں، بلکہ سیاسی مذاکرات اور آئینی بالادستی میں ہے۔ یہ کہنا ہے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین اور اپوزیشن اتحاد 'تحریک تحفظ آئین پاکستان' کے سربراہ محمود خان اچکزئی کا۔
یہ بات انہوں نے ژوب میں دو روزہ ڈویژنل عوامی نمائندہ جرگے سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہی۔ جرگے میں کثیر تعداد میں قبائلی عمائدین، سیاسی جماعتوں کے نمائندے اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔
افتتاحی خطاب میں محمود خان اچکزئی نے کہا آج دنیا، خصوصاً معلومات کے حوالے سے، ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل ہو چکی ہے، جہاں مختلف ریاستوں و اقوام کے درمیان مختلف اقدار، اصولوں اور قوانین پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے، جن میں جانوروں کے حقوق بھی شامل ہیں۔ تاہم، کمزور اور محکوم اقوام کے وسائل پر قابض ہونا، ان کے علاقے میں دخل اندازی کرنا، اور وہاں اپنے مذموم مقاصد کیلئے بے گناہ انسانوں کا خون بہانا بدستور جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلی پانچ دہائیوں سے عالمی طاقتوں اور ان کے مقامی گماشتوں نے افغانستان کو اپنے عالمی سیاسی، تزویراتی اور اقتصادی مفادات کے حصول کے لیے میدان جنگ بنا لیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کی تباہی کا ذمہ دار کوئی وحشی نہیں، بلکہ بدقسمتی سے دنیا کی مہذب ریاستیں اور ان کے اشرافیہ ہیں۔ اس لئے اب افغانستان کی تعمیر نو اور وہاں امن قائم کرنا بھی بین ان ریاستوں کی ذمہ داری ہے جنہوں نے افغانستان کے تباہی و بربادی میں حصہ لیا تھا۔
اچکزئی نے مزید کہا کہ اس خطے میں عالمی طاقتوں اور ان کے مقامی گماشتوں کے مفادات کے لئے جنگوں کی شکلیں اور بعض کردار بدلتے رہے ہیں، مگر یہ جنگیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج پورے پشتون وطن میں قتل و غارت کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، جس میں پشتون وطن کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی اور کرم میں فرقہ واریت کے نام پر آگ و خون کا کھیل جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پشتونوں کا قتل عام ہو رہا ہے اور انہیں بدنام کرکے دہشت گرد کے طور پر بھی پیش کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی طور پر بااختیار اور خود مختار اقوام کے لئے ان کے قدرتی وسائل ان کی خوشحالی کا باعث بنتے ہیں، لیکن پشتونوں اور دیگر سیاسی طور پر کمزور اقوام کے لئے ان کے اپنے قیمتی وسائل ایک عذاب بن چکے ہیں۔
انہوں نے موجودہ پارلیمنٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ پارلیمنٹ سمگلروں اور کالا دھن جمع کرنے والوں کا اڈہ بن چکی ہے، جہاں عوامی مسائل پر بحث اور فیصلوں کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ اس لیے اچکزئی نے عوامی مسائل کے حل کے لیے عوامی نمائندہ جرگوں کے انعقاد پر زور دیا۔
آخر میں انہوں نے تحریک انصاف کے پرامن احتجاج کو روکنے کے لیے اسلام آباد کا باقی ملک سے زمینی رابطہ منقطع کرنے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ ایسی کارروائیاں جمہوری اصولوں کے خلاف ہیں۔