حکومت نے فیض آباد دھرنے سے متعلق تین رکنی انکوائری کمیشن بنا دیا ہے۔ صحافی ابصار عالم کے بیان حلفی کی روشنی میں انکوائری کمیشن جنرل باجوہ، نواز شریف اور جسٹس ثاقب نثار کو طلب کر سکتا ہے۔ انکوائری کمیشن کے طلب کرنے پر حاضر نہ ہونے والے فرد کو گرفتار بھی کیا جا سکے گا۔ یہ کہنا ہے سید صبیح الحسنین کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں سجاد انور نے کہا ہمارے جرنیل ججوں کو یہ بتانے تو پہنچ جاتے ہیں کہ فلاں فیصلہ ایسے کریں اور فلاں ایسے تو پھر انہیں انکوائری کمیشن میں بھی پیش ہونا چاہئیے۔ فوجی افسر ہو، ڈاکٹر ہو، صحافی ہو، جج ہو یا وکیل، جو بھی زیادتی کرتا ہے اسے کٹہرے میں آنا چاہئیے ورنہ معاشرہ جنگل بن جاتا ہے جیسا ہمارا معاشرہ بن چکا ہے۔ دہائیوں سے انتہاپسندی کو فروغ دے کر ہم نے اپنا کروڑوں کا نقصان کیا ہے۔
نادیہ نقی کا کہنا تھا موجودہ کمیشن سے مجھے امید ہے کیونکہ اس مرتبہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں جو آئین اور قانون کی پاسداری کے حوالے سے بہت کلیئر ہیں۔ فیض آباد دھرنا کیس کے حوالے سے عدلیہ اور حکومتی اداروں کو ذمہ داری لینا ہو گی۔ پیپلز پارٹی کا اس وقت کا غصہ ن لیگ کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے لیے ہے جنہوں نے پیپلز پارٹی کو پہلے سگنل دیا تھا مگر پھر پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
اعجاز احمد کے مطابق جنرل فیض اگر فیض آباد دھرنے میں گئے تھے تو یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ خود سے گئے تھے یا انہیں کسی نے بھجوایا تھا اور کیا انہیں کسی انتقامی کارروائی کے تحت تو نہیں پھنسایا جا رہا۔ اس معاملے کو جذبات سے ہٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
میزبان رضا رومی نے کہا انتہاپسند تنظیمیوں کو مضبوط کرنے والے فوجی اہلکار قومی سلامتی کے پیچھے نہیں چھپ سکتے۔
پروگرام 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔