'فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ فیض حمید کو طلب کر سکتی ہے'

یہ بھی ممکن ہے کہ فیض حمید کو اس میں نامزد کر دیا جائے اور انہیں عدالت میں طلب کر کے پوچھا جائے کہ یہ سب کیسے کیا گیا؟ اگر انہیں سپریم کورٹ بلایا جاتا ہے تو انہیں ان سوالوں کے جواب دینے پڑیں گے۔

'فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ فیض حمید کو طلب کر سکتی ہے'

حکومت نے فیض آباد دھرنے کے ذمہ داران کے تعین کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا دی ہے جو گواہان کے بیانات ریکارڈ کر کے سفارشات سپریم کورٹ کو بھجوائے گی۔ اگر کمیٹی فیض آباد دھرنا کیس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو نامزد کر دیتی ہے تو یہ کیس جنرل فیض حمید کے لیے خطرناک ثابت ہو گا۔ اگرچہ غالب امکان یہی ہے کہ کمیٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ کو موصول تو ہو گی مگر پھر سرد خانے میں چلی جائے گی تاہم یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر کمیٹی جنرل فیض حمید کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے تو سپریم کورٹ انہیں طلب کر سکتی ہے۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی جاوید چوہدری کا۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں سینیئر صحافی جاوید چوہدری نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت کے دوران نومبر 2017 میں مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد کے نواح میں واقع فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا تھا جو خاصا خوفناک ثابت ہوا۔ اس وقت شاہد خاقان عباسی ملک کے وزیر اعظم تھے اور صورت حال اس نہج پر جا پہنچی کہ ایسا لگتا تھا کہ شاید مظاہرین کے خلاف کوئی بڑا آپریشن کیا جائے گا۔ اگر آپریشن ہو جاتا تو بہت سارے لوگوں کی جانیں ضائع ہو جاتیں اور بعد ازاں مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا مگر مظاہرین کے خلاف کوئی آپریشن نہیں کیا گیا۔

صحافی نے بتایا کہ کچھ لوگوں کے بقول حالات خراب ہونے کے بعد شاہد خاقان عباسی نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کو بلوایا اور ان سے درخواست کی کہ ہمارے پاس ایسا کوئی میکنزم نہیں ہے کہ ہم اس دھرنے کو ختم کروا سکیں، آپ ریاست ہیں اور آپ کو ہی یہ کام کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد جنرل فیض حمید کو یہ دھرنا ختم کروانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس وقت تحریک لبیک پاکستان، وزارت داخلہ اور اس وقت کے ڈی جی سی جنرل فیض حمید کے مابین معاہدہ ہوا جس کے بعد دھرنا ختم کر دیا گیا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے بتایا ہے کہ اس وقت انہوں نے اور وزیر اعظم نے فیصلہ کیا تھا کہ اس معاہدے پر فیض حمید کے دستخط نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ وہ سرکاری ملازم ہیں اور کسی بھی سرکاری ملازم کا اس طرح معاہدہ کرنا ٹھیک نہیں۔ احسن اقبال نے مزید بتایا کہ جب اس بارے میں جنرل فیض حمید سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ میرے دستخط کے بغیر یہ لوگ نہیں مانیں گے کیونکہ ہم نے انہیں اسی بنا پر راضی کیا ہے کہ ہم گارنٹی لیتے ہیں کہ آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔

بعد ازاں یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا اور اس کی سماعت کے لیے دو رکنی بنچ بنا جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے۔ بنچ نے 6 فروری 2019 کو اپنے فیصلے میں متعدد لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا تھا کہ ریاست اس طرح نہیں چل سکتی۔ اس تحریری فیصلے میں آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی کا نام بھی شامل تھا۔ صحافی نے بتایا کہ کہا جاتا ہے قاضی فائز عیسیٰ کو اس فیصلے کی سزا ملی جس کے نتیجے میں عمران خان دور حکومت میں ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔ اس فیصلے کو بدلا نہیں جا سکتا تھا اور جج صاحب نے فیصلے میں یہ بھی تحریر کیا تھا کہ اس فیصلے پر عمل درآمد کروائیں اور ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا کر واقعے کے ذمہ داران کا تعین کریں۔ اس فیصلے پر سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی، وزارت دفاع ، سابق وزیر اعجازالحق، شیخ رشید، آئی بی اور پیمرا کی جانب سے نظرثانی کی درخواستیں جمع کروائی گئیں۔ عمران خان کی حکومت چلتی رہی مگر نظرثانی درخواستیں پڑی رہیں اور انہیں سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں کیا گیا۔

صحافی نے بتایا کہ قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس بننے کے بعد اس فیصلے پر نظرثانی درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کیا لیکن فیصلے سے پہلے ہی تمام فریقین نے درخواستیں واپس لے لیں۔ 28 ستمبر 2023 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ پہلے دیے گئے فیصلے پر عمل درآمد کروایا جائے۔ اس کے بعد 27 اکتوبر کو اٹارنی جنرل کی جانب سے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروائی گئی جس میں عدالت کو بتایا گیا کہ اس معاملے پر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ اس کمیٹی کا پہلا اجلاس 26 اکتوبر کو ہو چکا ہے اور دوسرا اجلاس یکم نومبر کو ہو گا۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی میں ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ، ایڈیشنل سیکرٹری دفاع اور ڈائریکٹر آئی ایس آئی شامل ہیں۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی نگران حکومت کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی گواہان کے بیانات بھی ریکارڈ کرے گی۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی فیض آباد دھرنا کیس کے ذمہ داران اور ہینڈلرز کا تعین کرے گی۔ کمیٹی تعین کرے گی کہ فیض آباد دھرنا کے ضمن میں کس نے احکامات دیے اور کس نے اسے مینیج کیا تھا۔

جاوید چوہدری نے کہا کہ تاثر یہی ہے کہ یہ صرف ایک کمیٹی ہے جس کی کچھ فائنڈنگز ہوں گی۔ کمیٹی کی رپورٹ جب سپریم کورٹ پہنچے گی تو طویل عرصے تک پڑی رہے گی اور سزا کسی کو نہیں ہو گی کیونکہ اگر پھر سے کیس کھل جاتا ہے تو جنرل (ر) فیض حمید کو سپریم کورٹ میں پیش ہونا پڑے گا۔ یہ پہلا موقع ہو گا کہ کسی سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو عدالت میں پیش ہو کر اپنے اس فیصلے کا دفاع کرنا پڑے گا جسے ریاست مخالف تصور کیا جا رہا ہے۔

صحافی نے کہا کہ میری رائے میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو سپریم کورٹ میں بلایا جائے گا اور نہ ہی انہیں اتنے مشکل وقت سے گزارا جائے گا۔ لیکن اگر ایسا ہو گیا تو یہ پاکستان میں بہت بڑی تبدیلی ہو گی تاہم اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ رپورٹ سپریم کورٹ تک آئے لیکن بعد میں سرد خانے کا حصہ بن جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ فیض حمید کو اس میں نامزد کر دیا جائے اور انہیں عدالت میں طلب کر کے پوچھا جائے کہ یہ سب کیسے کیا گیا؟ اگر انہیں سپریم کورٹ بلایا جاتا ہے تو انہیں ان سوالوں کے جواب دینے پڑیں گے۔