Get Alerts

فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ نے ثابت کردیا کہ سکروٹنی کمیٹی ناکام ہو چکی: اکبر ایس بابر

فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ نے ثابت کردیا کہ سکروٹنی کمیٹی ناکام ہو چکی: اکبر ایس بابر
پاکستان تحریک انصاف کے مالی دستاویزات کی جانچ پڑتال کرنے والے غیرجانبدار مالیاتی ماہرین نے شواہد، ثبوتوں اور مالیاتی جائزے پر مبنی تقریبا100 صفحات پر مشتمل اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ مکمل کرلی ہے جسے غیرقانونی فارن فنڈنگ کیس کےپٹیشنراور پاکستان تحریک انصاف کے بانی رہنما اکبر ایس بابر نے الیکشن کمشن آف پاکستان میں باضابطہ طورپر جمع کرادیا ہے۔  جس کے ہمراہ ایک خط بھی چیف الیکشن کمشنر کو دیا گیا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کی تفصیلات سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ سکروٹنی کمیٹی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ جس کے بعد اسے تحلیل کیاجائے اور الیکشن کمشن بذات خود اس کیس کی جلد ازجلد سماعت کرکے فیصلہ دے۔ اکبر ایس بابر کے دفتر سے جاری شدہ اس پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے  نے مالیاتی ماہر (ایف سی اے) ارسلان وردک اور اپنے وکلاءسید احمد حسن شاہ اور بدراقبال چوہدری کے ہمراہ منگل کو اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں رپورٹ کی تفصیلات سے میڈیا کو آگاہ کیا۔ الیکشن کمشن کی سکروٹنی کمیٹی نے دو رکنی غیرجانبدار مالیاتی ماہرین کو پی ٹی آئی کے مالیاتی حسابات اور بنک اکاونٹس کی جانچ پڑتال کے لئے 55 گھنٹے کا وقت دیا تھا جس کے بعد یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں پیش کردہ حقائق کے مطابق پی ٹی آئی کے غیرقانونی چندے کی مالیت2 ارب 20 کروڑ 12 لاکھ 22 ہزار 482روپے ہے۔یہ غیرقانونی رقم صرف پی ٹی آئی کے اپنے جمع کرائے ہوئے ریکارڈ سے برآمد ہوئی ہے جبکہ مجموعی رقم کا تخمینہ تمام ریکارڈ کی جانچ پڑتال سے سامنے آئے گا۔

اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمشن میں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے ہمراہ جمع کرائے گئے خط میں کہاگیا کہ جو کام سکروٹنی کمیٹی نے ساڑھے تین سال میں مکمل نہیں کیا وہ2 غیرجانبدار مالیاتی ماہرین نے 55 گھنٹے میں مکمل کردیا جو امر کا بین ثبوت ہے کہ سکروٹنی کمیٹی دباو اور بدنیتی کی وجہ سے یہ کام ساڑھے تین سال میں بھی مکمل نہ کرسکی ۔ حالانکہ یہ کام اسے صرف ایک ماہ کی مدت میں مکمل کرنا تھا۔ الیکشن کمشن آف پاکستان کے 14 اپریل 2021 کے حکم نامے کے تحت یہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔

یہ رپورٹ ممتاز مالیاتی ماہرین (چارٹرڈ اکاونٹینٹس) ارسلان ورک اور محمد صہیب نے مرتب کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 14 اپریل 2021 کو الیکشن کمشن کے حکم پر عمل کرتے ہوئے پٹیشنر اکبر ایس بابر نے ارسلان وردک اور محمد صہیب کی خدمات حاصل کیں تاکہ پاکستان تحریک انصاف کے مالی سال 2009 سے 2013 کے الیکشن کمشن میں جمع کرائے گئے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کریں۔ غیرجانبدار مالیاتی ماہرین نے رپورٹ میں انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کا فراہم کردہ ریکارڈ مستند نہیں ۔ پی ٹی آئی کے ریکارڈ کے مستند نہ ہونے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے مالیاتی ماہرین نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے اصل ریکارڈ اور دستاویزات فراہم نہیں کیں۔ جو فوٹوکاپیز فراہم کی گئی ہیں، ان پر نہ تو کسی کے دستخط تھے، نہ ہی وہ تصدیق شدہ تھیں اور نہ ہی ان پر کسی کی مہر لگی ہوئی تھی۔ بنک سٹیٹمنٹس کسی لیٹر ہیڈ کے بغیر فراہم کی گئیں اور ان پر نہ تو دستخط تھے اور نہ ہی مہر تھی۔ عطیات دینے والوں کی فہرست پر کسی کے دستخط نہیں تھے نہ ہی کوئی مہر تھی اور نہ ہی یہ تصدیق شدہ (سرٹیفائیڈ) تھی۔ غیرجانبدار مالیاتی ماہرین کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمشن کی سکروٹنی کمیٹی کو جو ریکارڈ اور دستاویزات فراہم کی ہیں ، اس میں حقائق چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔ لہذا یہ پی ٹی آئی کی مالی بے ضابطگیوں کی مکمل تصویر پیش نہیں کرتی۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہاگیا کہ پی ٹی آئی نے سکروٹنی کمیٹی کے 25 اپریل 2018 کے حکم کی بھی تعمیل نہیں کی اور جو دستاویزات مانگی گئی تھیں، وہ فراہم نہیں کی گئیں۔ پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹریٹ کے 4 ملازمین کے بینک اکاونٹس میں آنے والی غیرقانونی رقوم کا ریکارڈ اور ذرائع کی تفصیلات بھی پی ٹی آئی نے فراہم نہیں کیں حالانکہ پی ٹی آئی ان ملازمین کے اکاونٹس میں آنے والے پیسے کو تسلیم کرتی ہے۔

ان چار ملازمین کو پی ٹی آئی نے چئیرمین عمران خان اور اس وقت کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عارف علوی کی رضامندی سے پاکستان کے اندر اور بیرون ملک عطیات جمع کرنے کی تحریری اجازت دی تھی۔ ان چار ملازمین میں طاہر اقبال (13503-0531080-3)، محمد نعمان افضل (33303-8741547-1) محمد ارشد (38403-6840581-5) اور محمد رفیق (54303-1904185-3) شامل ہیں۔

غیرجانبدار ماہرین کے تجزیے اور جانچ پڑتال کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو مجموعی طورپرہونے والی غیرقانونی فنڈنگ کا تخمینہ مالیت2 ارب 20 کروڑ 12 لاکھ 22 ہزار 482روپے لگایا گیا ہے۔ یہ غیرقانونی فنڈنگ پی ٹی آئی کے الیکشن کمشن میں جمع کرائے گئے اپنے ریکارڈ سے برآمد ہوئی ہے۔ یہ غیرقانونی رقم ڈالرز اور روپے کی شکل میں سامنے آئی ہے اور یہ رقم دینے والوں میں غیرملکی شہری ، غیرملکی کمپنیاں اور پاکستانی کمپنیاںشامل ہیں۔

سکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی کے 28 بنک اکاونٹس کی ایک فہرست مرتب کی ہے جو الیکشن کمشن کے حکم پر براہ راست ملک بھر کے بنکوں اور مالیاتی اداروں سے حاصل شدہ معلومات پر مبنی ہے۔ سکروٹنی کمیٹی کی مرتب کردہ فہرست میں پی ٹی آئی کے 28 بنک اکاونٹس میں سے 5 بنک اکاونٹس کو مختلف بہانوں سے پی ٹی آئی نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ پی ٹی آئی نے 2013 کی اپنی آڈٹ رپورٹ میں ’کے اے ایس بی‘ بنک لمیٹڈ، گلبرگ برانچ، لاہور کے بنک اکاونٹ کو تسلیم کیا ہے تاہم اس بنک کے کھاتوں کی پڑتال کے لئے بنک سٹیٹمنٹ فراہم نہیں کی گئی۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق جانچ پڑتال کے عمل کے دوران پی ٹی آئی کے 5 مزید خفیہ بنک اکاونٹس کا انکشاف بھی ہوا ہے جنہیں پی ٹی آئی نے اپنی بنک سٹیٹمنٹس میں ظاہر نہیں کیا اور نہ ہی ان بنک اکاونٹس کی سٹیٹمنٹس ہی فراہم کی گئیں۔ ان خفیہ بنک اکاونٹس میں تقریبا 16 کروڑ11 لاکھ روپے کی رقم ظاہرشدہ بنک اکاونٹس سے منتقل کی گئی۔

فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں انکشاف کیاگیا کہ پی ٹی آئی نے قانون کے مطابق اپنے تمام بنک اکاونٹس الیکشن کمشن میں ظاہر نہیں کئے یعنی انہیں چھپایا یا خفیہ رکھا گیا ہے۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں یہ بات ثابت ہوئی کہ 2009 سے لے کر 2013 تک پی ٹی آئی نے ہر سال اپنے 16 بنک اکاونٹس کو خفیہ رکھا۔ رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے 2009 میں دو، 2010 میں 2، 2011 میں 2، 2012 میں 2 اور 2013 میں صرف 4 بنک اکاونٹس کو ظاہر کیا۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیاگیا کہ پی ٹی آئی نے 9 بنک اکاونٹس کے دستخط کنندگان (سگنیٹیریز) کی فہرست بھی فراہم نہیں کی اور اس کا کوئی جواز بھی پیش نہیں کیا۔ اکبر ایس بابر نے دعوی کہ عمران خان ، سینیٹر سیف اللہ نیازی اور پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنماوں (سگنیٹیریز) کے نام اس خوف سے دانستہ خفیہ رکھے گئے ہیں تاکہ ان اکاونٹس میں ہونے والی مالی بے ضابطگیوں کا ذمہ دارانہیں نہ ٹھہرایا جاسکے۔ رپورٹ میں قرار دیاگیا کہ بنک اسلامی لمیٹڈ (کے اے ایس بی بنک لمیٹڈ)کا 25 فروری 2019 کا خط جائزے کے لئے فراہم کیاگیا جس میں بنک اکاونٹس کے دستخط کنندگان (سگنیٹیریز) کی نشاندہی کی گئی لیکن اس خط کا دوسرا صفحہ پہلے صفحے کے ساتھ موجود نہیں تھا۔ یہ صفحہ فراہم کیا جانا چاہئے تاکہ بنک کی طرف سے فراہم کردہ معلومات ریکارڈ کا حصہ بن سکیں۔

فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق پٹیشنر (اکبر ایس بابر) نے شواہد پیش کئے ہیں جن میں مشرق وسطی (مڈل ایسٹ) بشمول سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، بحرین اور کویت سے بڑی تعداد میں فنڈنگ (رقوم) کی تفصیل دی گئی ہے تاہم پی ٹی آئی نے مشرق وسطی سے ہونے والی فنڈنگ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ماسوائے بحرین/ جناب احمد سعید سے آنے والے 10 لاکھ 6 ہزار 867 روپے کی رقم کے ،جو مالی سال 2013 میں آئی۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میںپی ٹی آئی کے رہنماوں کو رقوم کی ادائیگیوں کی نشاندہی بھی گئی ہے اور تقاضاکیاگیا کہ رقوم کی ان ادائیگیوں کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ رپورٹ کے مطابق اسد عمر (موجودہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی) کو 14 لاکھ 99 ہزار اور محترمہ عائلہ ملک کو 70 لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی۔ اس کے علاوہ مزید رہنماوں کوبھی رقوم دی گئی ہیں جن کے لئے تحقیقات کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیاگیا ہے کہ تقریبا 26 ملین روپے کی نقد رقم پارٹی چئیرمین عمران خان کے دفتر میں براہ راست جمع کرائی گئی جس کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی۔